ولایت کی بنیاد "ولی" هےکه لغت میں اس کے لئے مختلف معانی ذکر هوئے هیں- لیکن یهاں پر جس لغوی معنی کو مد نظر رکھا گیا هے وه: " مولی " کو دئے گئے امور کی سر پرستی اور صاحب اختیار هو ناهے اور مولی ان امور پر ایک قسم کا تسلط اور نظارت رکھتا هے ـ اور اصطلاح میں ایک انسان کامل کی تمام انسانوں کے مختلف ابعاد جیسے: انفرادی ، اجتماعی، دینی ، دنیوی ، ظاهر ، باطن ، افراد کی نیتوں ، دلوں اور تشریع وتکوین ( عالم هستی) کی ولایت وسر پرستی هےـ تاکه انهیں دنیوی اور اخروی سعادت کے کمال تک پهنچادے اور خود ان کے لئے فیض کا سبب بنے –
اس مقام کی سب سے پهلی شرط باطنی عصمت وطهارت، علم لَدُُنی ( علم غیب سے رابطه) اور وسعت قلبی هے اور اس کا نتیجه تمام لوگوں پر اتمام حجت کر نا اور دنیا میں تمام انسانوں کے ظاهری و باطنی اعمال پر شاهد رهنا اور اس شهات کو آخرت میں پیش کر نا هے- شیعوں کے اعتقاد کے مطابق ، اسلامی معاشره کا " امام " وه بن سکتا هے جو اس کلیه الهی کی ولایت کا حامل هو اور یا وه شخص که جسے اس( امام) کی طرف سے اجازت دی گئی هو ورنه یه عهده غصب شمار هو تا هے، کیونکه جب تک افضل واکمل موجود هو دوسروں کی باری نهیں آتی هے-
" ولایت" اور " مولی" کے لفظ کو ماده " ولی" سے لیا گیا هے اور اهل لغت نے اس کے لئےمختلف معانی بتائے هیں: مالک، عبد، معتیق (آزاد کرنے والا)، معتق (آزاد هوا)، صاحب (همراه)، قریب( مانند چچازاد بھائی)، جار (همسایه)، حلیف (هم پیمان)، ابن (بیٹا)، عم (چچا)، رب ، ناصر، منعم، نزیل ( جو کسی جگه پر ساکن هواهو)، شریک، ابن الاخت ( بھانجا)، محب، تابع، صهر(داماد)، اَولی بالتصرف (جو کسی وجھ سے، کسی دوسرے شخص کے امور پر تصرف کرنے کیلئے خود اس شخص کی بھ نسبت زیاده موزوں ھو )-[1]
اصطلاح میں، "ولایت " سے مراد، تمام انسانوں کے امور میں مختلف پھلووں سے دخل وتصرف کے سلسله میں تسلط اور نظر رکھنا هے، بغیر اس کے که اس سے اختیار، انتخاب اور مالکیت کا حق سلب هوجائے-
" امامت "، امام، ایک اسلامی معاشره میں اس ولایت کو اجتماعی اور سیاسی امور، انسانوں کو اسلامی معاشره کی طرف هدایت کرنے اور دینی اور عدلیه سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے اور عملی جامه پهنانے کا ذمه دار هے- اگر انسان اس ولایت کو تسلیم کرلیں اور اس کی قیادت کو قبول کریں اور اس کے طریقه کار اور سیرت سے سبق حاصل کریں، تو وه دنیا وآخرت میں مادی و معنوی سعادت و آسائش پایئں گے اور اگر اس کی امامت وقیادت سے منه موڑلیں گے اور کسی اور کی طرف رجوع کریں گے تو انهیں نقصان کے علاوه کچھـ نهیں ملے گا.(حالانکه) خواه لوگ جانیں یا نه جانیں، اس کی طرف رجوع کریں یا نه کریں، اسے اپنا سیاسی، عدالتی ، دینی اور اخلاقی مرجع جان کر اس کی طرف رجوع کریں یا نه کریں، وه تمام انسانوں، خواه شیعه هوں یا غیر شیعه، مسلمان هوں یا غیر مسلم، سب پر شاهد اور احاطه رکھنے والا هے- وه تمام ظاهر وباطن سے آگاه اور ان کے امور میں هر قسم کے دخل و تصرف کی قدرت رکھتا هے- اس کے علاوه وه تکوینی امور میں بھی دخل و تصرف کرسکتا هے، مثلا ایک اینٹ کو سونے