اگرچه بعض دوسری آیات میں "کتاب مبین"ذکر هوا هے اور اس سے مراد یهی "قرآن مجید"ے،لیکن اس آیت اور علم الهی کی سند کو بیان کر نے والی اس کی مشابه آیات میں،"کتاب مبین" سے مراد مخلوقات کو خلق کر نے سے پهلے علم الهی کا مرحله هے جو خود دوسری کتا بوں اور الواح پر مشتمل هے ،لیکن اس کی کمیت و کیفیت همارے لیے نامعلوم هے.
قرآن مجید میں رطب و یابس (تر وخشک) تمام چیزوں کے بارے میں کنایه هے اور خود کسی خاص مخلوق کی طرف اشاره نهیں هے اور اجمالی طور پر تفصیل کے بعد ذکر هوئے هیں ،یعنی اس کے بعد که فر ماتے هیں :غیب کی کنجیاں صرف اس کے پاس هیں (اور کوئی اس کے بارے میں مطلع نهیں هے مگر یه که خدا وند متعال خود ان کو مطلع فر مائے) اور جو کچهـ دریا اور خشکی میں هے اس کے بارے میں وه علم رکھتا هے اور ایک پتا بھی نهیں هلتا هے مگر یه که خدا وند متعال اس کے بارے میں علم رکھتا هے...چھوٹی موٹی مثالیں بیان کر نے سے صرف نظرفر مایا هے اور وه کهتا هے (خلاصه)هر تر وخشک کتاب مبین میں درج هے اور هم اس کا علم رکھتے هیں.
جو کچھـ قرآن مجید کی آیات، روایات اور محقیقین،فلاسفه ،متکلمین اور مفسیرین کے بیانات سے معلوم هو تا هے ،وه یه هے که "علم الهی"تین صورتوں میں قابل ملاحظ هو تا هے:[1]
الف:خدا وند متعال کا علم ،اس کی ذات و صفات کے بارے میں اور خداوند متعال کا علم اس کے ذاتی مقتضیات کے بارے میں یه علم ناقابل تغیر هے اور یهاں پر آیت کی مراد نهیں هے.
ب: علم الهی ،مخلوقات کے بارے میں ،خلق کے بعد:مخلوقات کو پیدا اور تخلیق کر نے کے بعد ان کے جزئیات کے بارے میں علم.یه ملاحظه ایک قابل تفکیک ملاحظه هے اور اضافه طرفین کے ملاحظه کا نیاز مند هے ،یعنی خدا وند حوادث معلومه کے بارے میں عالم هے اور چونکه طرفین هے اس لئے یه علم تبیعت میں تغیر پیدا کر کے مخلوقات کی تعداد کے مطابق متعدد ومتغیر هو تا هے اور ان کے زمانه سے متعلق هو نے کی وجه سے وه بھی زمانه کے مطابق هو تا هے .
اس علم سے، "علم فعلی" میں تبدیل هو تا هے اور صفات فعلیه شمار هو تا هے ،لیکن یهاں پر یه ملاحظه بھی مراد نهیں هے.
ج:مخلوقات اور ان کے جزئیات کے بارے میں ازل سے اور پیدا.ش سے قبل علم ،یعنی خداوند متعال ،آسمان وزمین اور ان میں موجود مخلوقات وحوادث و اتفاقات کو خلق کر نے سے پهلے ان کے تمام مراحل اور ان کی خلقت و موجو دیت اور حوادث کی کیفیت کے بارے میں علم رکھتا هے.اور یه علم تمام مخلوقات سے بالاتر ایک موجود میں منعکس اور جلوهگر هے که اسے "کتاب مبین" یا :"ام الکتاب" کها جاتا هے اور "لوح محفوظ"اور"لوح محو واثبات"پر مشتمل هے .پس یه علم دوحصوں پر مشتمل هے .ایک حصه غیب هے اور دوسرا حصه زمانه کے گزرنے کے ساتھ مشاهده میں آتا هے،ایک حصه ثابت اور نا قابل تغیر هے اور ایک حصه مٹانے لکھنے کے قابل هے.
پس اس قسم کی آیات میں "کتاب مبین" کی مراد،[2] علم الهی کا تمام مخلوقات پر محیط هو نا هے ،ان کی خلقت ،فعالیت اور تحر کات سے پهلے ،اور سوره انعام کی آیت نمبر ٥٩ میں "رطب ویا بس "(هر تر وخشک)سے مراد تمام مخلوقات هیں جو کسی طریقه یا اعتبار سے ان دو واقعات میں سے کسی ایک کے تحت هو تی هیں.
"رطب و یابس"(تر وخشک)دو نقیض هیں،یعنی کو ئی مخلوق ممکن نهیں هے ،مگر یه که ان دو میں سے ایک کے تحت هواور کوئی مصداق پایا نهیں جاتا جو ان دونوں کے تحت هو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے تحت نه هو .لهذا ان دونوں کا آیت میں ایک ساتھ ذکر کیا جانا تما عالم هستی کی مخلوقات کے بارے میں کنایه هے .اس لحاظ سے ان دونوں کے لئے کوئی خاص مصداق معین نهیں هو تا هے .اگر چه بعض روایات میں[3] اسقاط شده جنین کو یابس اور نوزائیده کو رطب کے لئے مثال قرار دیا گیا ھے،لیکن یه فقط مثال کے طور پر هیں.
لیکن بعض[4] دوسری آیات میں "کتاب مبین"وهی قرآن مجید هے،نه که مخلوقات کے قبل از خلقت علم الهی کی خاص تجلی گاه ،اور آیات کے معنی ومراد کو مشخص کرنے کے لئے آیت کے ما قبل و مابعد آیات کے سیاق پر تو جه کر نے کی ضرورت هے ..مثال کے طور پر پهلی قسم میں علم الهی کے وسیع هو نے کی طرف اشاره هے،لیکن دوسری قسم میں نازل هو نے اور وحی ....کے همراه هیں.
لیکن دونوں موارد میں "کتاب مبین" کے لغوی معنی یکساں هیں ،یعنی ایک آشکار اور واضح کتاب جس میں کسی قسم کی خطا اور ابهام کا وجود نهیں هے.
منابع وماخذ:
١.قرآن مجید
٢.مصباح یزدی ،محمد تقی ،معارف قرآن ،ج١.٣،ص١٨٢.١٨٤.
٣.طباطبائی،محمدحسین،ترجمه المیزان ،ج٧،ص١٧٦ ،١٨٤ ،٢١١-٢١٢ ،١١٩،١٥٠ ،٤١٧.
٤.قمی مشهدی ،محمد بن محمد رضا،کنزالدقائق،ج٤،ص٣٤٤.٣٤٢.
٥.طبرسی ،ابی علی فضل بن حسن،مجمع البیان،ج٢،ص٣١١.
٦.مکارم شیرازی ،ناصر،تفسیر نمو نه ،ج٨و٩و١٥و١٨.
٧.طیب،سید عبدالحسین ،اطیب البیان،ص٩١.٩٢.