سائٹ کے کوڈ
fa1301
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
2662
گروپ
کلام جدید
سوال کا خلاصہ
علم ودین کے در میان پائے جانے والے بعض تضاد کے پیش نظر ان دو کے در میان کیسا رابطه هے؟
سوال
مندرجه ذیل چند سوالات پیش کئے جاتے هیں:
١- کیا معرفت کے لحاظ سے دین جذ بات پر مبنی نهیں هے؟ جبکه علوم کا سر چشمه ادراک هے- جس قدر ادیان کی تشریع کے آغاز سے وقت گذر تا هے ، دین میں اضافات هوتے جارهے هیں اور اس میں قوموں کے رسم ورسوم آمیخته هو تے جارهے هیں اور اس طرح اس کے اصول میں ان اضافات اور رسم ورسوم کی ملاوٹ هو تی جارهی هے ، لیکن اس کے برعکس علم کی ابتدا سے جس قدر وقت گزرتا جائے ، علم روز بروز بے آلائش تر اور واضح تر اور نتیجه بخش ترهوتا
جارها هے-
٢- یه جو آپ پروپیگنڈا کرتے هیں که اگر اصول اور ضروریات دین میں شک وشبهه واختلاف پیدا هو جائے تو اس کے پیرٶں کی بے ایمانی کا سبب بن جائے گا اور اس دین کے ارکان میں سستی کا سبب بن جائے گا ، لیکن علمی مسائل میں شک اس میں یقین پیدا هو نے کا سبب بن جاتا هے –
٣- یه جو کها جاتا هے که دین سلیقه وذوق پر مبنی هے اور هر کوئی هر دین ومسلک کو اختیار کر سکتا هے ، جس کے نتیجه میں یکجهتی حاصل نهیں هوتی هے – حالانکه علم میں ، راه کے واضح هونے اور اس کی عینیت کے پیش نظرسب متفق هیں اور ایک عقیده پر استوار هیں – ممکن هے ایک علمی عقیده آج اختلاف و پریشانی سے دو چار هو جائے – لیکن امید هے کل یه اختلاف دور هو جائےگا، جبکه دین میں ایسا نهیں هے-
خلاصه یه که خوش فهمی کے عالم میں ، دین انسان کے لئے ایک اخلاقی معاشره تشکیل دے سکتا هے ( بشرطیکه خود دین فاسد نه هو جائے ، چونکه جب بھی دین ایک معاشرے میں داخل هو تا هے اس کے نقصانات اس کے فوائد کی نسبت زیاده هو تے هیں) تاکه انسان کو زوال سے دوچار هو نے سے نجات دیدے ( سماجی اور اخلاقی علوم و...) اور اسی طرح فطرت کی معرفت حاصل کر نے اور اس کے قوانین سے آگاهی حاصل کر نے سے انسان کی مادی و معنوی زندگی کو ارتقا بخشا جاسکتا هے ، کیا یه بهتر نهیں هے که ایک عمیق غور و فکر کر کے کائنات کی حقیقت سے آگاه هو کر حقیقت کے نور کو دینی تعلیمات کے بجائے کائنات کے منطقی حقائق سے حاصل کیا جائے؟
١- کیا معرفت کے لحاظ سے دین جذ بات پر مبنی نهیں هے؟ جبکه علوم کا سر چشمه ادراک هے- جس قدر ادیان کی تشریع کے آغاز سے وقت گذر تا هے ، دین میں اضافات هوتے جارهے هیں اور اس میں قوموں کے رسم ورسوم آمیخته هو تے جارهے هیں اور اس طرح اس کے اصول میں ان اضافات اور رسم ورسوم کی ملاوٹ هو تی جارهی هے ، لیکن اس کے برعکس علم کی ابتدا سے جس قدر وقت گزرتا جائے ، علم روز بروز بے آلائش تر اور واضح تر اور نتیجه بخش ترهوتا
جارها هے-
٢- یه جو آپ پروپیگنڈا کرتے هیں که اگر اصول اور ضروریات دین میں شک وشبهه واختلاف پیدا هو جائے تو اس کے پیرٶں کی بے ایمانی کا سبب بن جائے گا اور اس دین کے ارکان میں سستی کا سبب بن جائے گا ، لیکن علمی مسائل میں شک اس میں یقین پیدا هو نے کا سبب بن جاتا هے –
٣- یه جو کها جاتا هے که دین سلیقه وذوق پر مبنی هے اور هر کوئی هر دین ومسلک کو اختیار کر سکتا هے ، جس کے نتیجه میں یکجهتی حاصل نهیں هوتی هے – حالانکه علم میں ، راه کے واضح هونے اور اس کی عینیت کے پیش نظرسب متفق هیں اور ایک عقیده پر استوار هیں – ممکن هے ایک علمی عقیده آج اختلاف و پریشانی سے دو چار هو جائے – لیکن امید هے کل یه اختلاف دور هو جائےگا، جبکه دین میں ایسا نهیں هے-
خلاصه یه که خوش فهمی کے عالم میں ، دین انسان کے لئے ایک اخلاقی معاشره تشکیل دے سکتا هے ( بشرطیکه خود دین فاسد نه هو جائے ، چونکه جب بھی دین ایک معاشرے میں داخل هو تا هے اس کے نقصانات اس کے فوائد کی نسبت زیاده هو تے هیں) تاکه انسان کو زوال سے دوچار هو نے سے نجات دیدے ( سماجی اور اخلاقی علوم و...) اور اسی طرح فطرت کی معرفت حاصل کر نے اور اس کے قوانین سے آگاهی حاصل کر نے سے انسان کی مادی و معنوی زندگی کو ارتقا بخشا جاسکتا هے ، کیا یه بهتر نهیں هے که ایک عمیق غور و فکر کر کے کائنات کی حقیقت سے آگاه هو کر حقیقت کے نور کو دینی تعلیمات کے بجائے کائنات کے منطقی حقائق سے حاصل کیا جائے؟