یه دوستی دو پهلو سے قابل تصور هے :
۱۔ بنده خدا کو چاهے اور خداوند عالم اس کا محبوب هو
۲۔ خدا بنده کو چاهے اور بنده خدا کا محبوب هو ۔ سوال بھی اسی دوسری قسم کے بارے میں هوا هے۔
یوں تو عالم وجود کی هر شئی، خدا کی مخلوق اور اس کا پرتو هونے کے لحاظ سے خدا کی محبوب هے ، لیکن وه محبت جس کا تذکره آیات اور روایات میں آیا هے وه ایک خاص قسم کی محبت هے ، جهاں بنده خداوند عالم کے خاص لطف و عنایت سے فیضیاب هوتا هے، دل کے غبار چھٹ جاتے هیں اور باطن منور هوجاتا هے ؛ خدا اور بنده کے درمیان سے سارے حجاب هٹ جاتے هیں ۔ ۔ ۔
آیات و روایات کی روشنی میں خدا سے قربت حاصل کرنے اور اس کے محبوب هونے کی بهت سی راهیں بیان هوئی هیں؛ ﮐﭽﮭ کلی عناوین کے تحت اور ﮐﭽﮭ جزئی اور تفصیلی موارد کے ساﭡﮭ ؛ جیسے: خدا اور قیامت پر ایمان ، اور خداوند عالم کو محبوب رکھنا؛ انبیاء الهی اور نبی ختمی مرتبت صلی الله علیه و آله و سلم کی نبوت کی تصدیق ، ائمه معصومین علیهم السلام کی ولایت کو تسلیم کرنا ، ان کی اطاعت اور پیروی، ، اور ان ذوات مقد سه سے محبت ؛ کفر و شرک و نفاق سے دوری ،عقیده میں علم و معرفت ۔
عمل میں دین و شریعت کی مکمل تعمیل اور احکام الهی میں امتیاز نه برتنا؛ خدا رسول اور ائمه طاهرین کی بے چون و چرا مکمل اور محض تبعیت؛ دین خدا اور خلق خدا میں فساد اور طغیان نه کرنا اور حدود الهی کو پار نه کرنا؛
اخلاق میں اپنے نفس اور باطن کو پاکیزه حالات و ملکات و صفات حمیده سے آراسته کرنا اور نا زیبا صفات و حرکات سے دوری اختیار کرنا ۔ ۔ ۔
یه چیزیں خدا رسول اور ائمه طاهرین کی بارگاه میں قربت ، منزلت اور ان کی محبوبیت کا سبب بنتی هیں اور یهی ایک انسان کی خلقت کا حقیقی مقصد اور منزل کمال هے، جسے هم قرب عند الله کهتے هیں۔
خداوند عالم کے سلسله میں محبت دو پهلؤں کےساﭡﮭ قابل تصور هے :
۱۔ بنده خدا کو چاهے، اس سے محبت کرے اور خدا بنده کا محبوب هو
۲۔ خدا بندے کو چاهے اور بنده خدا کا محبوب هو
اسی کی طرف خداوند عالم اشاره کرتے هوئے قرآن مجید میں ارشاد فرماتا هے : ( یحبهم و یحبونه )[1] خدا بندوں سے محبت کرتا هے اور بندے خدا سے ۔
البته سوال دوسرے پهلو کے بارے میں هوا هے که کس طرح بنده خدا کا محبوب بن سکتا هے؟
اس سوال کے جواب سے پهلے دو بات کی طرف توجه نهایت ضروری هے
الف۔ عشق اور محبت کا مرتبه ایک بلند اور عظیم مرتبه هے ۔ اس بحث کی وسعت اور اهمیت کے پیش نظر اگر اس سلسله میں سیر حاصل بحث کی جائے تو بات بهت طولانی هو جائےگی اور اصل مقصد فوت هو جائے گا خاص کر آیات، روایات ، دعاؤں اور دیگر دینی کتابوں میں اس سلسله میں ایسے ایسے عظیم نکات موجود هیں که ان کو بیان اور تشریح کرنے کے لیئے مستقل ایک کتاب کی ضرورت هوگی۔
