مراجع تقلید کے دفتروں سے موصول هونے والے جوابات یه هیں :
غیر اسلامی ممالک میں غیر مسلم افراد کامال غصب کرنا اور قبضه کرنا اگر مسلمانوں سے جنگ کے زمانے میں نه هو تو جائز نهیں هے اور اگر کافر مسلمانوں سے جنگ کر رهے هوں تو بھی بهتر یه هے که مسلمان ایسا کام انجام نه دیں [1] ۔
آیت الله العظمیٰ فاضل لنگرانی(ره) کے دفتر سے موصول کتبی جواب :
اگر کفار مسلمانوں سے جنگ کر رهے هوں تو کوئی مضائقه نهیں هے لیکن دیگر حالات میں جائز نهیں هے اور صلح کی صورت میں ان (کافروں ) کا مال بھی محترم هے ۔
آیت الله العظمیٰ بهجت ( دام ظله) کے دفتر سے موصول کتبی جواب:
جب تک صلح ( هدنه)[2] کء سبب ان کا مال محترم هے ، جائز نهیں هے ، مگر جنگ کے زمانے میں حاکم شرع کی خصوصی اجازت سے یا اس (حاکم) کے عام اعلان کے ذریعه هے تو کوئی مضائقه نهیں هے ۔
آیت الله العظمیٰ مکارم شیرازی (دام ظله) کے دفتر سے موصول کتبی جواب :
اس کام کے منفی اثرات کے پیش نظر اور چوں که یه کام اسلام اور مسلمانوں کی توهین کا سبب هے لهذا جائز نهیں هے ۔