دین کو سمجھنے اور معںوی کمال حاصل کرنے کیلئے ، جواںی غنیمت اور سنھری موقع ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اعتقادات صرف علم اور سیکھنے کی قسم میں سے ںہیں ہیں بلکہ ان کے لئے باطنی تھذیب اور عملی سیر و سلوک کی ضرورت ہے۔ لیکن اعتقادات کی بنیاد اور ان کا محور خداوند متعال کی معرفت ہے۔ معرفت کی اس وادی میں قرآن کریم آفاقی )بیرونی( اور انفسی )باطنی( پر تاکید کرتا ہے ، کتاب کا مطالعہ ، کائنات کے بارے میں غور و خوض کرنا خداوند کی عقلی پھچان میں معاون ہے۔ لیکن اس سلسلے میں نفس کی پھچان کی اھمیت زیادہ ہے۔ اور اس کے بارے میں دو طریقے بیان کئے جاتے ہیں۔ پہلا: اپنے آپ اور نفس کے آثار و صفات میں غور و فکر کرنا جو ہمیں خالق کی عظمت کی جانب ھدایت کرتاہے۔ دوسرے :اپنے "نفس" میں سیر جو چار مرحلوں کو شامل ہوتا ہے
الف: خلوت اور تنھائی ، ب: حضرت حق کے ساتھ خلوت ، ج : اپنے وطن سے دوری، د: اپنا وصال اور ھجر ، اس کے علاوہ دو نکتوں کی جانب توجہ کرنا چاھیئے ، پھلا نکتہ ، دین کے دستور اور احکام شرعی پر عمل کرنا جسے تقوی کہا جاتا ہے، دوسرا نکتہ: خداوند متعال کے ساتھ عاطفی رابطہ رکھنا یعنی خدا ، اور اولیاء اللہ کی محبت ، یہ دو چیزیں روز بروز ایمان کو زیادہ کرتے ہیں
اپنے نظریہ کو نظم دینا، عقاید اور ایمان کو مستحکم کرنے کیلئے اقدام کرنا کافی مقدس اور قیمتی کام ہے جس کی قدر کرنی چاھیئے ۔ اس اس راہ میں صبر اور کوشش کرنی چاہیئے اور صرف ایک سطحی معرفت پر اکتفاء نہیں کرنا چاھیئے۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عقاید کو جڑ سے ہی دوبارہ پھچاننا اور انھیں اور بھی عمیق کرنا چاھیئے۔ اس مقصد کیلئے دو راھیں موجود ہیں، جنھیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ طے کرنا چاھیئے ، پھلے اعتقادات کو علمی، عقلی اور فلسفی لحاظ سے قوت دینا ۔ اور دوسرے اعتقادات کواپنے باطن میں راسخ کرنے کے بعد اور خدا کو باطنی راہ سے پھچاننا۔ البتہ ان امور کے ساتھ ساتھ اخلاقی دستور اور احکام دین پر عمل کرنا اور اپنے اندر خداوند متعال اور اولیاء اللہ کی محبت بھی ضروری ہے۔ یھاں پر ہم ان چار چیزوں کی اور بھی وضاحت کریں گے۔
۱۔ علم شناسی کو قوت دینا۔
اعتقادات ان امور میں سے ہیں کہ جس کے بارے میں ہر انسان کو خود ایک نتیجہ پر پھنچنا چاھیئے۔ ان امور میں کسی کی تقلید کرنا جایز نھیں ہے، دوسری جانب اعتقادات کی بنیادوں کو فکر و تحقیق کے ذریعے مستحکم کرنا اایمان کی قوت اور عمل کی ضمانت کا سبب بنتا ہے۔کیونکہ ایمان لانا ، اصول اعتقادی کو جاننے کے علاوہ ہے ، ممکن ہے کوئی آدمی توحید کا علم رکھتا ہو، لیکن ایمان نھیں لاتا، جیسا کہ قرآن کریم فرعون کے بارے میں ارشاد کرتا ہے، "ان لوگوں نے ظلم اور غرور کے جذبہ کی بناء پر انکار کردیا تھا ورنہ ان کے دل کو بالکل یقین تھا پھر دیکھو کہ ایسے مفسدین کا انجام کیا ہوتا ہے"[1]
