شیعہ، اماموں {پیغمبر کے جانشینوں} کو معصوم جانتے ہیں اور اسی بنا پر ان کا کلام بهی پیغمبر اکرم {ص} کے کلام کے مانند ذاتی طور پر حجت ہے اور اس کے لئے پیغمبر اکرم {ص} سے استناد کرنے کی ضرورت نہیں ہے-
ائمہ معصومین {ع} کی طرف سے ہم تک پہنچی احادیث، دو قسم کی ہیں:
ان میں سے روایات کی ایک قسم مستند کی صورت میں بیان کی گئی ہیں، یعنی ان کی سند کا سلسلہ بهی بیان کیا گیا ہے، اس طرح کہ ہر امام اپنے باپ سے نقل کرتا ہے یہاں تک کہ روایت کی سند رسول اللہ {ص} پر ختم ہوتی ہے، اس بنا پر اس قسم کی روایات سند کے لحاظ سے اعتبار کے بلندترین مرتبہ پر قرار پاتی ہیں-
لیکن دوسری قسم کی روایتیں، جو سند کے بغیر بیان کی گئی ہیں، بهی دوقسم کی ہیں: یا یہ روایتیں بالواسطہ پیغمبر اسلام {ص} سے نقل کی گئی ہیں، لیکن ان کی سند کوبیان نہیں کیا گیا ہے اس لحاظ سے اس قسم کی احادیث کی سند کا سلسلہ بهی اگر چہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور بظاہر مرسل ہیں لیکن چونکہ معصومین {ع} امین اور سچے شمارہوتے ہیں، اس لئے اگر کسی حدیث کو پیغبر اکرم {ص} نے نہین فرمایا ہو، تو وہ اسے حکم الہی کے عنوان سے بیان نہیں کرتے ہیں یا اس کو پیغمبر {ص} سے نسبت نہیں دیتے ہیں-
مثال کے طور پر اس حدیث پر غور فرمایئے: عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص).
کہ شیعوں کی کتابوں میں اس قسم کی احادیث ہزاروں کی تعداد میں اور کتاب اربعہ {کافی، من لایحضرہ الفقیہ، تہذیب اور استبصار} میں سیکڑوں کی تعداد میں نقل کی گئی ہیں- اور یا یہ کہ کتاب جامعہ، مصحف فاطمہ، جفر و غیرہ سے نقل کی گئی ہیں کہ بہر صورت مستند اور تمام مسلمانوں کے لئے حجت ہیں-
اس لئے، مذکورہ مطالب کے پیش نظر، ائمہ معصومین {ع} سے نقل کی جانے والی احادیث، مستند اور کافی حد تک قابل اعتبار ہیں اور ان میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے-
چونکہ یہ بحث، دین کی ایک داخلی بحث ہے ، اس لئے ہم صرف شیعوں کے نقطہ نظر سے اس سوال کا جواب دیتے ہیں-
شیعوں کے نظریہ کے مطابق ائمہ اطہار {ع} معصوم ہیں اور خدا کی طرف سے، پیغمبر اکرم {ص} کے ذریعہ لوگوں کے لئے آنحضرت {ص} کے جانشین اور خلیفہ کے عنوان سے مقرر ھوئے ہیں- اس بنا پر وہ خدا کے بندوں پر خدا کی حجت ہیں اور ا ن کا کلام بھی پیغمبر اکرم {ص} کے کلام کے مانند ذاتی طور پر حجت ہے اور اس کے لئے اسناد کی ضرورت نہیں ہے، بہ الفاظ دیگر شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر پیغمبر {ص} کوئی کلام بیان فرمائیں، تو اس کے لئے اسناد کی ضرورت نہیں ہے، اورکوئی آپ {ص} سے سند کا تقاضا نہیں کرسکتا ہے اور آپ {ص} کے کلام کے بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے، اسی طرح معصومین {ع} کے کلام کے بارے میں بھی کسی قسم کی سند کی ضرورت نہیں ہے اور ان کے کلام کے حجت ھونے میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے-
قابل بیان ہے کہ جو احادیث ائمہ معصومین {ع} کی طرف سے ہم تک پہنچی ہیں، وہ دوقسم کی ہیں:
ان میں سے روایات کی ایک قسم مستند کی صورت میں بیان کی گئی ہے، یعنی ان کی سند کا سلسلہ بهی بیان کیا گیا ہے، اس طرح کہ ہر امام اپنے باپ سے نقل کرتا ہے یہاں تک کہ روایت کی سند رسول اللہ {ص} پر ختم ہوتی ہے، اس بنا پر اس قسم کی روایات سند کے لحاظ سے اعتبار کے بلندترین مرتبہ پر قرار پاتی ہیں-
یہ روایتیں بھی دوقسم کی ہیں:
