چونکہ خداوند متعال مطلق طور پر فیاض ہے اور اس کا فیض دائمی ہے، اس لئے اس فیاضیت کا تقاضا ہے کہ خلقت کا سلسلہ پے درپے جاری رہے اور جو کچھ پیدائش کے لائق ہو، اسے پیدا کرے- خداوند متعال کا فیاض اور سخی ہونا پیدائش اور تخلیق سے متحقق ہوتا ہے، لہذا فیاض ہونے کا لازمہ پیدائش ہے-
خداوند متعال نے کبهی فیض کی ممانعت نہیں کی ہے اور کبهی ایسا نہیں کرتا ہے، بلکہ اس کا فیض ہمیشہ جاری ہے، کیونکہ خداوند متعال کی نہ، ابتدا ہے اور نہ انتہا، بلکہ وہ ہمیشہ تها اور رہےگا، نتیجہ کے طور پر خداوند متعال کا فیض بهی ہمیشہ تها اور رہےگا، البتہ خداوند متعال کا فیض ہر زمانہ میں ایک نسل کی تخلیق رہاہے، او آیات و روایات کے مطابق موجودہ نسل ایک ایسے انسان کی ذریت ہے جو مٹی اور پانی سے پیدا ہواہے-
تفسیر صافی میں سورہ ق کی آیت نمبر۱۵ کے ذیل میں آیا ہے کہ کیا ہم پہلی پیدائش کے بارے میں عاجز تهے "کہ قیامت کی تخلیق کی طاقت نہ رکهتے ہوں گے" لیکن وہ "ان واضح دلائل کے باوجود" پهر بهی جدید پیدائش پر شک و شبہہ کرتے ہیں"[1]
امام باقر سے ایک روایت نقل کی گئی ہے جو بالکل اسی سوال کا جواب ہے-
امام باقر سے موجودہ انسانوں کے بعد جدید انسانوں کی پیدائش کے بارے میں سوال کیا گیا، حضرت نے یوں جواب دیا: "جب خداوند متعال آدم کی نسل کی عمر اور اس دنیا کو خاتمہ بخشے گا، اور اہل بہشت کو بہشت میں اور اہل دوزخ کو دوزخ میں ڈال دے گا، تو ایک نئی دنیا کو نئے انسانوں کے ساتھ پیدا کرے گا، اور وہ انسان ماں باپ سے پیدا نہیں ہوئے ہوں گے- وہ انسان موحدہوں گے اور خدا کی عبادت کرنے والے ہوں گے- ان کے لئے اس زمین کے علاوہ ایک دوسری زمین پیدا کی جائے گی جس پروہ سکونت کریں گے اور ایک نیا آسمان ہوگا جس کے سائے میں وہ زندگی بسر کرتے ہوں گے- کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے آپ یعنی آدم، ابوالبشر کے علاوہ کسی انسان کو پیدا نہیں کیا ہے؟ البتہ خدا کی قسم خداوند متعال نے ہزاروں عالم اور ہزاروں آدم پیدا کیے ہیں۔ پس اس حدیث کے مطابق، اس دنیا کے خاتمہ کے بعد، خلقت کا نظام ختم نہیں ہوگا، بلکہ نئی زمین اور نئے آسمان کے ساتھ نئے انسانوں کی پیدائش ہوگی-[2]
اس موضوع سے متعلق دوسرے عناوین حسب ذیل ہیں:
۱-عنوان: خلقت جسمانی حضرت آدم، سوال:۵۰۶ {سایت:۵۴۷}
۲-عنوان: قرآن و خلقت انسان، سوال: ۷۳۱ {سایت:۹۱۱}
۳-عنوان: هدف خلقت ، سوال ۷۶ {سایت: ۳۱۹}
۴-عنوان: آدم هشتمین نسل از انسان ، سوال ۵۹۰۱ {سایت: ۶۴۷۱}
[1] "أَ فَعَيينا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمْ في لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَديدٍ".
[2] شیخ صدوق، خصال، ج 2، 652، جامعه مدرسین، قم، 1403ق؛ فیض کاشانی، محسن، تفسیرالصافی، ج 5، ص 60، "انه سئل هذه الآية فقال تأويل ذالک، ان الله تعالی اذا افنی هذا الخلق و هذه العالم و سکن اهل الجنة الجنة و اهل النار النار جدد الله عالماً غير هذا العالم و جدد خلقاٌ من غير فحولة و لا اناث يعبدونه و يوحدونه و خلق لهم ارضاٌ غير هذه الارض تحملهم و سماء غير هذه السماء تظلهم، لعلک تری ان الله انها خلق هذا العالم الواحد، تری ان الله لم یخلق بشراً غيرکم، بلی و الله لقد خلق الف الف عالم و الف الف آدم، ... ".