مذکوره سوال کا چار حصوں میں جواب دیا جاسکتا هے:
١- گناه کی حقیقت: گناه کو عربی میں "اثم" اور "عصیان" کها جاتا هے – اس کے معنی ھیں مولا کی نافر مانی اور خطا ولغزش –گناهکار انسان عقل کی اطاعت کے بجائے شهوت و غضب کی پیروی کر تا هے اور اس حالت میں ممکن هے که وه هر گناه کا مرتکب هوجائے اس طرح وه اپنے آپ پر ظلم کر تا هے – گناه شیطان کا پھندا هے ، جس کے باطن میں آگ اور ظاهر ھیں ناپائیدار لذت و شهوت هے اور غافل شخص اس کی لالچ میں آکر عذاب الهی سے دو چار هوتا هے-
٢- گناه کے اثرات: گناه کے انفرادی و اجتماعی اثرات هیں-اس کے انفرادی اثرات یه هیں : قساوت قلب اور دل کا تاریک هو نا ، معارف و اسرار الهی سے محروم هو نا ، دل کا شیطان کی آرام گاه قرار پانا، معرفت پروردگار اور نفس کے لئے (گناه کا )حجاب بننا ، مناجات کی لذت اور دعا کے قبول هو نے کو درک کرنے سے محروم هو نا اور معاد اور ثواب و جزاے اخروی سے انکار کر نا- گناه کے اجتماعی اثرات یه هیں که :گناه، معاشرے کے تنزل و پسماندگی کا سبب بن جاتا هے، حتی کھ اگر ایک ترقی یافته معاشره بھی اخلاقی انحرافات سے دو چار هو جائے تو اس کی انسانی و اخلاقی قدریں تنزل و زوال سے دوچار هوتی هیں –
٣- گناه کا سر چشمه: علمائے دین نے جهالت و غفلت کو ارتکاب گناه کے دو بنیادی سبب جاناهے – دشمن کا سب سے اهم اسلحه اور انسان میں نفوذ کر نے کی پهلی راه انسان کو غافل کر نا هے اورجهالت بهی برائیوں کا سر چشمه هے ، انسان کی وجودی قدروں کے بارے میں جهالت، قابل قدر پاک دامنی اور عفت کے آثار کے بارے میں جهالت اور گناه کے نتائج کے بارے میں جهالت و ...
٤- نجات کا راسته: اس سلسله میں چند راهوں کا ذکر کیا جاسکتا هے :
الف) توبه و استغفار- توبه، گناه کو ترک کر نے کے قصد کے ساتھـ پروردگار کی طرف رجوع کرنے کے معنی میں هے، اس کے کئی مراتب هیں-
ب) گناه کی یاد دهانی
ج) خدا کی یاد
د) انسان کا اراده
گناه، جسے عربی میں "اثم" و "عصیان" کها جاتا هے ، مولا کے امر ونهی کی
نافر مانی اور خطا و لغزش کے معنی میں هے ، یعنی ایسے کام کو انجام دینا جو مولا اور خالق کی نظر میں نا پسند اور قابل مذ مت هو، چونکه یه کام شر وبدکاری پر مشتمل هے اس لئے اس کی نهی کی گئی هے اور یا ایک ایسے کام کو انجام نه دینا یا ترک کر نا جو کسی مصلحت کی بنا پر واجب قرار دیا گیا هے – اس بناپر گناه عبودیت و بندگی کی مخالفت هے-گناهگار انسان شهوت و غضب کو عقل کا جانشین بناتا هے ، جبکه حقیقت میں شهوت و غضب انسان کے فروعات میں سے هیں اور انھیں انسان کی عقل کی پیروی کر نی چاهئے – جب شهوت و غضب اس کے باطن کے فرمانروا بن جاتے هیں تو وه اس کے محبوب بن جاتے هیں ، اس وقت جو بھی کام وه انجام دے گا وه شهوت پسند یا غضب کے لئے قابل قبول هو گا ، اس لئے وه مرتکب گناه هو تا هے – جس طرح انسان کا فریضه هے که دوسروں پر ظلم نه کرے،اسی طرح اس کی ذمه داری هے که اپنے اوپر بھی ظلم نه کرے – جوشخص عقل عملی کی جگه پر شهوت و غضب کو اور عقل نظری کی جگه پر وهم وخیال کو جانشین بنائے ، وه غاصب هے اور اس نے آپنے آپ پر ظلم کیا هے اور اگر کوئی معرفت میں ظالم هو تو وه عمل میں بھی ظلم سے دوچار هو گا اور اپنے حقوق کی رعایت نهیں کرے گا-[1]
