حضرت معصومہ )ع( شیعوں کے ساتویں امام موسی بن جعفر)ع( کی بیٹی ہیں۔ ان کی والدہ گرامی حضرت نجمہ خاتون ہیں، حضرت معصومہ )ع( اول ذیقعدہ ۱۷۳ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئی ہیں-
۲۰۰ ہجری میں، مامون عباسی کے اصرار اور دھمکیوں کے نتیجہ میں امام رضا)ع( کا مرو کی جانب جلا وطنی کے مانند سفر انجام پایا اور حضرت اپنے خاندان میں سے کسی فرد کی ہمراھی کے بغیر خراسان کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرت امام رضا )ع( کی مرو کی جانب اس جلا وطنی کے مانند مسافرت کے ایک سال بعد ۲۰۱ ھ میں حضرت معصومہ )ع( قم نے اپنے بھائی کے دیدار کے شوق سے اور دین و ولایت کے پیغام کو پہنچانے کی غرض سے اپنے بعض بھائیوں اور بھتیجوں کے ہمراہ خراسان کی طرف عزیمت کی اور ہر شھر و علاقہ میں لوگوں کی طرف سے ان کا والھانہ استقبال کیا گیا۔ شہر ساوہ میں کچھ اھل بیت)ع( کے دشمن تھے اور ان کو حکومتی کارندوں کی حمایت حاصل تھی، انھوں نے اس کاروان کو روکا اور حضرت معصومہ)ع( کے ساتھیوں سے جنگ کی، اس جنگ کے نتیجہ میں اس کا روان کے تقریبا تمام مرد شھید کئے گئے اور ایک روایت کے مطابق حضرت معصومہ)ع( کو بھی مسموم کیا گیا۔
بھر حال حضرت فاطمہ معصومہ)ع( یا اس غم و اندوہ کی وجہ سے یا زھر جفا کی مسمومیت کی وجہ سے بیمار ہوئیں اور چونکہ خراسان کی طرف ان کا سفر جاری رہنا ممکن نہیں تھا اس لئے انھوں نے شہر قم کی طرف رخت سفر باندھا ، تقریبا ۲۳ ربیع الاول ۲۰۱ ھ میں قم میں داخل ہوئیں اور آج کے"میدان میر" نامی محلے میں " موسی بن خزرج" کے گھر میں داخل ہوکر انھیں اپنی میزبانی کا شرف بخشا۔
حضرت معصومہ )ع( نے ۱۷ دن تک اس محلے میں زندگی بسرکی ، آپ کی عبادت گاہ مدرسہ ستیہ میں "بیت النور" نامی پر جگہ تھی اور یہ جگہ اس وقت بھی حضرت معصومہ قم کے عقیدتمندوں کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔
سر انجام ۱۰ ربیع الثانی ، ایک قول کے مطابق ۱۲ ربیع الثانی ۲۰۱ ھ کو اپنے بھائی کا دیدار کرنے سے پہلے اپنے مالک حقیقی سے جاملیں ، حضرت معصومہ )ع( کی رحلت کے بعد موسی بن خزرج نے آپ کی قبر شریف پر ٹاٹ کا ایک سائبان کھڑا کیا اور اس کے بعد زینب بنت امام جواد )ع( نے ۲۵۶ ھ میں اپنی پھپھِی کی قبر مبارک پر پہلا گنبد تعمیر کیا۔ اس کے بعد سالھا سال سے آج تک حضرت معصومہ)ع( کی قبر شریف شیعوں اورعاشقان اھل بیت)ع( کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہے اور اس کی کئی بار تعمیر نو ہوئی ہے اور اس کو وسعت دے کر مکمل کیا جاتا رہا ہے آج اس قبر مطھر پر خوبصورت ضریح اور گنبد کے علاوہ کئی رواق ، ایوان، صحن ، اور کئی گلدستے ہیں۔
مذکورہ حرم کی تعمیرات کا تاریخی سلسلہ حسب ذیل ہے۔
مرقد مطھر