ب۔ خداوند عالم چونکه ذات کامل اور جمال مطلق هے لهذا اپنی ذات اور اپنے کمالات سے محبت کرتا هے، اسی بنا پر اپنی مخلوقات اور اپنے آثار سے بھی محبت کرتا هے جو که اس کے کمالات اور جمال کا پرتو هیں ۔ جیسا که حدیث قدسی میں ارشاد هوا هے : کنتُ کنزاً مخفیاً فاَحبَبتُ أن اُعرَف، فَخلقتُ الخَلقَ لِکَی اُعرَف[2] ۔ میں چھپا هوا خزانه تھا پس میں نے چاها که پهچانا جاؤں تو میں نے خلائق کو خلق کیا تا که پهچانا جاؤں ۔
گنج مخفی بد ز پرّی چاک کرد
خاک را روشن تر از افلاک کرد[3]
عالم وجود کی خلقت کی بنیاد محبت اور عشق هے جو خداوند عالم اپنے کمالات و جمال سے کرتا هے ۔ خداوند عالم نے اپنا جمال ظاهر کرنا چاها تو خلقت کو اپنے جمال کا آیینه بنالیا ۔ هر شئے خدا کے جمال و کمال کے کسی ایک گوشه کی عکاس بن گئی؛ اسی لیئے هر شئے خدا کی آیت هے ۔
نویں صدی کے نامی گرامی عارف واصل عبد الرحمن جامی فرماتے هیں :
در آن خلوت که هستی بی نشان بود
وجودی بود از نقش دوئی دور
ز گفت وگوی مائی و توئی دور
جمالی مطلق از قید مظاهر
به نور خویشتن بر خویش ظاهر
جمال اوست هر جا جلوه کرده
ز معشوقان عالم بسته پرده
اس بناپر عالم وجود کی هر شئے خداوند عالم کی محبوب هے ۔[4]
لیکن اس سوال میں جو پوچھا گیا هے وه ایک خاص محبت کے بارے میں هے جس کی مزید وضاحت انشاء الله آگے اور آئے گی؛ که انسان کس طرح خدا کا خاص محبوب بنده بن سکتا هے ؟
خدا کے مجذوب اور محبوب هونے کا امکان:
سب سے پهلے تو سوال یه هے که کیا خداوند عالم کسی سے متأثرهو سکتا هے ؟ کیا کوئی اس قابل هو سکتا هے که خدا کا محبوب بن سکے؟ وه خداے رحمٰن و رحیم اپنے رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کو جو حکم اور پیغام دیتا هے اس سے صاف ظاهر هو جاتا هے که ایسا ممکن هے که مؤمنوں میں اس کے خاص بندے خداوند عالم کے محبوب قرار پائیں '' قل ان کُنتُم تُحِبّونَ اللهَ فاتَّبِعونی یُحبِبکُمُ الله ''[5]( کهه دو اگر تم خدا کو چاهتے هو تو میری اطاعت کرو تو الله بھی تم سے محبت کرےگا )۔ سوره مائده میں ارشاد هوتا هے '' یُحبُّهم و یُحبُّونهُ ''[6] ( خدا بندوں سے محبت رکھتا هے اور بندے خدا سے محبت رکھتے هیں )۔ حدیث قدسی میں ارشاد هوتا هے '' لَو علمُ المُدبِرون کیف اشتیاقی بهم لماتوا شوقا ''[7](اگر ﻤﺠﮭ سے منهه پھیرنے والے بندوں کو یه معلوم هوجائے که میں ان کا کتنا مشتاق هوں تو وه شدّت شوق سے مر جائنگے )۔ ایک اور مشهور معروف حدیث قدسی میں جو امام صادق علیه السلام پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم سے نقل فرماتے هیں، خداوند عالم ارشاد فرماتا هے : '' انّه لیتقرب الیَّ بالنافلۃِ حتّی اُحِبُّهُ ''[8](بنده نماز نافله کے ذریعه میری قربت حاصل کرے تاکه میں اس سے محبت کرنے لگوں )۔
خدا کا محبوب هونا:
