انبیاء {ع} اور ائمہ{ع} کی عصمت، شیعہ مذہب کے عقائد کا ایک اہم حصہ ہے- آپ اس موضوع کے تفصیلی مطالعہ کے سلسلہ میں ہماری اسی سائٹ کے سوالات: ۱۷۳۸{ سائٹ: ۱۸۵۸} ،۱۷۴۰{ سائٹ: ۲۱۳۹} اور ۳۰۲۶{ سائٹ: ۴۵۹۴} کی طرف رجوع کرسکتے ہیں-
لیکن عصمت کے جبری ھونے کے دعوی کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: علامہ محمد رضا مظفر شیعوں کے ایک بڑے عالم تھے، ہم نے ان کی کتاب " عقائد الا مامیہ" کے عربی متن میں ان سے منسوب عبارت کو، یعنی معصو میں اپنی عصمت میں مجبور ہیں اور انھیں انتخاب کا کوئی حق نہیں ہے {یا کوئی ایسا مطلب جس سے اس کے مشابہ مفہوم کا اشارہ ملتا ھو} نہیں پایا ، بلکہ بعض مقامات پر اس کے بالکل برعکس مطلب کی صراحت کی گئی ہے- ان کی عبارتوں میں سب سے واضح عبارت جو انھوں نے عصمت معصومین کے بارے میں بعنوان اہم مطلب [1] بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ «ومن الامور التی یجب التنبیه علیها ایضاً هو ان المعصوم(ع) لیس مجبوراً علی فعل الطاعات و ترک المعاصی، و انما فعل و ترک باختیاره؛ لانّ العصمة ملکة و بصیرة فی الامور؛ اذ انه ینفر من المعاصی و یبتعد عنها، و یتشوّق الی الطاعة فیعملها، و کل ذلک بتوفیق من الله عز و جل»؛[2] اور جملہ آمور جن کا ذکر کرنا واجب ہے، وہ یہ ہے کہ معصوم عبادت کو انجام دینے اور معصیت کو ترک کرنے میں مجبور نہیں ہے بلکہ ہر کام اپنے اختیار سے انجام دیتا ہے یا ترک کرتا ہے، کیونکہ عصمت، ایک ملکہ اور بصیرت ہے، جس کی بنا پر معصوم گناھوں سے نفرت کرتا ہے اور ان سے پرہیز کرتا ہے اور عبادت کے بارے میں عشق رکھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے، البتہ یہ سب خداوند متعال کی توفیق ھوتی ہے-
اس بنا پر، عصمت کے اختیاری ھونے کے سلسلہ میں مرحوم مظفر کا کلام واضح اور روشن دلالت پیش کرتا ہے، نہ اس کے اجباری ھونے کے سلسلہ میں البتہ یہ ممکن ہے کہ اس کے انگریزی ترجمہ میں، ضروری دقت نہیں کی گئی ھو، یا پڑھنے والے نے بات کو سمجھنے میں ان کے اہم تذکر کو مدنظر نہ رکھنے کی غلطی کی ھو-
[1] - مرحوم مظفر نے اس مطلب کو عصمت انبیاء کی بحث میں " امران مہمان" کی عبارت کے ذیل میں دوسرے تذکر کے عنوان سے پیش کیا ہے-
[2] مظفر، محمدرضا، عقائد الامامیة، ص 77، منشورات الشریف الرضی، قم، 1374.