خاندان آل مظفر کے سرپرست" امیر مظفر احمد بن اسماعیل " کے حکم سے ۶۰۵ ھ میں اس زمانہ کے سب سے بڑے کاشی کاری کے استاد " محمد بن ابی طاھر کاشی قمی" کے ھاتھوں رنگ برنگ کاشیوں سے اس مرقد کی تعمیر نو کی اور اس کام کو مکمل کرنے میں آٹھ سال لگ گئے۔ اس کے بعد ۱۳۷۷ ھ ۔ ش ۱۹۹۸ مین اس مرقد مطھر کی کاشی اور پتھروں سے تعمیر نو کی گئی اور اس کی اندرونی دیواروں کو سبز سنگ مرمر سے مزین کیاگیا۔
ضریح
۹۶۵ ھ میں شاہ طھماسب صفوی نے مرقد مطھر کے چاروں طرف ایک ضریح بنائی جو سات رنگ کی کاشیوں سے مزین تھی اور اس میں معرق کتبے لگے ہوئے تھے اس کے اطراف میں پنجرہ کاری تھی جن کے سوراخوں میں سے مرقد مطھر دکھائی دیتا تھا اور زائرین اپنی نذر ونیاز کو ان ہی پنجروں سے ضریح کے اندر ڈالتے تھے۔
۱۲۳۰ ھ میں فتح علی شاہ نے اس ضریح پر چاندی لگادی لیکن زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضریح فرسودہ ہوگئی اور ۱۲۸۰ ھ میں ضریح کی سابقہ چاندی اور خزانہ میں موجود چاندی سے ایک نئی ضریح بنائی گئی اور اسے پرانی ضریح کی جگہ پر نصب کیا گیا۔
اس ضریح کی کئی بار تعمیر نو اور مرمت کی گئی اور سالھا سال تک مرقد پر باقی رہی، یہاں تک کہ ۱۳۶۸ ھجری شمسی میں اس زمانہ کے متولی کے حکم سے ضریح کی شکل کو تبدیل کیا گیا، اور اس کی جگہ پر ایک نفیس اور ہنرمندی کی ایک شاھکار ضریح کو نصب کیا گیا جو ابھی تک باقی ہے، اور ۱۳۸۰ ھ، شمسی میں اس کی مرمت کی گئی۔
رواق:
ضریح کے نزدیک حدود کو رواق کہتے ہیں حرم شریف کے چار رواق ہیں
۱۔ رواق بالائے سر ، یہ رواق بالائے سر مسجد اور ضریح مطھر کے درمیان ہے اس رواق کو آئینہ کاری اور خوبصورت گچ کاری سے مزین کیا گیا ہے۔
۲۔ رواق دار الحفاظ ، یہ رواق، ایوان طلا اور ضریح کے درمیان ہے۔
۳۔ رواق آئینہ شھید بہشتی یہ رواق عورتوں کے حصہ میں حضرت معصومہ )ع( کے پائے مبارک کی طرف ہے۔
۴۔ رواق پیشرو، یہ رواق ، مسجد طباطبائی اور ضریح کے درمیان ہے۔
صحن
حرم مطھر کے تین صحن ہیں:
۱۔ صحن نو )اتابکی)
اس خوبصورت صحن کے چار ایوان ہیں جو شمالی ، جنوبی ، مشرقی اور مغربی ایوان کے نام سے مشھور ہیں، ایوان شمال کا دروازہ میدان آستانہ کی طرف، ایوان جنوبی کا دروازہ قبلہ کی طرف ، ایوان مشرقی کا دروازہ خیابان ارم کی طرف ہے اور ایوان مغربی وہی ایوان آئینہ ہے ان ایوانوں میں سے ہر ایک ایوان میں بہترین فن کاری ، ہنرمندی اور معماری سے کام لیا گیا ہے۔ یہ صحن ۱۲۹۵ ھ سے ۱۳۰۳ ھ تک ( صدر اعظم میرزا علی اصغر خان کے ذریعے سے) تعمیر کئے گئے ہیں
۲۔ صحن عتیق (قدیم)
صحن عتیق (روضہ مبارکہ کے شمال میں واقع) پہلا صحن ہے جو اس بارگاہ میں تعمیر کیا گیا ہے اس صحن میں چار خوبصورت ایوان ہیں ایک با عظمت ایوان اس کے جنوب میں ہے جسے ایوان طلا کہتے ہیں ( اس ایوان سے روضہ کے اندر داخل ہوتے ہیں) اور ایک ایوان اس صحن کے شمال میں ہے، یہاں پر مدرسہ فیضیہ سے صحن میں داخل ہونے کا درواہ ہے اور اس ایوان پر نقارہ خانہ بنایا گیا ہے اور ایک ایوان اس صحن کے مغرب میں واقع ہے جہاں پر مسجد اعظم سے اس صحن میں داخل ہوتے ہیں اور مشرق میں وہ ایوان ہے جس سے صحن عتیق سے صحن نو میں داخل ہوتے ہیں، اس صحن اور اس کے اطراف میں واقع ایوانوں کو شاہ اسماعیل صفوی کی "شاہ بیگی" نامی شریک حیات نے ۹۲۵ ھ میں تعمیر کرایا ہے ۱۳۷۷ ھ سے اس صحن اور اس کے اطراف میں موجود مقبروں کی تعمیر شروع ہوئی ہے جو ابھی تک جاری ہے۔