میں تبدیل کرسکتا هے یا پرده پر موجود تصویر کو زنده کرسکتا هے یا لاعلاج مریضوں کو شفا بخش سکتا هے اور سخت مشکلات کو حل کرسکتا هے اور اس سے توسل کرنے والوں کو تعطل سے رهائی بخش سکتا هے- لیکن وه اس زبردست طاقت سے، بیهوده بغیر مصلحت اور عام سیرت کے خلاف فائده نھیں اٹھاتا - لهذا شیعه محققین کے نقطه نظر سے اصطلاحی ولایت کو امامت کے مترادف نهیں لینا چاهئے، بلکه کهنا چاهئے که: " ولایت " " امامت " کا اهم ترین پیش خیمه هے، یعنی اس کی اهم شرائط مین سے یه ایک شرط هے، جب تک ولی حاضر وناظر هو، کوئی دوسرا شخص مسلمانون کا " پیشوا " بن کر دینی اور دنیوی امور کو هاتھـ میں نهیں لے سکتا هے اور ان سے اپنے مقاصد و رجحانات کے مطابق استفاده نهیں کرسکتا هے، کیونکه یه ایک عقلی اور بدیهی بنیاد هے که جب تک افضل واکمل موجود هو، دوسروں کی باری نهیں آتی هے، مگر یه که اس " ولی مطلق " نے کسی کو اس کی اجازت دی هو، جیسے، بارهویں امام (ع) کی غیبت میںولی فقیه- وه اس ولی کی نظارت میں، دئے گئے اختیارات کی حد میں، مسلمانوں کے امور کا انتظام کرنے کی ذمه داری سنبھال سکتا هے اور ان اختیارات سے آگے نهیں بڑھ سکتا هے- اس لئے " ولایت الهی " کا یه مقام، جسے پیغمبر اکرم (ص) اور ائمه معصومین (ع) سے نسبت دی جاتی هے، وهی "خلیفۃ الله " کا مقام هے جو انسان کی خلقت کے مقصد کا مقام هے اور یهی مقام، مسجود ملائکه واقع هوا هے، اور اگر یه ولی نه هو تو زمین اپنے باشندوں کو نگل لے گی[2]-
لیکن جس ولایت کی دوسروں سے نسبت دی جاتی هے، اس میں ان کو صرف ان امور میں حق تصرف هے، جن کے بارے میں شارع کی طرف سے انھیں اجازت دی گئی هے- مثال کے طور پر باپ کی اپنے فرزندوں پر ولایت، مسلمانوں کے اجتماعی اور دینی امور میں حاکم شرع کی ولایت سے قابل موازنه نهیں هے، کیونکه ان دونوں کے اختیارات کے حدود اور شرائط مختلف هیں-
دوسرے الفاظ میں خدا، رسول خدا (ص) اور امام (ع) کی دوسروں پر ولایت ایک حقیقی ولایت اور قابلیتوں اور ان کے ذاتی مقتضیات کی بنیاد پر هے، لیکن دوسروں کی ولایت " اعتباری اور قراردادی " اور شارع کی طرف سے تشریع کی شرط پر هے- چنانچه نبی اور امام کی ولایت کا معاشرے میں متحقق هونے اور اس کیو عملی جامه پهنا نےکے لئے ضروری هے که اس کے تصرفاتاور اوامر ونواهی کی لوگ اطاعت کریں ، تسلیم کریں اور اس کے فیصلوں اور احکام کو قبول کریں، ورنه ولایت الهیه کو معاشره میں عملی جامه نهیں پهنایا جاسکتا هے-
شیعوں کے عقیده کے مطابق " ولی الله " کو پهچاننا اوراس کے اوامر و نواهی، فیصلوں اور احکام کو تسلیم و قبول کرنا سب پر واجب هے اور جو شخص اس مییں سر کشی اور نافرمانی کرے، حقیقت میں اس نے توحید و نبوت سے انکار کیا هے اور دوسرے الفاظ میں: خدا کے وجود، توحید اور اس کی عدالت کو قبول کرنے کا لازمه نبوت کو قبول کرنا هے اور ان دونوں کو قبول کرنے کا لازمه ولی کی ولایت کو قبول کرنا هے- سوره مائده کی آیت نمبر ٣ ولی کی معرفت کے ابلاغ کو رسالت و توحید کے ابلاغ کے برابر قرار دیتی هے اور سوره نساء کی آیت نمبر ٥٩ جو اولوالامر کی اطاعت کو خدا و رسول (ص) کی