اس حرکت کا پھلا قدم اپنے اور کائنات میں غور کرنا ہے، کیا یہ کائنات حقیقت رکھتی ہے، اگر حقیقت رکھتی ہے تو اس وجود کے سلسلے میں میرا مقام کھاں ہے؟ کیا کائنات اور وجود شعور و فھم رکھتا ہے یا اس سے عاری ہے؟ اور کیا اس کائنات کا کوئی مدبر اور حکیم خالق ہے یا نھیں؟ ظاہر ہے کہ ان سوالات کا منفی یا مثبت صورت میں جواب ،اعتقادات کی اس حرکت کے باقی مراحل میں اھم رول ادا کرے گا۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں: " خداوند اس بندے پر رحمت کرے جو یہ جانتا ہو کہ کھان سے آیا ہے اور اس کا کیا مقام ہے اور کس طرف جا رھا ہے، " [2] یہ سوالات انسان کی بیداری اور ھوشیاری کے پھلے لمحات ہیں۔
پس پھلے قدم پر اپنے لئے خدا شناسی کے موضوع کو حل کریں ، اور یہ کوشش کریں کہ جھاں تک ممکن ہو اس معرفت میں اور بھی آگے جائیں، اور خداوند متعال کی دوسرے صفات اور خصوصیات کا علم حاصل کریں۔ اس منزل تک پھنچنے کیلئے سب سے زیادہ غور وفکر اور دوسروں کی سوچ سے مدد حاصل کرنا مفید ہے۔ اس مرحلہ سے گزرنے کے بعد اور اس بات کو سمجھنے کے بعد کہ یہ کائنات ایک حکیم و قادر خالق کے بغیر نہیں ہے۔ اس سوال کے بارے میں سوچنا ہے کہ کیا خدا نے انسان کے کمال کیلئے کسی راہ کو معین کیا ہے؟ یا اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے ، یھاں سے "نبوت " کی بحث شروع ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں پیغمبروں کی نبوت کو ثابت کرنے کیلئے قرآن سب سے ٰعظیم راھنما اور معجزہ ہے۔ جس کے سائے میں پناہ لینے سے اس آسمانی کتاب کے استدلالوں کے مطالعے کرنے اور ان میں تدبر کرنے سے حق و حقیقت کو لمس کیا جاسکتا ہے ، اس کے بعد دیگر بحثیں ، جیسے امامت ، معاد اور دوسرے الھی معارف روشن ہوں گے۔
۲ ۔ باطنی سیر
خداوند متعال پر یقین رکھنے کے مختلف پہلو ہیں اور ہر ایک پہلو تک پھنچنے کیلئے ایک خاص راہ کو طے کرنا ہے ، ان ہی راہوں میں ایک راہ تفکر ، اپنے نفس میں سیر کرنا ہے ، جس کی طرف قرآن مجید نے دعوت دی ہے۔ "خود" میں فکر کرنے کے بھت سےپھلو اور مختلف صورتیں ہیں ، کہ جو معنوی سیر و سلوک میں ضروری ہیں۔ بالفاظ دیگر "خود شناسی" ، "خدا شناسی " کیلئے مقدمہ واقع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف: "من عرف نفسہ فقد عرف ربہ" [3] اس کی جانب اشارہ کرتی ہے[4] کہ یہ معرفت ، باطنی ہونے کی وجہ سے موثر اور دیر پا ہے، یھان پر معرفت نفس کی دوقسموں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
۱-۲ تفکر اپنے وجودی صفات اور خصوصیات میں ہمیں اپنے عمیق وجودی اثرات کے ساتھ ساتھ اپنی حقیقت کے اسرار سے آشنا کرتا ہے۔ یہ ہمیں خداوند متعال کی معرفت اور بصیرت اور اس کے صفات و افعال سے آگاہ کرتا ہے ، بالفاظ دیگر توحید اوراس کے مراتب کی معرفت کا سبب بنتا ہے اور وجود کے حقایق سے ہمیں آگاہ کرتا ہے۔
۲-۲ خودی میں سیر اور اس کے اثرات: یہ مرحلہ زیادہ عمیق اور دشوار ہے، لیکن "خودی" کا یہ سفر اور اس میں سیر ، سلوک الی اللہ کیلئے سب سے نزدیک سفر جانا جاتا ہے اور اس روش میں ایک مخصوص طریقے سے اور ایک خاص کیفیت سے انجام پاتا ہے، سالک ہر چیزسے منقطع اور کٹ جاتا ہے، اور وہ اپنی حقیقت کی طرف لوٹتا ہے ، اس صورت میں اس کی نوری حقیقت تجلی پیدا کرتی ہے اور اس کے اوپر معرفت اور شھود کا دروازہ کھل جاتا ہے، اس کی سیر شروع ہوتی ہے اس کے لئے وہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں جوالفاظ کے ذریعے نا قابل بیان ھیں۔