خدا کی محبت بندوں سے اور بندوں کی محبت خدا سے،کے بهت سے معنی اور مفهوم هو سکتے هیں لیکن اس معنی میں هرگز نهیں هے جس معنی میں انسان آپس میں محبت کرتے هیں ، اس سلسله میں جو کها جا سکتا هے وه یهی هے که اس محبت کی تاثیر یه هے که خدا اپنے محبوب بندوں سے ایک ایک کر کے حجابات کو اٹھا لیتا هے اور وه دل کی آنکھوں سے جمال الهی کا مشاهده کرنے لگتا هے اور اس کی بارگاه قربت حاصل کرلیتا هے ؛ اور ازل سے خداوند عالم کا اراده که ایسے بندوں کے باطن کو پاکیزه، روشن اور منوّر کرے تا که اس کے سوا کسی چیز کو اپنے دل میں جگه نه دے ، اپنے اور بندے کے درمیان تمام رکاوٹیںدورکر دے تا که حق کے سوا ﮐﭽﮭ نه سنے ، اس کے علاوه کسی اور کی بات بندے کے کانوں سے نه ٹکرائے اور اپنے چشم باطن سے سوائے اس کے کسی اور کو نه دیکھے اور خدا کی زبان کے علاوه کسی اور زبان سے گفتگو نه کرے [9]
خدا کا محبوب هونے کی راهیں:
خدا کی بارگاه میں محبوبیت حاصل کرنے کی اهم ترین راهیں یه هیں که انسان تفصیلی طور پر یه سمجھے که خداوند عالم کیا چاهتا هے اور کس چیز میں اس کی مرضی پوشیده هے تا که اس کی مرضی په چل کے اور اس کے اوامر و احکام کی تعمیل کر کے اس کی عنایت اور توجهات کا مستحق قرار پائے اور مرحله به مرحله اس کی قربت حاصل هو جائے اسی طرح اپنی حاصل شده محبوبیت کو برقرار رکھنے کے لیئے بھی اپنی آخری سانس تک یه سلسله قائم رکھنا هوگا ۔
اس کے علاوه یه بھی تفصیلی طور سے جاننا هوگا که خداوند عالم کن چیزوں سے کراهت رکھتا هے اور کیا چیزیں اس کے غضب و لعن و عذاب کا سبب بنتی هیں اور کن چیزوں سے پرهیز کرنے کو کها گیا هے ، تا که ان سے دور رهے اور اگر ان میں گرفتار هے تو اپنے آپ کو ان سے نکال کے آزاد کرے تا که رب العّزت کی درگاه میں محبوب قرار پائے ۔ اس سلسله کو بھی عمر کی آخری سانس تک برقرار رکھنا هوگا ؛ تا که رانده درگاه الهی نه هو اور خدا کے غضب و عذاب میں مبتلا نه هو ۔
اور اس مذکوره معرفت کو حاصل کرنے کی سب سے آسان اور مطمئن راه، قرآن کی آیات اور معصومین کی روایات هیں کیونکه قرآن کریم تحریف سے پاک و منزّه هے اور خداوند عالم نے اس میں هر وه چیز بیان کر دی هے جس میں اس کی رضایت شامل هے ؛ ایمان اور عمل اس کی بارگاه میں محبوبیت کا وسیله هیں ، جس کی بنا پر خدا کی رحمتیں اس کو اپنے دامن میں لے لیتی هیں ، تا هم یه بات بھی واضح هے که ان میں سے کوئی بھی صرف ایک یعنی صرف عقیده یا عمل یا ان دونوں کا دکھاوا ، خداوند عالم کے غضب اور اس کی بارگاه سے نکالے جانے اور جهنم کے گڑھوں میں جھونکے جانے کا سبب بن سکتی هے ۔ اگر انسان اپنے آپ کو عقیده و عمل اور اخلاق میں مکمل طور سے قرآن کریم سے منطبق کر لے ؛ اور اس سلسله میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم اور ائمه معصومین علیهم السلام کی سیرت کو اپنے لیئے نمونه عمل قرار دے، تو اپنے اس مطلوب اور مقصود یعنی پروردگار عالم کی خوشنودی، خدا کے نزدیک محبوبیت، اس کے غضب و لعن و عذاب سے نجات کو ضرور پا لے گا ۔
