سوال کا خلاصہ
غدیر خم کیوں اس نام سے مشہور ہے؟
سوال
غدیر خم کے معنی کیا ہیں؟ اور عید غدیر خم کیوں اس نام سے مشہور ہے؟
ایک مختصر
لغت میں لفظ " غدیر" کے کئی معنی ذکر کئے گئے ہیں، جیسے: تالاب[1]، پانی کا ایک حصہ[2]، اور بارش کا پانی جمع حونے کی جگہ-[3]
غدیر خم، عالم اسلام کے دوبڑے اور اہم شہروں، یعنی مکہ اور مدینہ کے درمیان " جحفہ" نامی ایک جگہ پر واقع ہے کہ رسول خدا {ص} کے زمانہ میں حج کے کاروان اس جگہ پر ایک دوسرے سے جدا ھوکر اپنے اپنے وطن کی طرف روانہ ھوتے تھے- اس جگہ کو غدیر خم کے نام سے مشہور ھونے کے بارے میں کئی احتمالات بیان کئے گئے ہیں، جیسے: اس علاقہ کے آب و ہوا کی وجہ سے یہ جگہ اس نام سے مشہورہوئی ہے-[4]
پیغمبر اسلام {ص} نے خداوند متعال کے حکم سے، غدیر خم میں امام علی {ع} کولوگوں میں امام، اپنے وصی اور جانشین کے عنوان سے متعارف کرایا-
اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے مندرجہ ذیل عناوین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
" ابلاغ ولایت درغدیر" سوال: ۱۹۵۵
" اثبات امام علی {ع} از قرآن" سوال: ۳۲۴
غدیر خم، عالم اسلام کے دوبڑے اور اہم شہروں، یعنی مکہ اور مدینہ کے درمیان " جحفہ" نامی ایک جگہ پر واقع ہے کہ رسول خدا {ص} کے زمانہ میں حج کے کاروان اس جگہ پر ایک دوسرے سے جدا ھوکر اپنے اپنے وطن کی طرف روانہ ھوتے تھے- اس جگہ کو غدیر خم کے نام سے مشہور ھونے کے بارے میں کئی احتمالات بیان کئے گئے ہیں، جیسے: اس علاقہ کے آب و ہوا کی وجہ سے یہ جگہ اس نام سے مشہورہوئی ہے-[4]
پیغمبر اسلام {ص} نے خداوند متعال کے حکم سے، غدیر خم میں امام علی {ع} کولوگوں میں امام، اپنے وصی اور جانشین کے عنوان سے متعارف کرایا-
اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے مندرجہ ذیل عناوین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
" ابلاغ ولایت درغدیر" سوال: ۱۹۵۵
" اثبات امام علی {ع} از قرآن" سوال: ۳۲۴
[1] - لغت نامه دهخدا، واژه «غدیر».
[2] -«الغَدِيرُ: القطعة من الماء»؛ جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح (تاج اللغة و صحاح العربیة)، محقق و مصحح: عطار، احمد عبد الغفور، ج 2، ص 766، دار العلم للملایین، بیروت، طبع اول، 1410ق.
[3] -«الغَدير: مُستنقَع ماء المطر»؛ابن فارس، أحمد، معجم مقائیس اللغة، محقق و مصحح: هارون، عبدالسلام محمد، ج 4، ص 413، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، قم، طبع اول، 1404ق.
[4] -«خم البلاد: ماء و هواء»؛ طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تحقیق: حسینی، سید احمد، ج 6، ص 59، کتابفروشی مرتضوی، تهران، طبع سوم، 1375ش.