موت سے ڈرنے کے مختلف عوامل اور وجوہات ہو سکتے ہیں، یہاں پر ہم ان عوامل میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ بہت سے لوگ، موت کو فنا اور نابودی سے تفسیر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انسان فنا اور نابودی سے خائف ہے۔ اگر انسان، موت کی یہی تفسیر کرے تو قطعاً اس سے بھاگے گا، اس لحاظ سے، حتی کہ زندگی کے بہترین حالات میں بھی ، موت کی فکر، زندگی کی شیرینی کو تلخی میں تبدیل کرتی ہے اور اسی وجہ سے انسان ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔
۲۔ ایسے انسان بھی ہیں،جو موت کو زندگی کا خاتمہ نہیں جانتے ہیں، اور معاد پر اعتقاد رکھتے ہوئے، اپنے ناپسند اور برے اعمال کی وجہ سے موت سے ڈرتے ہیں اور اس سے خوفزدہ رہتے ہیں، کیونکہ وہ موت کو اپنے منحوس اعمال کے نتائج سے دوچار ہونے کا آغاز دیکھتے ہیں۔ اس بنا پر، الہٰی محاسبہ اور کیفرکردار سے فرار کرنے کے لیے چاہتے ہیں کہ جس قدر ممکن ہو موت آنے میں تاخیر واقع ہو۔
ایک شخص نے پیغمبراکرم{ص} سے پوچھا: میں کیوں موت کو پسند نہیں کرتا ہوں؟ آنحضرت{ص} نے جواب میں فرمایا: کیا مال و دولت رکھتے ہو؟ عرض کی : جی ہاں، فرمایا: کیا اس میں سے کسی چیز کو اپنے سے پہلے بھیجا ہے؟ عرض کی: نہیں، فرمایا: اسی لیے موت کو پسند نہیں کرتے ہو[1]۔
یہ وہی چیز ہے کہ امام علی{ع} اپنے ایک حکمت آمیز کلام میں نالہ و زاری کرتے ہوئے انتباہ کرتے ہیں: " افسوس؛ توشہ آخرت کی کمی اور راہ کے طولانی ہونے، سفر کے دور ہونے اور مقصد اور دوسری دنیا کے وسیع ہونے پر[2]"
۳۔ حضرت امام صادق{ع} فرماتے ہیں: " ایک شخص نے ابوذر سے پوچھا: ہم کیوں موت سے ڈرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: اس لیے کہ تم نے اپنی دنیا آباد کی ہے اور اپنی آخرت کو ویران کیا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ تم آباد جگہ سے ویران جگہ کی طرف منتقل ہونا پسند نہیں کروگے۔[3]"
چنانچہ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ موت سے ڈرنے کی وجہ ، آخرت کے لیے کوشش نہ کرنا، بلکہ اس کی طرف توجہ نہ کرنا اور دنیا کو اہمیت دینا ہے اور یہی آخرت کی ویرانی کا سبب بن جاتا ہے۔
انسان کو یقین رکھنا چاہئیے کہ موت، آخرت میں قدم رکھنا اور اس دنیا کی کوششوں کا نتیجہ دیکھنا ہے۔ اس اعتقاد کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے شرعی اور انسانی فرائض پر عمل کرے اور خداوندمتعال کی وسیع رحمت کا امیدوار رہے۔ اس صورت میں انسان نہ صرف موت سے نہیں ڈرتا ہے، بلکہ خداوندمتعال سے ملاقات کے لحاظ سے اسے پسند کرے گا اور اس سے محبت کرے گا۔
پیغمبراکرم{ص} نے فرمایا ہے: " موت، مومن کے لیے تحفہ ہے۔[4]"
امیرالمومنین{ع} نے فرمایا ہے: " خدا کی قسم؛ فرزند ابوطالب کو، ایک شیرخوار بچے کو اپنی ماں کے پستانوں سے محبت کی بہ نسبت موت سے زیادہ محبت ہے۔[5]"
اس بنا پر، موت سے نہ ڈرنے کا طریقہ ، آخرت کی طرف توجہ کرنا ہے، کیونکہ خداوندمتعال اور قیامت کا اعتقاد نہ رکھنا ، آخرت کو فراموش کرنا اور اس کے لیے توشہ راہ فراہم نہ کرنا ہے اور یہ موت سے ڈرنے کے بنیادی عوامل ہیں۔
[1].شیخ صدوق، خصال، ترجمه کمره ای، ج 1، ص 69، کتابچی، تهران، طبع اول، 1377ھ ش.
[2]. «آه مِنْ قِلَّةِ الزّادِ وَ طُولِ الطَّریقِ وَ بُعْدِ السَّفَرِ وَ عَظیمِ الْمُورِدِ»؛ تمیمی آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم و درر الکلم، ص 144، دفتر تبلیغات اسلامی، قم، 1366ھ ش.
[3]. «عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي ذَرٍّ فَقَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَا لَنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ فَقَالَ لِأَنَّكُمْ عَمَرْتُمُ الدُّنْيَا وَ أَخْرَبْتُمُ الْآخِرَةَ فَتَكْرَهُونَ أَنْ تُنْقَلُوا مِنْ عُمْرَانٍ إِلَى خَرَابٍ»؛ کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر؛ آخوندی، محمد، ج 2، ص 458، دارالکتب الاسلامیة، تهران، طبع چهارم، 1407ھ.
[4]. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج 70، ص171، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1409ھ.
[5]. نهج البلاغة، ص 52، خ 5.