گناه شیطان کا پھندا!: اهل بیت علیهم السلام کی روایتوں میں مادی تعلقات کو شکاری کے پھندوں اور گناهوں کو شیطان کے پھندوں کے عنوان سے یاد کیا گیا هے – یعنی گناه ایسے پھندے هیں جن کے ذریعه شیطان انسانوں کو شکار کر تا هے اور یه ایسی رسیاں اور طنابیں هیں جن کے ذریعه انسانوں کو باندھ لیتا هے ، البته شیطان کی یه رسیاں بھی رنگ برنگ اور چھوٹی بڑی هو تی هیں اور شیطان هر شخص کو اپنے خاص انداز سے دهوکه دیتا هے ، بعض لوگوں کو دولت سے اور بعض لوگوں کو مقام و منصب سے اور بعض دوسروں کو جنسی خواهشات کے ذریعه فریب دیتا هے –
جهنم کی آگ لذتوں اور شهوتوں سے مخلوط اور آمیخته هے، اس معنی میں که باطن میں دام آتش اور ظاهر میں جام شهوت هے اور انسان جام شهوت کی لالچ میں دام شعله کے لپیٹ میں آتا هے-[2]
گناه کے اثرات:
گناه کے برے اثرات دو حصوں می تقسیم هو تے هیں، یعنی انفرادی اثرات اور اجتماعی اثرات:
الف :گناه کے انفرادی اثرات:گناه کے انفرادی اثرات حسب ذیل هیں:
١) گناه حقیقت میں پیپ کے مانند هے اور روح کو تاریک کر ڈالتا هے انسان، گناه کے اثر میں نه آرام سے سو سکتا هے که معرفت کے خواب اس کو نصیب هو سکیں اور نه سکون سے بیدار ره سکتا هے که صحیح علم کو کشف کر کے دوسروں کی مناسب تربیت کر پائے اس لئے اگر روح تاریک هو جائے تو بهت سے اسرار اس سے مخفی هو جا تے هیں – یه وه روح هے جسے خداوند متعال نے منبع الهام قرار دیا هے اور اس کی قسم کها ئی هے – یه جو کها گیا هے که سالک کو کم باتیں کر نی چاهئیں اور اپنی خوراک کے بارے میں هو شیار رهنا چاهئے، وه اسی لئے هے که وه الهام الهی کی آواز کو سن لے ، کیو نکه اگر کوئی باطن کی آواز کو سننا چاهے تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چاره نهیں هے که خاموش رهے اور بات نه کرے-[3]
٢) جب انسان، شیطان کی ولایت میں آجاتا هے اور اس کے وسوسوں کو قبول کر لیتا هے ، تو رفته رفته اس کا دل شیطان کا گھر بن جاتا هے اور وه خود شیطان کا میز بان بن جاتا هے- یه مطلب قرآن مجید کی آیات میں بیان هوا هے -[4] انسان کا دل دروغ گو اور دروغ باف هے ، یه شیطان کے نازل هو نے کی جگه هے ، لیکن جو انسان علمی مسائل میں بھی امین اور صادق القول هو اور مالی مسائل اور عملی امور میں بھی امین اور صادق القول هو، اس کا دل هر گز شیطان کا گھرنهیں بن سکتا هے-[5]
٣) گناه، معرفت نفس کا پرده هے – انسان گناه کے سبب خدا کو فراموش کر تا هے اور یهی فراموشی معرفت نفس کے لئے حجاب بن جاتی هے اور اس امر کی اجازت نهیں دیتی هے که انسان خود کو پهچان لے-[6]
اگر انسان تباهی کےسامنے هتھیار ڈال دے تو اس نے اپنی هستی کو همشه کے لئے مٹا دیا هے اور خود کو زنجیروں میں جکڑ لیا هے ، اس کی ان زنجیروں کو کوئی چیز حتی که جهنم کی آگ بھی نهیں کهول سکتی هے – کیو نکه اگر چه آگ لو هے کو نرم کر نے کی طاقت رکھتی هے ، لیکن اگر خودلو ها آتشی هو یعنی خود آگ لوهے کی صورت اختیار کر ے تو کو ئی چیز اسے پگهلا نهیں سکتی هے-[7]