یھاں پر اس معںوی اور باطنی سیر جو عقیدہ کے استحکام اور اس کی گہرائی کیلئے موثر ہے کو بیان کریں گے۔
۲-۲-۱ تںہائی خلوت : اپنی خودی میں غور کرنے سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم اکیلے ہیں ، اور ہر اس چیز سے جس کو ہم اپنے ساتھ دیکھتے تھے منقطع اور الگ ہوتے ہیں اور ہمیشہ ایک "خاص تنہائی اور خلوت " میں قرار پاتے ہیں۔ فقط "خود" ہیں، اور جو کچھ اس "خودی" میں ہے۔ یھاں پرقرآن مجید کے بعض حقایق ہمارے لئے روشن ہوتے ہیں، جو آیات "تنھائی" کے بارے میں ہمیں خبر دیتی ہیں، یہ کہ ہم تنھا ہیں لیکن اس کی جانب ہماری توجہ نہیں ہے ، اور اس کو صرف موت کے وقت اور پروردگار کے حضور میں سمجھ لیں گے۔ [5]
۲-۲-۲ حضرت حق کے ساتھ خلوت: تنھائی کی خلوت میں انسان اپنے آپ کو اپنے "قیوم" کے ساتھ پاتا ہے ، یعنی اس کے ساتھ جو ہمارا " خالق" ، "مدیر" ، "مدبر" اور "قوت بخشنے والا" ہے اس صورت میں ہم دیکھتے ہیں کہ فقط حضرت حق کے ساتھ ہیں ، اور اس کے ساتھ گہرے رابطہ میں ہیں ، ہمیشہ خلوت کی صورت میں حضرت حق کے ساتھ ہیں صرف وہ ہمارے ساتھ اور اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ [6]
اس مقام پر اگر "خودی" کے سیر میں کامیاب ہوئے ، تو ہمارے باطن میں توحید کا نور تجلی کرنا شروع ہوجاتا ہے۔ شرط کی بنیادیں اکھڑتی ہیں ایمان کے احکام داخل ہوتے ہیں، حقیقت کے سامنے سے حجاب اٹھ جاتے ہیں، اور ہم ہوشیار ہوجاتے ہیں، خدا کے بغیر کسی اور کو اپنا "ولی " اور "مدبر" ںہیں دیکھتےہیں، پورا فایدہ اور نقصان اسی سے پاتےہیں، حکم کو اسی سے ٘مخصوص جانتے ہیں ، اس کے مطلق جلال اور جمال دیکھتے ہیں ، اور اسی کو اپنا معبود قرار دیتے ہیں، اس مرحلہ میں یہ جان لیتے ہیں کہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی "ولی"، "نصیر" اور "معبود" نہیں ہے۔[7]
بہت سے انسان اپنے باطل خیال میں خدا کے علاوہ دوسروں کو اپنا ولی اور نصیر جانتے ہیں، اور اپنے لئے معبود قرار دیتے ہیں[8]، اور اس طرح اور یہ لوگ پروردگار کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ وہ گمراہی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔
۳۔ اپنے وطن سے دوری : تنھائی کی خلوت میں اگر انسان "خودی" کی جانب لوٹے گا اور "خود" کے اندر سیر کرے گا ، جب کہ وہ "خود" کو اپنے"قیوم" کےساتھ دیکھتا ہے اور اس طرح وہ اس بات کے عینی شہود تک پہنچتا ہے،کہ وہ اپنے ا صلی وطن سے دور پڑا ہے اور اپنی چیزوں میں سے ایک چیز کو کھو چکا ہے ، بالفاظ دیگر ، وہ غربت کا احساس کرتا ہے ،اور یہ دیکھتا ہے کہ اس کے اس کے اصلی مقام سے جو قرب اور شھود کامل کا مقام ہے بہت دوری ہو گئی ہے، اور اس کے اور اس کے اصلی مقام کے درمیان حجابوں میں ایک حجاب پڑ گیا ہے۔وہ غربت کی تنگی اور فراق کے غم کا اپنے اندر احساس کرتا ہے ایسا احساس جس کی کیفیت کو اسی کے اھل جانتے ہیں اور یہ احساس الفاظ کے ذریعہ بیان ںہیں ہوسکتا ہے، اگر حالات کچھ کہںے پر مجبور کریں تو وہی کہتا ہے جسے حافظ نے بیان کیا ہے:
یاد باد آن کہ سرکوی توام منزل بود
دیدہ را روشنی از خاک درت حاصل بود۔