آیات و روایات کی روشنی میں خدا سے قربت حاصل کرنے اور اس کے محبوب هونے کی بهت سی راهیں بیان هوئی هیں؛ ﮐﭽﮭ کلی عناوین اور معیارات کے تحت اور ﮐﭽﮭ جزئی اورسیر و سلوک کے تفصیلی موارد اور مصادیق کے ساﭡﮭ راه کمال کے سالکوں کو هدایتیں دیتی هیں ۔
کلی عناوین و معیارات جیسے:
۱۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم کی پیروی: جیسا که اشاره هو چکا هے که بنده کی محبوبیت کے سلسله میں خداوند عالم نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم کی پیروی کو شرط قرار دیا هے اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم کو حکم دیا هے که اعلان کر دیں که '' قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله ''[10] ( کهه دو اگر تم خدا کو چاهتے هو تو میری اطاعت کرو تو الله بھی تم سے محبت کریگا )۔ اس بنا پر اس آیت میں محبت الهی کا معیار و ضابطه کلی، پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم کی گفتار و کردار و سیرت کی اطاعت اور پیروی کو قرار دیا گیا هے اور قرآن مجید کی بهت سی آیاتوں نه اس پیروی کی تأکید کی هے " ما آتاکُم الرّسول فخذوهُ "[11] (جو تعلیمات رسول تمهیں دیں اس پر عمل کرو ) " اَطیعوا الله و اَطیعوا الرّسول "[12]
( خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ) " اطیعوا الله و رسوله و لا تنازعوا " خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نه کرو ) [13]
۲۔ واجبات، نوافل اور مستحبات کا بجا لانا:
بے شمار اور معتبر احادیث میں جو احادیث قرب فرائض اور قرب نوافل کے نام سے جانی جاتی هیں، خدا کے محبوب هونے کی راه کو، واجبات نوافل اور مستحبات کو انجام دینا بتایا گیا هے ۔ اس سلسله میں تمام احادیث کو ذ کر کرنے ، اور قرب فرائض اور قرب نوافل کے فرق کو بیان کرنے سے بات بهت طولانی هو جائے گی لهذا مختصر عرض کرتے هیں که امام صادق علیه السلام سے منقول ایک روایت میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم فرماتے هیں که خداوند عالم کا ارشاد هے " میرے بندے واجبات سے بھی زیاده محبوب عبادتوں کے ذریعه میرا تقرب کیوں نهیں حاصل کرتے ، یقیناً جو مسلسل نافلوں اور مستحبات کے ذریعه میری بارگاه میں قربت حاصل کرتا اور اس منزل پر پهنچتا هے جسے میں دوست رکھتا هوں اور جب میں اسے دوست رکھتا هوں تو میں اس کا کان بن جاتا هوں جس سے وه سنتا هے ، اس کی آﻨﮐﮭ بن جاتا هوں جس سے وه دیکھتا هے ، اس کی زبان بن جاتا هوں جس سے وه بولتا هے ، اس کا هاﭡﮭ بن جاتا هوں جس سے وه کاموں کو انجام دیتا هے ، اور ۔۔۔[14]