۳۔ صحن صاحب الزمان
یہ صحن اس سے متعلق حجروں کے سمیت آٹھ ھزار مربع میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس کے چاروں طرف داخل ہونے کے دروازے ہیں، اس صحن کی تعمیر ۱۳۸۱ ھ شمسی میں شروع ہوئی اور ۱۳۸۴ ہجری شمسی میں اس کا افتتاح کیا گیا ) اس صحن کے مشرق میں شبستاں امام خمینی ، مغرب میں پل آھینچی شمال میں مسجد اعظم اور جنوب میں ایک نئی تعمیر شدہ سڑک کی طرف دروازے ہیں) اس صحن کے اطراف میں دیواروں پر نقشہ نگاری کئے گئے قرآن مجید کی آیات پر مشتمل خوبصورت کتبے ہیں، جنھیں سفید سیمنٹ اور اینٹوں سے خط بنائی اور خط کوفی میں مزین کیا گیا ہے۔
گل دستے
۱۔ ایوان طلا کے گل دستے :
صحن عتیق میں اس ایوان کے دونوں طرف ، کاشی ٹائیلوں سے مزین کئے گئے مار پیچ صورت میں گل دستے ہیں، ) جن کی سطح بام سے بلندی ۴۰ /۱۷ میٹر اور ان کا قطر ۰۵/۱ میٹر ہے) ان گل دستوں کے پیچوں کے درمیان خط کوفی میں " اللہ " ،"محمد" اور " علی" لکھا گیا ہے ، ان کے اوپر ایک کتبہ ہے ، جس میں " ان اللہ و ملائکتہ یصلون" لکھا گیا ہے، ان گل دستوں ( ماذونوں( کی " محمد حسین خان شاھسون شہاب الملک " کے توسط سے ۱۲۸۵ حجری میں طلا کاری کی گئی ہے اس کے بعد ۱۳۸۵ ہجری شمسی میں ان گل دستوں کی پھر سے مرمت کی گئی ہے اور ان گل دستوں کے سروں کی طلا کاری کی گئی ہے۔
۲۔ ایوان آئینہ کے گل دستے :
اس ایوان کے اوپر دو گل دستے ( ماذن) ہیں ، جو اس آستان کے بلند ترین تعمیرات شمار ہوتے ہیں۔
ان گل دستوں کی بلندی سطح بام سے ۲۸ میٹر اور سطح صحن سے ۴۲/۸۰ میٹر ہے اور ان کا محیط ۳/۳۰ میٹر ہے ان گل دستوں پر تقریبا ایک میٹر پر پھیلا ہوا ایک کتبہ دکھائی دیتا ہے کہ جس کا متن ایک گل دستہ پر '"لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم" اور دوسرے گل دستہ پر " سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر" ہے
ان دونوں گل دستوں پر اوپر سے نیچے تک کاشی کاری کی گئی ہے۔ اور ان کے درمیان پروردگار عالم کے اسمائے گرامی پڑھے جاتے ہیں۔
ان گل دستوں کا بانی امین سلطان اور معمار ، استاد حسن معمار قمی ہے اور مذکورہ گل دستوں کی کاشی کاری ، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دوبارہ کی گئی ہے۔
بڑے صحن کے گل دستے
بڑے صحن ( صحن نو یا صحن اتابک) مین ، گل دستے، ایوان آئینہ کے اوپر واقع ہیں ، ان گل دستوں کو آٹھ ضلعوں والی کاشی سے مزین کیا گیا ہے ان گل دستوں کے چاروں ضلعوں پر اوپر سے نیچے تک "اللہ " ، محمد" ، "علی" لکھا گیا ہے۔
اس سلسلے میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لیے آپ www.masomeh.com کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ [1]