اطاعت کے تسلسل میں قرار دیتی هے اور حدیث ثقلین، جو " عترت " کو قرآن مجید کے برابر قرار دیتی هے[3]، ان سے یه مطلب واضح طور پر معلوم هوتا هے اور حدیث نبوی:" جو شخص مرجائے اور اپنے وقت کے امام کو نه پهچان لے، وه جاهلیت کی موت مرگیا هے[4] " اس کی تاکید کرتی هے- لیکن دوسروں کی ولایت کو قبول کر نے کا نتیجه خاندان اور معا شره میں نظم و انتظام بر قائم هو نے اور دینی، ثقافتی اور اقتصادی بالیدگی کا سبب بن جاتا هے اور اگر یه امر شرع کی اطاعت اور رضائے الهی کے لئے هو تو اس کا اجر بھی ملے گا- بهت سی روایتوں سے معلوم هوتا هے که ولی الله الاعظم کی ولایت کو قبول کئے بغیر کوئی بھی عمل اور عبادت بارگاه الهی میں قبول نهیں هوتی هے- مثال کے طور پر حضرت امام رضا علیه السلام نے سلسله الذهب نامی مشهور حدیث میں اپنے اجداد سے روایت کرتے هوئے حدیث قدسی کی صورت میں فرمایا هے: " کلمه لا اله الا الله" ایک محکم قلعه هے اورجو بھی اس میں داخل هوجائے میرے (الله) کے عذاب سے محفوظ هوگا " یهاں پر چند لمحات توقف کے بعد امام (ع) نے تاکید فرمائی: " لیکن لااله الا الله" کے شرائط (ولایت) کو قبول کرنے کی صورت ، اور میں ان شرائط میں سے ایک هوں[5]"
ایک اور حدیث میں امام باقر علیه السلام فرماتے هیں: "اسلام پانچ پایوں پر استوار هے: نماز، زکات، روزه، حج، اور ولایت، اور ان ارکان میں سے کوئی بھی رکن ولایت کے بنیادی رکن کے برابر نهیں هے"، کیونکه " ولایت کا دین کے ارکان مین کلیدی رول هے امام دین کا راهنا هے[6] "
قابل ذکر بات هے که مقام خلافت الهی کو پانے کے لئے الله کی طرف سفر، ایک لامتناهی سفرهے اور اس کے مختلف اور بڑے بڑے درجات هیں، لیکن هر زمانه میں صرف ایک شخص اس مقام کے عروج پر پهنچتا هے اور اس کے زمانه میں اس کا کوئی هم پله نهیں هوتا اور وهی دوسرے تمام لوگوں پر، خواه اس کے درجه کے نزدیک بھی هوں، ولایت رکهتا هے- مثال کے طور پر رسول اکرم (ص) کے زمانه میں کوئی بھی آپ (ص) کے مقام تک نهیں پهنچتا حتی علی (ع) اور فاطمه (س) بهی اور ان دو بزرگ شخصیتوں سمیت دوسرے تمام لوگ بھی رسول خدا (ص) کی ولایت کے تحت تھے- چنانچه رسول خدا (ص) کی رحلت کے بعد امام علی (ع) کے زمانه میں، حسنین (ع) اپنے باپ کی ولایت کے تحت قرار پائے اور اسی طرح دوسرے ائمه اطهار (ع) اپنے والد یا جد کی زندگی میں اورامام حسن (ع) کے زمانه میں، امام حسین (ع) بھی اپنے بھائی کی ولایت، قیادت اور امامت کے تحت اور ان کے مطیع تھے، یهاں تک که امام حسین (ع) نے اپنے بھائی امام حسن (ع) کی زندگی مین، معاویه کے ساتھـ ان کے عهدنامه کا احترام کیا اور معاویه کے ساتھـ براه راست ٹکر لینے سے اجتناب کیا- مو جوده زمانه میں بھی صرف ایک شخص انسانیت کی بلندی پر چمکتا هے اور صرف وهی تمام انسانوں پر الهی ولایت کا حق رکھتا هے، خواه دوسرے ان کی طرف متوجه هوں یا نه هوں اور اس کی نظارت کا اعتقاد رکھتے هوں یا نه رکھتے ھوں- اثنا عشری شیعوں کے اعتقاد کے مطابق، خلافت الهی کا یه تنها علمدار، حضرت حجه بن الحسن العسکری (ع) کے علاوه کوئی اورنهیں هے-
