حاجت روا ھونے کیلئے ایک اھم سبب نذر کرنا ھے۔ جس کے خاص آداب ھیں ۔ من جملھ یھ کھ نذر میں "صیغھ" پڑھنا ضروری ھے۔ لیکن یھ ضروری نھیں کھ صیغھ عربی زبان میں ھی ھو۔ مثال کے طور پر اگر کهے نذر کرتا ھوں کھ اگر میرا بیمار ٹھیک ھوجائے تو خدا کے لئے مجھه پر لازم ھے کھ میں سو روپیھ فقیر کو دوں، تو اس کی نذر صحیح ھے۔ نذر کے شرائط میں سے یھ ھے کھ نذرکرنے والا مکلف اور عاقل ھو، اور اپنے اختیار سے نذر کرے، پس مجبور انسان کی نذر یا جو غصھ میں آکر نذر کرتا ھے، صحیح نھیں ھے۔ اور جو کام وه نذر کے طور پر انجام دیتا ھے اس میں ایک قسم کا رجحان ھونا چاھئے اور اس کام کا انجام دینا اس کیلئے ممکن اور اس کی طاقت میں ھو، پس نذر یھ ھے کھ انسان اپنے اوپر واجب کرے کھ کسی نیک کام کو خدا کے لئے انجام دے یا جس کام کا انجام نھ دینا بھتر ھے اس کو خدا کے لئے ترک کرے [1]
لیکن کس نذر میں زیاده اثر ھے، جوھمیں جلدی اپنے حاجات تک پھنچا دے۔ تحقیق کے مطابق جو نذر ائمھ طاھرین علیھم السلام کے لئے ھو وه سب سے تیز اور زیاده اثر رکھتی ھے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نذر کرے کھ اگر اس کے حاجات روا ھوئے تو ایک ختم قرآن کرکے اس کے ثواب کو چوده معصومین علیھم السلام میں سے کسی ایک معصوم کو ھدیھ کرے گا۔ یا یھ نذر کرے کھ روزه رکھے گا یا چالیس دن تک زیارت عاشورا پڑھے گا ۔
البتھ قابل توجھ نکتھ یھ ھے کھ ھم کبھی حاجت مانگتے ھیں اورجتنی بھی کوشش کرتے ھیں اورنذرو نیاز کرتے ھیں اپنی حاجت تک نھیں پھنچتے ، توجھ رکھنی چاھئے کھ یھ چیز نذر کی اھمیت کو کم نھیں کرتی ھے بلکھ بھت سے موارد میں ھم اپنے لئے کوئی چیز ضروری سمجھتے ھیں اور اس کو حاصل کرنے کیلئے دوڑ دھوپ کرتے ھیں، لیکن چونکه وه ھماری مصلحت اورخیر میں نھیں ھوتی ھے اور ممکن ھے مستقبل میں وه ھمارے ضرر میں ھو اس لئے خدا ھماری حاجت پوری کرنے میں دیر کرتا ھے یھاں تک کھ اس کا موقع آجائے۔ اورکبھی ھم کسی چیز کو پسند کرتے ھیں جب کھ وه ھمارے ضرر میں ھوتی ھے اورکبھی کوئی چیز ھمیں بری لگتی ھے لیکن وه ھمارے نفع اور مصلحت میں ھے۔ پس جب خدا مصلحت جانے انسان کی ضرورت اور حاجت کو رفع کرتا ھے ، اور حاجت میں تاخیر ھونا نذر کی اھمیت کم ھونے کی دلیل نھیں ھے۔