٤) گناه کا ایک اور اثر یه هے که گناه گار مناجات کی لذت سے محروم هو تا هے اور افسوس کرتا هے که کاش! اپنی عبادت سے لذت پاکر لطف اندوز هو تا! لیکن گناه اور قساوت قلب کے سبب اس فر صت کو کھو دیتا هے- شیخ صدوق رحمۃ الله علیه اپنی گرانقدر کتاب "التوحید" میں آٹھویں امام حضرت امام رضا علیه السلام سے ایک روایت نقل کر تے هیں که ایک شخص نےآپ(ع) سے پو چھا : خدا کیوں پوشیده و مخفی هے ؟ امام (ع)نے جواب میںفر مایا : وه مخفی نهیں هے ، یه جو تم اسے نهیں دیکھتے هو یه کثرت گناه کے سبب هے که ایک پر دے کے مانند فطرت کے شهود کے سامنے حائل هو تا هے اور انسان کو فطرت کی آنکھوں سے خداوند متعال کو دیکھنے میں رکاوٹ بن جاتا هے-[8]
اسلامی روایتوں میں بھی، گناه کے حائل هو نے کے سلسله میں وسیع پیمانے پر توجه کی گئی هے- جیسا که رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا :" جب انسان گناه کا مرتکب هو تا هے ، تواس وقت اس کے دل میں ایک سیاه نقطه ظاهر هو تا هے، اگر اس سے اجتناب کر کے توبه کرلے ، تو اس کا دل صاف هو جا تا هے، لیکن اگر پھر سے گناه کو دهرا ئے، تو وه سیاه نقطه پھیل جاتا هے، یهاں تک که اس کے پو رے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا هے-"[9] " پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے مزید فر مایا :" گناهوں کی کثرت کے سبب انسان کا دل تباه وبرباد اور فاسد هو جاتا هے –" یا چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیه السلام سے نقل کیاگیا هے که آپ(ع) نے فر مایا:" میں پرهیز گاری ، تقوی ، محر مات سے اجتناب اور عبادت کے لئے اهتمام و کوشش کر نے کی وصیت کر تا هوں ، یه جان لو که محر مات سے اجتناب کئے بغیر عبادت کا کوئی فائده نهیں هے –" حدیث نبوی (ص) میں آیا هے که آنحضرت(ص) نے ابوذر سے خطاب کر تے هوئے فرمایا:" اے اباذر! اصل دین ترک گناه هے اور دین کا سر خدا کی اطاعت هے اور جان لو که اگر نماز کے سبب کمان کے مانند خم هو جاٶ اور روزه کے سبب رسی کے مانند لاغر هو جاٶ تو بھی کو ئی فائده نهیں هے، مگر یه که پرپیز گاری اور ترک گناه کو اپنا شیوه بنالو ، اے اباذر ! جنهوں نے حرام کو ترک کر کے زهد کو اختیار کیا هے وه حقیقت میں اولیائے خدا هیں-[10]
٥) قیامت کا انکار: قیامت کے بارے میں علم حاصل کر نے میں گناه رکاوٹ بنتا هے ، یعنی ممکن هے کوئی شخص قیامت کے بارے میں عالم هو لیکن اس کاعلم شهوت کے زنگار کے نیچے دفن هو چکا هو اس قسم کا علم کار آمد نهیں هے -[11] قرآن مجید کے سوره مطففین میں[12] ان افراد کی طرف اشاره کیاگیا هے جو قیامت کے بالکل منکر هیں ، اس کے بعد فر ماتا هے : " قیامت کے دلائل واضح هیں، صرف وه لوگ اس سے انکار کرتے هیں جو جارحیت اور گناه کے مرتکب هیں ، وه کبھی آیات الهی کے سامنے هتیار نهیں ڈالتے هیں ، اس لئے جب ان کے لئے آیات الهی کی تلاوت کی جاتی هے تو، ان کی مخالفت میں کهتے هیں : " یه اسلاف کے افسانے هیں –" قرآن مجید واضح طور پر فر ماتا هے : " جیساوه سوچتے هیں ، ویسا نهیں هے – ان کی یه باتیں اس لئے هیں که ان کے دلوں پر برے اعمال اور گناه زنگار کے مانند حائل هو چکے هیں-" ان آیات سے بخوبی معلوم هو تا هے که گناه دل کی صفا کو آلوده کرتا هے ، جس کے نتیجه میں اس آئینه الهی میں حقائق منعکس نهیں هو پا تے هیں، ورنه آیات الهی خاص کر مبدا و معاد کے سلسله میں واضح اورروشن هیں-[13]