اسی طرح کی روایت امام باقر علیه السلام سے بھی منقول هے [15]۔
اس طرح کی روایات میں غور کرنے سے خداوند کی بارگاه میں محبوب هونے کے اثرات اور اس کے تابناک نتائج کا بھی واضح طور سے اندازه لگایا جا سکتا هے ؛ جس کا حاصل باطن کا نورانی هونا، حجاب کا برطرف هونا، قرب الهی کے مقام پر فائز هونا، اور یه سب اس کے لطف و کرم و عنایت کا فیض اور اس کی محبت کا نتیجه هے [16]۔
" ایمان " خود محبت الهی کا ثمر بتایا گیا هے ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم کی روایت میں ارشاد هوتا هے : " انّ الله یعطی الدنیا من یحبّ و من لا یحب و لا یعطی الایمان الاّ من یحب "[17] خداوند عالم دنیا دیتا هے جسے دوست رکھتا هے اور جسے دوست نهیں رکھتا ؛ لیکن ایمان نهیں اسی کودیتا هے جسے دوست رکھتا هے ۔ کیونکه محب اور محبوب کا رابطه لطف و التفات کا رابطه هے جس کے اظهار سے محب اور محبوب کی محبت میں اضافه هوتا رهتا هے اور اس کے اندر ایک تڑپ سی پیدا هو جاتی هے ۔ اسی لیئے دعاے ند به کے فقروں میں ملتا هے " الّٰلهُمَ وأقبل الَینا بِوَجهِکَ الکَریم وَ اقبل تَقَرُّبَنا الیکَ و انظُر الینا نَظرۃ رَحیمۃ نَستَکمِلُ بِها الکِرامَۃَ عِندَک ثُمَّ لا تَصرِف ھا عَنّا بِجُودِکَ "[18] خدایا هماری طرف اپنے کرم کی صورت سے رخ کر اور اپنی رحمت کی نگاهوں سے هماری طرف نظر کر جس سے تیرے حضور هماری کرامت کمال تک پهونچے ، پھر اپنے جود و کرم کو هم سے دریغ نه ک فرما ۔
اب تک بارگاه الهی میں محبوبیت حاصل کرنے کے عام ضوابط اور معیارات کی طرف روشنی ڈالی جا چکی ؛ اب اس کے بعض جزئی موارد کی طرف اشاره کیا جا رها هے ؛ جسے قرآن کی آیتوں میں "محبوب عند الله" (خدا کے نزدیک پسندیده ) کے عنوان سے پهچنوایا گیا هے :
محبوب عند الله :
ایمان ، خدا اور رسول کی اطاعت ، نیک کاموں کی طرف عجلت ، خطاؤں کی بھرپائی ، خداوند عالم سے طلب مغفرت
خدا کی راه میں آشکار اور پنهاں انفاق کرنا ، غصه کو پی جانا لوگوں کی غلطیوں کو درگذر کرنا اور ان سے نیکی سے پیش آنا جو همیشه خدا کی یاد میں مصروف رهتے هیں اور اپنی خطاؤں پر اصرار نهیں کرتے اور ربا نهیں کھاتے [19]
خدا پر توکل رکھتے هیں ۔ پریشانیوں میں صابر اور برد بار رهتے هیں اور زبان پر شکوے کے الفاظ نهیں لاتے ۔ اپنے کاموں کے لیئے نیک لوگوں سے مشوره کرتے هیں ۔ لوگوں سے نرمی اور لطافت کے ساﭡﮭ پیش آتے هیں [20]۔
متقی اور پرهیزگار هیں ۔ خدا رسول اولیا اور لوگوں سے کئے هوئے وعدوں کے پابند هیں اور اسے نبھاتے هیں [21]
توبه و اخلاص کے ذریعه اپنے تقوی کی طهارت کرتے هیں، بیهود گی اور آلودگی سے دور رهتے هیں [22]۔