۴۔ "خودی" کا وصال اور ھجر : سالک اپنی سیر کو جاری رکھتے ہوئے اس حقیقت تک پہنچتا ہے کہ وہ ذات الھی سے مہجور اور محجوب ہونے کے ساتھ ساتھ "اس کے حضور" میں بہت نزدیک ہے یعنی "وہ" ہم سے نزدیک ہے اور ہم بھی "اس" سے نزدیک ہیں [9] ہم جو کچھ آج تک گمان کرتے تھے اس کو دیکھتے ہیں، وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ ہمارے لئے محجوبی اور مقصد تک پہنچنے میں زیادہ مشکلات تھیں ۔
خلاصہ یہ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری مھجوری میں، ھر چیز سے زیادہ ہم سے نزدیک ہے ،یھاں تک کہ " ہم" سے زیادہ "ہم " کو نزدیک ہے [10] یھاں پر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حایل اور حجاب ، جو درمیان میں ہے وہ یا خود ہماری ذات ہے یا ذات کے اندر کی اشیاء۔ ورنہ ہم اس سے نزدیک ہوںے کے ساتھ ساتھ مھجور اور اس کے شہود سے محروم ہیں؟ وہ جو ہماری ذات سے زیادہ ہم سے نزدیک ہے ۔ وہ ہر چیز اور ہر ذات پر احاطہ رکھتا ہے وہ ھر جگہ حاضر ہے۔
یہ حجاب دوسرے حجابوں ، اعمال اور نیتوں خلقُ اور تعلقات اور سب اندھیروں، اور ان کے علاوہ، اس چیز اور اس چیز کی طرف توجہ اور اپنے آپ کی طرف توجہ ہے اور نجات کا طریقہ بھی اپنے آپ کو ان سب سے چیزوں سے پاک کرنا ہے ، اور ان سب کو اپنے آپ سے دور کرنا ہے اور سب سے انقطاع حاصل کرنا ہے ، اس کے ذکر اور طلب سے مشہور ہونا ہے اور باطنی سلوک سے شہود کے وطن کی طرف جانا ہے ، البتہ واضح ہے کہ یہ انقطاع ، عزلت اور گوشہ نشینی کے معنی میں نھیں ہے، بلکہ لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ، ان کے ساتھ نہ ہونا ہے ، یعنی غیر خدائی کاموں اور معصیت میں ان کے ساتھ نہ ہونا اور نیکیوں میں ان کی مدد کرنا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔ : عارف وہ ہے جو خود کو پھچان لے ، پھر "خود " کو ان تمام چیزوں سے آزاد اور پاک کرے جو اس کو خود سے دور کریں۔"[11]
بھر حال ، جو نفس کی معرفت کو خدا کی معرفت کا پل پھچنواتاہے وہ عملی اور شرعی سلوک ہے جو دین اور شرع مقدس کے دستور پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ حقیقت میں ، جو امر انسان کو خداوند متعال کے شھود تک پھنچاتا ہے اپنی حقیقتت کی شناخت اور اپنے اصلی مقام کی طرف حرکت کرنا ہے اور یہ چیز تقوا کے علاوہ کسی سے حاصل نہیں ہوتی۔ [12]
۳۔عملی ضمانت
تھذیب نفس جسے ہماری دینی کتابوں میں "جھاد اکبر" کا نام دیا گیا ہے ایمان کو کامل کرنے کیلئے سب سے اھم سبب ہے۔ اسی طرح عبادات کا شرایط اور آداب کے ساتھ صحیح انجام دینا ، انسان کے اندر مثبتت اثر رکھتا ہے اور ہمارے اعتقادات کو مستحکم کرتا ہے، قرآن مجید اورس احادیث کی رو سے انسان کا عمل ، دینی اعتقادات کے استحکام اور ضعف میں بہت ہی موثر ہے، قرآن کریم کا ارشاد ہے: اپنے پروردگار کی عبادت کرو تاکہ تمھیں یقین ہوجائے" [13]
دوسری جانب نا شایستہ عمل اور گناہ ، آہستہ آہستہ ایمان کو سست کرتے ہیں، یھاں تک کہ اسے کفر کی طرف لے جاتے ہیں، قرآن کریم اس سلسلے میں ارشاد کرتا ہے: " اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ہوا کہ انہوں نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلادیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے"[14]
۴۔ عاطفی رابطہ بنانا