ب: گناه کا اجتماعی اثر : گناه معاشره کے تنزل و پسماندگی اور جرم وظلم کے پھیلنے کا سبب بن کر معاشره کے فعال افراد کو مختل کردیتا هے اور اس طرح معاشره کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا هے –حتی که مغربی معاشروں میں بھی گناه گار اور بد کردار افراد سماج کے نچلے طبقوں میں اور اجتماعی حیثیت کے گم کرده افراد هو تے هیں-
گناه کا سر چشمه غفلت وجهالت:
دشمن کا اهم اسلحه اور انسان میں نفوذ کر نے کی پهلا طریقه اسے غافل کر نا هے – اگر شیطان کسی کو غافل کر نے میں کامیاب هوا تو وه دوسری راهوں جیسے جهل مرکب وغیره سے استفاده کر نے کی تکلیف نهیں اٹھاتا هے – اگر ابلیس انسان میں وسوسه پیدا کر نے میں کامیاب هو گیا تو وه اطمینان کا سانس لیتا هے – جهالت، فساد اور برائی پھیلنے کا سر چشمه هے٠ حضرت یوسف علیه السلام سے مربوط آیات سے معلوم هو تا هے که گناه سے آلوده عشق ومحبت اور جنسی گمراهیاں جهالت و نادانی سے ترقی پاتی هیں جهالت کی کئی قسمیں هیں،جیسے: انسانی وجودکی قدروں کے بارے میں جهالت ، پاک دامنی اور غفلت کے قابل قدر اثرات کے بارے میں جهالت، گناه کے نتائج اور سر انجام اوامر ونواهی الهی کے بارے میں جهالت-[14]
گناه سے نجات پانے کا راسته:
گناه سے نجات پانے کی مندرجه ذیل راهوں کی طرف اشاره کیاجاسکتا هے:
١- گناه [15]سے توبه واستغفار[16]:لغت میں توبه رجوع کے معنی میں هے-جب"بنده" اپنے مولا کی طرف پلٹتا هے تو کهتے هیں، اس نے توبه کی هے-خداوندمتعال نے قرآن مجید میں تمام مومنین کو توبه کر نے کا حکم دیا هے-
٢- گناه کی یاد دهانی-[17]
٣- خداکی یاد-[18]
[1] - جوادIی آملی ، عبدالله، مراحل اخلاق در قرآن،ص٣٣٤- ٣٣٢-
[2]- نهج البلاغه ،خطبه ١٧٦، جوادی آملی، عبدالله، مبادی اخلاق در قرآن،ص٣١٨،ملامهدی نراقی ،جامع السعادت ،ص١٩٤،جوادی آملی،عبدالله،تسنیم،ص٤٠٠-
[3] - جوادی آملی ، عبدالله ، مراحل اخلاق در قرآن،ص١٥٩-١٥٥-
[4] - شعرا،٢٢٢-٢٢١-
[5] - جوادی آملی ،عبدالله، مبادی اخلاق در قرآن، ص١١٢-
[6] - سوره مجادله، ١٩-
[7] - جوادی آملی، عبدالله ، مبادی اخلاق در قرآن،ص٢٣٦- ٢٣٥-
[8] - تو حید صدوق، ص٢٥٢، جوادی آملی ، عبدالله ، فطرت در قرآن ،ص١٠٣-
[9] - تفسیر قر طبی ،ج١٠،ص ٧٠٥، روح المعانی ،ج٣٠- ص٧٣-
[10]- کلینی اصول کافی، ج٢، باب الذنوب ، روایت ١و١٣، مکارم شیرازی ، پیام قرآن ،ج١،ص٣٦٧- ٣٦٠، در المنثور،ج٦،ص٣٢٦، علامه ی مجلسی ، حلیه المتقین،ص٩٨- [11]- سوره جاثیه ،٢٣، جوادی آملی ، عبدالله، تفسیر تسنیم، ،ج٢،ص٢٠٣-
[12] - سوره مطففین،١٤-١١-
[13] - مکارم شیرازی، پیام قرآن، ،ج١،ص٣٦١، تفسیر فخررازی،ج٣١-،ص٩٤-
[14] - جوادی آملی، عبدالله، تسنیم، ج٣،ص٣٩٧-، مکارم شیرازی ،ناصر، پیام قرآن ،ج١،ص٨٨-
[15] - سوره نور،٣١-
[16] - نهج البلاغه ،ص١٢٨، حکمت ٤٠٩، ملااحمد نراقی، معراج السعاده ،ص٦٦٩،شهید مطهری، فلسفه ی اخلاق،ص١٦٤-
[17] - جوادی آملی، عبدالله، مبادی اخلاق،ص٥٦-٥٥-
[18] - جوادی آملی ، عبدالله، مبادی اخلاق،ص٥٦- ٥٥-
[19] - سوره احزاب، ٤١-
[20] - ملاحظه هو: عنوان: هدایت واختیار، اضلال ، روزی کو حاصل کرنے میں انسان کا کردار...-