الف} ایک وہ روایتیں کہ جن میں جد و اجداد کے نام یکے بعد دیگرے بیان کئے جاتے ہیں، جیسے: ... قال أبو الحسن الرضا (ع) سمعت أبي موسى بن جعفر يقول سمعت أبي جعفر بن محمد يقول سمعت أبي محمد بن علي يقول سمعت أبي علي بن الحسين يقول سمعت أبي الحسين بن علي يقول سمعت أبي أمير المؤمنين علي بن أبي طالب (ع) يقول سمعت رسول الله{ص} يقول سمعت جبرئيل يقول سمعت الله عز و جل يقول لا إله إلا الله حصني فمن دخل حصني أمن من عذابي فلما مرت الراحلة نادانا بشروطها و أنا من شروطہ[1] {زمخشری اپنی کتاب ربیع الابرار میں صحیفۃ الرضا کے اسناد کے بارے میں یحیی بن حسین حسینی سے نقل کرتے ہیں کہ: اگر ان اسناد کو ایک دیوانہ بھی سن لے تو وہ عاقل بن جائے گا}[2]
ب} اس کے علاوہ راوی نے، عبارت" عن آبائہ" { اپنے آبا و اجداادسے} کو، نام واضح ھونے کی وجہ سے حذف کیا ہے- مجموعی طور پر شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں ائمہ اطہار{ع} سے تقریبا ۶۶۷۱ حدیثیں مستند صورت میں " عن آبائہ"{ اپنے آبا واجداد سے –عن رسول اللہ} کی عبارت سے نقل کی گئی ہیں کہ ان میں سے ۲۷۸ حدیثیں شیعوں کی کتاب اربعہ{ کافی میں ۶۰، من لا یحضرۃ الفقیہ میں ۴۶، تہذیب میں ۱۲۸ اور استبصار میں ۳۴ حدیثیں} نقل کی گئی ہیں- ہم یہاں پر ایک سینہ بہ سینہ اور مستند حدیث کو مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں: عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) عَنْ آبَائِهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) ...[3].
ظاہر ہے اگر کوئی حدیث اس قسم کی سند کے ساتھ نقل کی جائے تووہ بہترین سند ھوگی- اس بنا پر حدیث کی اس پہلی قسم کو " سلسلۃ الذھب"[4] کہا جاتا ہے، کیونکہ اگر چہ شیعوں کے نظریہ کے مطابق سب ائمہ اطہار {ع} زمین پر خداوند متعال کی حجت ہیں اور حجت کے لحاظ سے ان کے اور پیغمبر اکرم {ص} کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، لیکن غیر شیعوں کے نظریہ کے مطابق ائمہ اطہار بہترین اور موثق ترین افراد ہیں-[5]
۲-دوسری قسم کی روایتیں، جو سند کے بغیر بیان کی گئی ہیں، بھی دوقسموں پر مشتمل ہیں:
الف} بعض حدیثیں پیغمبر {ص} سے بالواسطہ نقل کی گئی ہیں، لیکن ان میں سند کا ذکر نہیں کیا گیا ہے- مثال کے طور پر اس حدیث پر غور فرمائیے: عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص).[6] شیعوں کی کتابوں میں اس قسم کی ہزاروں حدیثیں اور کتب اربعہ{ کافی، من لا یحضرۃ الفقیہ، تہذیب اور استبصار} میں سیکڑوں احادیث اس عنوان سے نقل کی گئی ہیں-
اگر چہ اس قسم کی احادیث کی سند کا سلسلہ بھی بیان نہیں کیاگیا ہے اور بظاہر مرسل ہیں، لیکن چونکہ معصومین {ع} حتی کہ اہل سنت کے نظریہ کے مطابق بھی امین اور سچے شمار ھوتے ہیں، اس لئے قبول کرنا چاہئے کہ وہ اس حدیث کو حکم الہی کے عنوان سے بیان نہیں کرتے ہیں، جسے رسول خدا {ص} نے بیان نہیں کیا ہے یا اسےپیغمبر {ص} سے نسبت نہیں دیتے ہیں- امام صادق {ع} نے فرمایا ہے: میری حدیث، میرے باپ { امام باقر} کی حدیث ہے اور میرے جد{ زین العابدین} کی حدیث امام حسین{ع} کی حدیث ہے اور امام حسین {ع} کی حدیث امام حسن {ع} کی حدیث ہے اور امام حسن {ع} کی حدیث ، امیرالمومنین {ع} کی حدیث ہے اور امیرامومنین کی حدیث، رسول اللہ{ص} کی حدیث ہے اور رسول اللہ{ص} کی حدیث حقیقت میں خداوند متعال کا کلام ہے-[7]