اپنے کان، آﻨﮐﮭ ، زبان، پیٹ، اور بدن کے هر عضو کو حرام سے روکے رکھتے هیں [23]اپنے والدین کا احترام کرتے هیں ، اپنے خاندان اور رشته داروں کی حرمت کا پاس و خیال رکھتے هیں [24]اولیائے دین خاص کر پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم کا ذکر درود و احترام کے ساﭡﮭ کرتے هیں [25]حکومت یا قضاوت کا منصب پاتے هیں تو عدل و انصاف کو اپنا شعار بناتے هیں [26]
خدا کی راه میں خرچ کئے پر افسوس نهیں کرتے ۔ اگر مال و دولت و منصب پر فائز هوے تو گھمنڈ نهیں کرتے[27]،خدا کی راه میں دل و جان و مال کو نچھاور کرتے هیں [28]
روایات:
روایات میں بھی خدا کی محبت اور قربت حاصل کرنے کی بهت سی راهیں بیان هوئی هیں:
جو خدا کو پسند هے وهی پسند کرنا [29]
رسول صلی الله علیه و آله و سلم اور ان کی آل علیهم السلام کو دوست رکھنا [30]
خدا سے محبت رکھنا[31]
علم و معرفت کے حصول میںلگے رهنا [32]
خدا کی تهلیل و تسبیح و تکبیر میں مشغول رهنا[33]
عمل خیر میں جلدی کرنا اور اس پر قائم رهنا [34]
اور ۔ ۔ ۔
مبغوض عند الله :
اس کے مقابله میں مند رجه ذیل گروه خدا کے نزدیک "مبغوض"، "ملعون" اور رانده درگاه هیں :
کافر[35]
مشرک [36]
منافق [37]
مستکبر[38]
ضد ی ٹکراو رکھنٰٰ [39]
اکڑ کے فخر جتانے والے جو صرف اپنے په ناز کرتے هیں [40]
اپنی حد سے گذر جاتے هیں اور خدا و خلق خدا کے حقوق کا پاس و لحاظ نهیں کرتے[41]
عیاش اور عیش پرور[42]
اسراف کرنے والے [43]
خدا کی زمین میں فساد بر پا کرنے والے [44]
اپنے مال کو خدا کٰٰی بتائی هوئی صحیح راه میں خرچ نهیں کرتے۔ کنجوسی ، حسد اور کینه پروری سے کام لیتے هیں [45]
عهد توڑنے والے ؛ کفار اور دشمنان د ین سے دوستی رکھنے والے ان کا هاﭡﮭ بٹانے والے هیں [46]
احسان فراموش اور خیانتکار هیں [47]
انبیاء، اولیاء اور مؤمنوں کے قتل سے دریغ نهیں کرتے[48]باغی اور گنهکار هیں [49]
اپنے اور لوگوں پر ستم کرتے هیں ؛ اور خدا کے حقوق کی ر عایت نهیں کرتے[50]
خدا کی بارگاه میں دعا، توبه، گریه و زاری، اظهار ندامت، پرهیزگاری کا خیال اور اس کا پاس و لحاظ رکھنے کے عادی نهیں هوتے ۔ خدا سے بھی اکڑ کے مغرور رهتے هیں [51] دین میں تحریف کرتے هیں [52] طاغوت اور شیطان کی پیروی کرتے هیں [53]
لوگوں کی هدایت کے راسته میں آڑے آتے هیں۔ دین داروں میں تفرقه ڈال کر انهیں گمراه کرتے هیں [54] زبان کے بُرے هوتے هیں اور جو کهتے هیں اس پر عمل نهیں کرتے[55]خدا، رسول صل الله علیه و آله وسلم اور اولیاء کو اپنے اعمال اور کرتوت سے اذیت پهنچاتے هیں [56]
خدا کی راه میں جهاد اور اس کی راه میں جان و مال کو خرچ کرنے سے بهانے تراش کر دور بھاگتے هیں [57] ناشکرے ، گناهوں کے عادی [58] اور فاسقوں کے پیروکار هوتے هیں [59]
عمل صالح اور خدا ، رسول صل الله علیه و آله وسلم اور اولیاء پر ایمان رکھنے سے ناطه نهیں رکھتے ؛ ان سے اپنا رابطه توڑ کے ان کے دشمنوں سے ملے هوتے هیں [60]
