اگر آپ کی مراد یھ ھے کھ انسان کو اپنی زندگی کی نعمت ختم کرنے کی اجازت کیوں نھیں دی گئی ھے تو اسکے جواب میں یوں کھیں گے:۔
۱۔ ھر انسان کی عقل و فطرت یھ سمجھتی ھے، کھ دنیا کی نعمتوں میں سے کسی ایک نعمت کا خاتمھ کرنا ایک مذموم اور غیر اخلاقی حرکت ھے۔ اور یھ بات اتنی واضح ھے کھ انسانیت کے سب لوگ جس عمر اور جس مذھب کے بھی ھوں اس کا ادراک کرلیتے ھیں ۔ اسی لئے دنیا میں ، خداداد نعمتوں کی حفاظت کیلئے بھت سارے عالمی ادارے ، مختلف ناموں جیسے اداره حفاظت ماحول ، اداره حفاظت حیوانات وغیر موجود ھیں ۔ اس کے علاوه زمین پر حیات کی بقاء کیلئے ، بھت سارے عالمی ادارے بنائے گئے ھیں ، جو مختلف قوانین بنا کر خداداد نعمتوں کو عالمی سطح پر محفوظ اور کنٹرول کرتے ھیں۔ جب کھ عقل اور انسانی فطرت خدا کی چھوٹی سی چھوٹی نعمتوں کو برباد کرنے کی اجازت نھیں دیتی اور اسے ایک غلط کام جانتی ھے ، انسان کے لئے کس طرح سب سے بڑی نعمت یعنی زندگی کو ختم کرنے کا حق بنتا ھے؟
اس مقدمھ سے یھ بات واضح ھوتی ھے کھ یھ فکر کھ انسان اپنی حیات کو ختم کرسکتا ھے حقیقت میں عقل اور انسانی فطرت سے انحراف ، اس طرح کی بیماری ھے جس کا علاج کرنا ضروری ھے آجکل کی دنیا میں اس بیماری کے علاج کیلئے بھت سارے مراکز بنائے گئے ھیں جھاں ڈاکٹر صاحبان مختلف نفسیاتی طریقوں سے ان بیماریوں کا علاج کرتے ھیں۔
۲۔ دین مبین اسلام کے سب احکام اور قوانین بھی عقل اور فطرت اور حقیقت کی بنیاد پر ھیں ، خود کشی اوراپنی زندگی کا خاتمھ بھی اسلام نے ممنوع اور غیر مشروع جانا ھے
۳۔ اسلامی نقطھ نظر سے اور قرآنی معارف میں عالم خلقت کا مالک خدائے متعال ھے[1] اور خداوند متعال نے ان نعمتوں کو ھمارے اختیار میں قرار دیا ھے تا کھ اھم انھیں اپنی سعادت کے کمال کیلئے استعال کرسکیں ، اس لئے ان نعمتوں کا ضایع کرنا اور انھیں ختم کرنا ان نعمتوں کے مالک کی رضا کے خلاف ھے اور ھماری عقل حکم کرتی ھے کھ مالک کی رضا کا ان امور میں جو اس نے ھمارے سپرد کئے ھیں،خیال رکھنا چاھئے اور اس کی نظر کے خلاف کوئی کام انجام نھیں دینا چاھئے۔
۴۔ سب سے اھم نکتھ یھ کھ اسلام میں خود کشی حرام ھونے کی حکمت صرف انفرادی حیات ( جو کھ خود کشی کا قصد کرتا ھے ) کی حفاظت ھی نھیں بلکھ اسلام نے اس حکم سے پورے انسانی سماج کو نابودی کے خطره سے بچا لیا ھے جس کی وضاحت یھ ھے کھ جب خود کشی حرام ھوئی اور کوئی فرد اپنے آپ کو اپنے مالک ( جو اسکا حقیقی مالک ھے ) کی نظر میں نھیں مارسکتا تو اسے دوسرے لوگوں کو مارنے کی اجازت بھی نھیں ھوگی اور خودکشی کا منع ھونا اس طرح کی بیماری کو سماج میں پھیلنے کیلے رکاوٹ بنے گا ۔
بھر حال کچھه افراد خود کشی کا اقدام کریں گے جو روحانی اور عقلی لحاظ سے اس بیماری اور گمراھی میں مبتلا ھوئے ھوں جو لوگ اس حد تک بیمار ھوں کھ وه اپنے آپ کو مار ڈالنے پر تلے ھوئے ھیں اور اپنے اوپر رحم نھیں کرتے ان سے یھ امید بھی نھیں کی جاسکتی کھ وه دوسروں پر رحم کریں گے اور بے گناه افراد کو مار نھ ڈالیں گے ۔ اگر چھ اس سلسلے میں بعض مستثنی بھی ھیں لیکن اگر قانون اور مذھب، کلی طور پر خود کشی کی اجازت دے اور ان افراد سے کھے کھ تم اپنے آپ کو مار سکتے ھو ، تو اس کا لازمھ یھ ھوتا ھے کھ قانون نے خود ھی انسان کی نابودی کا اقدام کیا ھے اس لئے اسلام میں " خود کشی " سب سے بڑا گناه جانا گیا ھے اور جو بھی اس عمل کا ارتکاب کرے اس کے لئے سخت عذاب ھے۔[2]