دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای {مدظلہ العالی}:
ج۱۔ اگر اس طرح اجیر ہوا ہو کہ اس میں ذاتی طور پر پڑھنے کی شرط نہ ہو اور دوسرے کو واگزار کرنے کے قابل ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے۔
ج۲۔ سوال کے فرضیہ کے مطابق قیمت کے تفاوت کے بارے میں احوط ہے کہ مصالحت کی جائے۔
ج۳۔ میت کے وارثوں کو راضی کرنا ضروری ہے۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی {مدظلہ العالی}:
۱۔ اجیر ہوا شخص اجارہ کو دوسرے کے نام واگزار نہیں کرسکتا ہے، مگر یہ کہ اجازت حاصل کرے۔
۲،۳۔ کسی طرح ان کی رضامندی حاصل کرنی چاہئیے۔
حضرت آیت اللہ مھدوی ہادوی تہرانی {دامت برکاتہ} کا جواب حسب ذیل ہے:
۱۔ اگر اجارہ کے وقت اس قسم کی اجازت آپ کو دی گئی ہے کہ آپ ان نمازوں کو خود یا کسی دوسرے کے ذریعہ انجام دلا سکتے ہیں یا اس قسم کا مطلب طرفین کے ذہن میں یا قرارداد کی ذہنی فضا میں موجود ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر ایسا نہ ہو، تو آپ میت کے وارثوں سے اجازت لے کر یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔
۲۔ اگر آپ پیسوں کو واپس کرنا چاہتے ہیں، یعنی قرارداد کو فسخ کرنا چاہتے ہیں اگر یہ حق رکھتے ہوں۔ یعنی طرف مقابل بھی اسے قبول کرے یا کم از کم قرارداد میں اس فرض پر فسخ کرنے کا حق موجود ہو---- تو صرف قرارداد کے مبلغ کو واپس کرنا چاہئیے، روزمرہ قیمت آپ کے ذمہ نہیں ہے۔
۳۔ آپ مقروض ہیں، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، تو جب ممکن ہو اسے ادا کیجئیے۔ توجہ کیجئیے کہ وقت گزرنا قرض کے ساقط ہونے کا سبب نہیں بن سکتا ہے اور اگر آپ آخر عمر تک بھی اس قرض کو ادا نہیں کریں گے، تو آپ کے مرنے کے بعد آپ کے ترکہ سے یہ قرض ادا کیا جانا چاہئیے۔ بیشک ممکن ہونے کی صورت میں قرض ادا نہ کرنا جائز نہیں ہے۔