دوسری طرف سے چونکه یه راسته لامتناهی هے اور تمام انسانوں کی خلقت کے مقصد کا یهی راسته هے، اس لئے قرآن فرماتاهے: " انا لله و انا الیه راجعون " " هم اسی کی طرف سے آئے هیں اوراسی کی طرف پلٹ رهے هیں[7] " دوسرے انسان بھی اگر اس راه کےدرجات تک پهنچنا چاهیں تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی اورچاره نهیں هے که ولایت ولی الله الاعظم کو قبول کرین اور اس کی پیروی کریں اور اس کے نقش قدم پر چلیں تاکه فوری طور پر ان درجات کو طے کر سکیں اور انسانیت کے کمال کے مراحل کو طے کر کے منزل مقصود تک پهنچ جائیںـ [8]
دوسری راهوں سے مسمانوں کے حاکم بننے والوں نے کوشش کی هے تاکه خدا اور رسول (ص) کی طرف سے علی (ع) کو لوگوں کے امام و ولی کے طور پر منصوب کئے جانے کی دلالت کر نے والی آیات و روایات کی اس طرح تفسیر و تاویل کریں که رسول خدا (ص) کے مقصد و مراد کے خلاف نتیجه نکلےـ
اس لئے آیه ولایت : " انما ولیکم الله" [9] اور آیه اطاعت مطلقه: " اطیعوا الله و اطیعوا لرسول واولی الامر منکم " [10] اور مشهور حدیث: " من کنت مولاه فهذا علی مولاه" میں ولایت کو " دوست" یا " ناصر" کے معنی مین تصور کیاگیا هےـ جبکه ، عام دوستی اور نصرت کے معنی ،آیات کے سیاق ( ادات حصر "انما" اور خداو رسول (ص) اور ولی کے اطاعت کا هم پله هو نا) اور آیات کی شان نزول اور ان کی تفسیر کر نے والی احادیث اور غدیر خم کے بیان میں حجاج کو روک کر لوگوں سے توحید اور رسالت کا اقرار لینے اور مسلمانوں کی امام علی (ع) کے هاتھـ پر بیعت کر نے سے مطابق اور ساز گار نهیں هے ـ چنانچه امام علی (ع) اور دوسرے ائمه( ع) اور بهت سے صحابی شعراء نے حضرت علی ( ع) کی ولایت کے بارے میں آیات اور شان نزول اور غدیر کی روایت سے تمسک کر کے اس دعوی ( ولایت کے معانی و مراد میں تحریف ) کے خلاف استدلال پیش کیا هے ـ
اس لئے، اگرچه تحریف کئے گئے معنی، ولی کے لغوی معنی کے مطابق ھیں هے ، لیکن آیات و روایات کے سیاق کے پیش نظر، انصاف اور حقیقت پسندانه عقل اسے قبول نهیں کرتی بلکه حضرت علی (ع) کو رسول خدا (ص) کے بلا فصل جانشین اور خلیفه کے طور پر معروف و منصوب کر نے کے سلسله میں ان آیات و روایات کوو محکم اور ناقابل انکار نصوص جانتی هےـ
قابل ذکر بات هے که دوسرے ائمه (ع) کی امامت و ولایت بھی احادیث نبوی کے ذریعه اور هر امام کے ذریعھ سے اپنے بعد والے امام کی معرفت اور ولایت کی نشانیوں کے حامل هو نے( تکو ینی تصرف، جیسے افراد کی نیتوں اور باطن کے بارے میں اطلاع کی ولایت، معجزات، کافی حد میں علم غیب اور عصمت) سے تشخیص، وشنا سا ئی ، اثبات اور استد لال کے قابل هے-
منابع و ماخذ:
١ـ مصنفین کی ایک جماعت معارف اسلامی ، ج١ و٢، بحث امامت
٢ـ جوادی آملی ، عبدالله ،عید ولایت، ص٦١ـ ٧٠-
٣ـ جوادی آملی ،عبدالله، ولایت در قرآن-
٤ـ جوادی آملی، عبدالله ، ولایت علوی، ص ٢٨ـ٥٥، ١١٧-
٥ـ حلبی، تقی الدین ابوالصلاح ، ص١٢٧ـ١٣٣-
٦ـ سعیدی مهر، محمد، کلام اسلامی،ج٢، ص١٣٠ـ٢٠٠-
٧ـ مطهری ،مرتضی، امامت و رهبری، ص٤٣-٩٥، ١٦١- ١٦٩-
٨ـ مطهری، مرتضی، انسان کامل-
٩ـ هادوی تهرانی، مهدی، ولایت و دیانت ، ص٦٤ـ ٦٦.