دفتر آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای {مدظلہ العالی}:
اگر مذکورہ قبرستان وقف کی ہوئی زمین اور کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو اور ایسی جگہ نہ ہو جسے عام لوگ اور وہاں کے باشندے تقریبات کے لیے استعمال کرتے ہوں اور اس پر مسجد تعمیر کرنا قبرستان کی بے احترامی، اور مسلمانوں کی قبریں کھولنے کا سبب نہ بنے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔
دفتر آیت اللہ العظمیٰ سیستانی {مدظلہ العالی}:
اگر دفن کے لیے زمین وقف نہ کی گئی ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے۔
دفتر آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی {مدظلہ العالی}:
اس صورت میں قبرستان کو مسجد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت کسی صورت میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہو اور مسجد تعمیر کرنا ، قبر کھولنے، خاص کر علماء کی قبریں کھولنے کا سبب نہ بنے لیکن اس مسجد میں نماز پڑھنا، بہرحال جائز ہے، ضمناً توجہ رکھنی چاہئیے کہ اگر زمین قبرستان کے لیے وقف ہو چکی ہو تو صرف اسی کام کے لیے اس سے استفادہ کرنا چاہئیے، مگر یہ کہ وہاں پر دفن کرنا کسی وجہ سے ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اس کو بیچنا چاہئیے اور اس کے پیسوں کو قبرستان خریدنے میں صرف کرنا چاہئیے اور اگر ضرورت کے مطابق قبرستان موجود ہو، تو اس زمین سے مسجد ، امام بارگاہ، کتاب خانہ اور ان جیسی چیزوں کے لیے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی {دامت برکاتہ} کا جواب حسب ذیل ہے:
اگر قبرستان کی زمین، قبرستان کے لیے وقف خاص نہ ہو، یا مسجد کو اس طرح تعمیر کیا جائے کہ وہاں پر دفن کرنے کا امکان ختم نہ ہو جائے، مثال کے طور پر مسجد کو بلندی {زمین سے اوپر} پر تعمیر کیا جائے، اور وقف نامہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو جائے، تو قبرستان میں مسجد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر زمین قبرستان کے لیے وقف خاص ہو، اور مسجد دفن کرنے میں رکاوٹ بنے، تو اس صورت میں جائز نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اس زمین سے قبرستان کے عنوان سے استفادہ کرنا کسی وجہ سے ختم ہو جائے، جیسے زمین کا رہائشی علاقہ میں واقع ہونا اور آلودگی پھیلنے کا سبب بننا ، اور فقیہ جامع الشرائط کے نظریہ کے مطابق زمین کو قبرستان سے مسجد میں تبدیل کیا جائے۔