اب اگر هم واقعی خدا کی رحمت و عنایت و محبت کے طالب هیں، تو عزم راسخ کے ساﭡﮭ اپنے آپ کو دوسرے گروه سے جدا کریں، اور پهلے گروه سے منسلک هو جائیں ۔ امر بالمعروف اور نهی عن المنکر، دین کی تبلیغ و ترویج، اسلام و مسلمین و تشیع کی عظمت کی پاسبانی کرکے خود بھی خدا سے راضی هوں اور خدا کو بھی اپنے سے راضی کریں؛ خدا، رسول صل الله علیه و آله وسلم ، اور اولیاء کو محبوب رکھیں اور ان ذوات مقد سه کے محبوب بھی هوں [61] انشاء الله
[1] مائده / ۵۴
[2] بحار، ج ۸۴، ص ۱۹۸
[3] مولوی مثنوی
[4] ابن سینا، اشارات و تنبیهات، ج ۳، ص ۳۶۳ – ۳۵۹ ۔ صدر المتألهین، اسفار ، ج ۷ ، ص ۱۶۰ – ۱۴۸
[5] آل عمران / ۳۱
[6] مائده / ۵۴
[7] شیخ محمد بهاری (ره) ،تذکرۃ المتقین ص134
[8] کلینی ،کافی ،کتاب الایمان و الکفر ،باب من أذی المسلمین و احتقریم،ج 7 ،ص253 ۔بحار الانوار ،ج 70 ۔کتاب الایمان و الکفر ،مکارم الاخلاق،ص16 ،ح8۔
[9] فیض کاشانی ،ملا محسن ،اخلاق الحسنۃ، صص 239 ۔238
[10] آل عمران 31
[11] حشر/ 7
[12] نساء/59
[13] انفال/ 46
[14] کلینی ،کافی ،ج2، ص 352،ح 7
[15] کلینی ،کافی ،ج2، ص 352،ح8
[16] اخلاق الحسنۃ، ص238
[17] فیض کاشانی ،ملا محسن، محجۃ البیضاء ،ج8 ،ص64
[18] محدث قمی ،شیخ عباس ،مفاتیح الجنان ،دعای ندبه
[19] آل عمران/130،136،146 ،148۔
[20] آل عمران/ 3،146 ،159،160۔
[21] آل عمران/ 76۔ توبه/ 4،7۔
[22] توبه/ 108 ،222۔
[23] مومنون/ 1،11 ۔ نور/ 30 ،31 ۔ احزاب/ 70،71
[24] لقمان/ 14،15
[25] احزاب/ 56 ۔حجرات/ 2 ،5
[26] حجرات/ 9۔ مائده/ 42
[27] حدید/ 23
[28] صف 23۔ آل عمران 154،158
[29] بحار الانوار،ج 70،ص70ح4
[30] بحار الانوار ،ج 57، ص198،ح145
[31] بحار الانوار،ج 70 ،ص18 ،ح9
[32] بحار الانوار،ج 70 ،ص304،ح18
[33] محجۃ البیضاء ،ج 2 ص275
[34] بحار الانوار ،ج 71 ،ص216،ح18 ۔ نیزص322 ،ح33
[35] بقره/ 89 90، روم/ 45 آل عمران /32
[36] لقمان/ 13
[37] فتح /6 ۔ توبۃ / 28سے آخر سوره تک
[38] نحل /23
[39] شوری /16 ۔ اعراف/71
[40] حدید / 23۔ نساء / 36 ۔ لقمان /18
[41] بقره/190 ۔ اعراف/55
[42] قصص / 76
[43] اعراف /31 ۔ انعام/141
[44] قصص /77 ۔ طٰه /81 ۔ مائده /64 ۔ بقره /205
[45] گذشته مدرک
[46] مائده /50,63,80 ۔رعد /20,25
[47] حج /38 ۔ انفال /58 ۔ نساء/107
[48] نساء /93 ۔ آل عمران/112 ۔ بقره/61
[49] حجرات/7
[50] شوری /40 ۔ آل عمران /57,140
[51] اعراف/55
[52] مائده/78 ۔ هود/18
[53] هود/59,60 ۔ نساء/48,54,115,118 ۔ احزاب/64,68
[54] اعراف/44,45
[55] صف/2,3 ۔ حجرات/11,12 ۔ نور/23 ۔ نساء /148
[56] احزاب/57,58
[57] انفال/16
[58] بقره/276
[59] هود/59,60
[60] رعد/20,25
[61]فجر/28۔آل عمران/31