انسانی وجود کا ایک اہم پھلو ، اس کے عواطف ) الفت و محبت (کا حصہ ہے جو اس کے اعتقادات میں کافی اثر رکھتا ہے ، یھاں تک کہ بعض احادیث میں ، دین کی تفسیر محبت سے کی گئی ہے، حضرت امام باقر علیہ السلام کا ارشادہے "دین محبت کے سوا نہیں ہے" [15]
حقیقی محبت انسان کو اپنے محبوب کی اطاعت کرنے پر مجبور کرتی ہے جو کچھ محبوب اس سے چاھتا ہے وہ بھترین طریقے سے اس کی اطاعت کرتا ہے، اس لئے مذکورہ حدیث کے ذیل میں حضرت امام صادق علیہ السلام اس آیۃ شریفہ کی تلاوت فرماتے ہیں : اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو- خدا بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے"[16]
[1] "وَ جَحَدُواْ بها وَ اسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظلْمًا" اور یہ لوگ پروردگار کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصانَ عُلُوًّا فَانظُرْ كَيْفَ كاَنَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ" سورہ نمل / ۱۴
[2] عن امیر المومنین علیہ السلام حیث قال: "رحم اللہ امرء اعد لنفسہ و استعد لرمسہ و علم من این و فی این و الی این ، " فیض کاشانی محمد محسن ،الوافی ، ج ۱ ص ۱۱۶ ، چھاپ اول ، اصفہان ، ۱۴۰۶ ھ۔
[3] مجلسی محمد باقر ، بحار الانوار ، ج ص ۳۲ ، موسسہ الوفاء ، بیروت ، ۱۴۰۴ ھ۔
[4] اس سلسلے میں مزید مطالعہ کرنے کیلئے تفسیر المیزان ، علامہ طباطبائی ، ذیل آیہ شریفہ، ۱۵ سورہ مائدہ کی جانب رجوع کریں۔
[5] " ۔۔۔ و یاتینا فردآ۔۔۔" اور وہ ہماری جانب اکیلے لوٹے گا، " و کلھم آتیہ یوم القیامۃ فردآ" اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ قیامت کے دن اکیلا خدا کے پاس آئے گا۔ " وَ لَقَدْ جِئْتُمُونا فُرادى كَما خَلَقْناكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَ تَرَكْتُمْ ما خَوَّلْناكُمْ وَراءَ ظُهُورِكُمْ وَ ما نَرى مَعَكُمْ شُفَعاءَكُمُ الَّذينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فيكُمْ شُرَكاءُ لَقَدْ تَقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ ما كُنْتُمْ تَزْعُمُون
[6] "و ھو معکم اینما کنتم " حدید ۴ وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں رہو۔
[7] الم تعلم ان اللہ لہ ملک السماوات و الارض و ما لکم من دون اللہ من ولی و نصیر" بقرہ ، ۱۰۷ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی حکومت صرف اللہ کے لئے ہے اور اس کے علاوہ کوئی سرپرست ے نہ مددگار
[8] "و یعبدون من دون اللہ ما لا ینفعھم و لا یضرھم" فرقان ، ۵۵ اور یہ لوگ پروردگار کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان
[9] " و نحن اقرب الیہ من حبل الورید" سورہ ق، ۱۶
[10] " و اعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ" انفال ۳۴۔
[11] العارف من عرف نفسہ فاعتقھا و نزھھا عن کل ما یبعدھا ، آمدی ، عبد الواحد ، غرر الحکم ، مقادص ۳۴۰ ، حدیث ، ۴۸۴۱ انتشارات دفتر تبلیغات قم ، ۱۹۸۸ ،
[12] شجاعی ، محمد، مقالات ، سروش ، تہران ، چھاپ اول ، ۱۳۷۳، ج ۳ ، ص ۳۳۳۔ ۳۳۴
[13] الحجر ۹۹۔
[14] سورہ روم ۱۰۔
[15] کلینی ، الکافی، ج ۸ س ۷۹ دار الکتب الاسلامیۃ۔
[16] آل عمران ۳۱ ۔