ب} یہ کہ ان حدیثوں کو کتاب جامعہ، مصحف فاطمہ اور جفر وغیرہ سے نقل کیا گیا ہے، کہ بہر صورت مستند اور تمام مسلمانوں کے لئے حجت ہیں-[8]
اس لئے، مذکورہ مطالب کے پیش نظر، ائمہ معصومین {ع} سے نقل کی جانے والی احادیث ، مستند اور کافی حد تک قابل اعتبار ہیں اور ان میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے-
قابل ذکر ہے کہ یہ مسئلہ قدیم زمانہ سے ان افراد کی طرف سے مورد سوال قرار پاتا رہا ہے، جو ائمہ معصومین {ع} کے کلام کے بارے میں ذاتی حجت کے قائل نہیں تھے، اس لئے اس سلسلہ میں بعض را ہ حل سے استفادہ کیا گیا ہے-
جابر بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر{ع} سے عرض کی کہ: اگر آپ نے کوئی حدیث بیان فرمائی، تو اس کی سند بھی بیان کریں- امام نے فرمایا: میرے باپ نے، میرے جد امجد رسول خدا {ص} سے اور آپ {ص} نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خداوند متعال سے یہ حدیث بیان کی ہے اور جو بھی حدیث میں بیان کروں گا اسی سند سے ھو گی-[9]
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ: محمد بن علی{ امام باقر] ، جابر کی پیغمبر اسلام{ص} سے مجالست کے احترام کی وجہ سے ان کے پاس جاتے تھے اور ان کے پاس بیٹھتے تھے اور خداوند متعال کی حدیث بیان کرتے تھے، اہل مدینہ نے کہا: ہم نے اس سے زیادہ جسارت کرنے والے کوئی نہیں دیکھا ہے{ کیونکہ ایک بچہ ھونے کے باوجود خدا کی حدیث بیان کرتا ہے} جب آپ {ع} نے سنا کہ لوگ یوں کہتے ہیں ، تو آپ {ع} نے رسول خدا {ص} سے حدیث بیان کی- اہل مدینہ نے کہا: ہم نے اس شخص سے زیادہ جھوٹ بولنے والا شخص ہرگز نہیں دیکھا ہے، ہمارے سامنے اس شخص کے بارے میں حدیث بیان کرتا ہے، جسے اس نے دیکھا ہی نہیں ہے- جب آپ نے {ع} دیکھا کہ لوگ یوں کہتے ہیں، تو جابر بن عبداللہ سے نقل کرکے حدیث بیان کی، پھر انھوں نے تصدیق کی، جبکہ جابر ان کی خدمت میں آتے تھے اور ان سے علم حاصل کرتے تھے-[10]
نتیجہ:
امام معصوم کا کلام حجت ذاتی ھوتا ہے اور ان کا کلام رسول اللہ کا کلام اور آنحضرت {ص} کا کلام خداوند متعال کا کلام ھوتا ہے بظاہر مستند ھو یا نہ ھو-
[1] صدوق، امالی صدوق، ص 235، ا.نتشارات کتاب خانۀ اسلامی، 1362 هـ .
[2] بحارالأنوار، ج 1، ص 30.
[3] کلینی، کافی، ج 1، ص 33، ح 7، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1365 هـ ..
[4] ثواب الاعمال-ترجمه غفارى، ص: 23، حدیث " سلسلۃ الذھب" سند کے افراد کی وجہ سے، کہ سب معصوم ھوتے ہیں، احادیث قدسیہ میں شمار ھوتی ہے، کیونکہ کلام بیان کرنے والا خداوند متعال کی مقدس ذات ھوتی ہے-
[5] مثال کے طور پر سید محمد رشید رضا، باوجودیکہ ایک متعصب اہل سنت تھے، اپنی تفسیر " المنار" میں جب امام صادق {ع} سے روایت نقل کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں: روی عن جدنا الامام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ہمارے جد امام صادق سے نقل کیا گیا ہے، (محمد رشید رضا، تفسیر القران الحکیم ( تفسیر المنار)، ج 9 ص 538، ناشر دار المعرفة برای چاپ و نشر، بیروت، لبنان، طبع دوم.).
[6] کلینی، كافي، ج 3، ص 269، ح 8.
[7] کلینی، الكافي، ج 1، ص 53.
[8] ملاحظہ ھو: کلینی، كافي، ج 1، ص 239، ترجمه مصطفوى، ج1، ص 345.
[9] مفید، امالي، ص 42، طبع کنگرۀ شیخ مفید قم، 1413 هـ ق. با استفاده از ترجمه استادولى، متن، ص 54.
[10] کلینی، الكافي، ج 1، ص 469، با استفاده از اصول كافى-ترجمه مصطفوى، ج 2، ص 374.