"لَا يَتْرُكِ النَّاسُ شَيْئاً مِنْ دِينِهِمْ لِإِصْلَاحِ دُنْيَاهُمْ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُوَ أَضَرُّ مِنْهُ"؛[1] لوگ اپنی دنیوی مصلحتوں کے لیے دین سے استفادہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ہیں، اور خداوند دینی امور کو قربان کر کے ان کے مد نظر دنیوی نفع کے مقابلے میں انہیں زیادہ نقصان سے دوچار کرتا ہے۔
یہ کلام کلمات قصار یا نہج البلاغہ کی حکمتوں میں سے ایک ہے، جس میں فلسفے مضمر ہیں۔ امام علی{ع} اس جملہ میں فرماتے ہیں، دنیا میں لوگوں کے مطالبات اور خواہشیں ختم ہونے والی نہیں ہیں، جب انسان کے لیے دنیا پرستی کا دروازہ کھل جاتا ہے، تو اس کی ہر خواہش، زیادہ طلبی کے لیے تمہیدات پیدا کرتی ہے۔ اس طرح انسان کا خداوندمتعال سے دور ہونا اسی قدر اس کے دنیا اور دنیوی آرزوں کے نزدیک تر ہونے کا سبب بن جاتا ہے، اس لیے ہر وہ کام جس میں دنیوی نفع یا دنیوی مقصد ، دینی دستور کو پامال کر کے ، حاصل کرنا مدنظر ہو، تو وہ دنیا پرستی کے لیے ایک وسیلہ ہے اور اس کا نقصان، نفع سے زیادہ ہوگا، کیونکہ دنیا پرستی انسان کے لیے خدا سے زیادہ دور ہونے کا سبب بن جاتی ہے[2]۔
یہ روایت اس نکتہ کو بیان کرنا چاہتی ہے کہ، اگر انسان دنیوی منافع کمانے کے لیے دینی احکام کو پامال کرے، تو اس کا نتیجہ نقصان ہوگا، یعنی اس معاملہ میں جو نقصان اسے پہنچے گا وہ نفع سے زیادہ ہوگا۔
تقریباً اسی مضمون کی ایک روایت امام جعفر صادق{ع} سے بھی نقل کی گئی ہے:"مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ مَاءِ الْبَحْرِ كُلَّمَا شَرِبَ مِنْهُ الْعَطْشَانُ ازْدَادَ عَطَشاً حَتَّى يَقْتُلَهُ"؛[3] یعنی دنیا کی مثال ، سمندر کے پانی کے مانند ہے، کہ ایک پیاسا انسان جس قدر اسے پی لے، اس کی پیاس زیادہ شدت اختیار کرتی ہے یہاں تک کہ پیاسے کی جان تلف ہوتی ہے، یعنی پیاسا انسان نمکین پانی پی کر اپنے لیے نفع کو مدنظر رکھتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتا ہے کہ درحقیقت وہ نفع کے بجائے نقصان سے دوچار ہوتا ہے۔
[1] نهج البلاغة، حکمت 103.
[2]ملاحظہ ہو: بحرانی ابن میثم، شرح نهج البلاغة، مترجمان، محمدی مقدم، قربانعلی، و دیگران، ج 8، ص 98، مشهد، بنیاد پژوهشهای اسلامی، طبع اول، 1385 ھ ش.
[3]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 70، ص 125، باب حب الدنیا و ذمها، مؤسسة الوفاء، بیروت، س1404ھ.