آیات وروایات میں سود کو قبیح کهاگیا هے اور اسے حرام قرار دیا گیا هے اور اس کے حرام هو نے کے بعض فلسفوں کے بارے میں بهی اشاره کیا گیا هے- معاشره میں قرضه کے رجحان کے ختم هونے، سود کے ظالمانه هونے اور لوگوں کی اجتماعی تجارت کے بارے میں رجحانات ختم هونے کو سود کے حرام قرار دئے جانے کا فلسفه بیان کیاگیا هے-
لیکن قابل توجه بات هے که جوکچھـ سود کے حرام قرار دئے جانے کے فلسفه کے طور پر بیان کیا گیا هے وه سب قرضه پر سود سے مربوط هے – لیکن معاملات کے سود کے حرام هونے کے بارے میں آیات و روایات میں بعض وجوهات کے سبب سے که فی الحال همیں معلوم نهیں هے، کوئی وجه بیان نهیں کی گئی هے اور اس پر تعبد اور پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کی اطاعت محض کے طور پر عمل کر نا چاهئے – البته یه نکته اس معنی میں نهیں هے که اس حکم کے پیچهےکوئی حکمت نهیں هے اور یه حکم کسی مصلحت کے پیش نظر نهیں هے-
بعض علماء نے معاملات کے سود کے بارے میں کچھـ فلسفه کا احتمال دیا هے اور کها هے که : چونکه ممکن تها معاملات کے سود سے غلط فائده اٹهایا جاتا اور قرضه کے سود سے فرار کر نے کے طور پر اس سے استفاده کیا جاتا، اس لئے اسے حرام قرار دیا گیا هے- دوسرے الفاظ میں معاملات کا سود، قرضه کے سود کی سرحد هے-
سود کی بحث ، فقه کی ایک تفصیلی بحث هے که اس کے حرام هونے کے بارے میں آیات و روایات میں تا کید کی گئی هے –
سود (ربا) کی اصطلاح دو الگ مواقع پر استعمال هوتی هے :
١- قرضه پر سود-
٢- معاملات میں سود-
سود والاقرضه، اس قرضه کو کها جاتا هے، جس کے لئے کوئی شرط معین کی جائے –اس بارے میں فقها کے در میان اختلاف هے که کونسی چیزیں قرضه کی شرط شمار هوتی هیں اور حرام هو نے کا سبب بن جاتی هیں -
آپ کے سوال سے مربوط معاملات کا سود ، اس معامله کو کهتے هیں که اولاً : ایک قسم کی دو جنسوں کا آپس مین معامله کیا جائے، ثانیاً : معامله کو عام طور پر تول کر یا ناپ کر خرید و فروش کیا جائے ( اور موزون هو)- ثالثاً : دوجنس ایک هی اندازه میں نه هوں[1]-
معاملات کے سود کا حرام هو نا ، حتی اگر معامله طے پانے والے دو جنس بعض جهات سے ( ان کے اصل جنس کے علاوه) آپس میں متفاوت بهی هوں ، تو بهی ثابت هے- مثلاً ایک کلو پسندیده چاول ڈیڑھـ کلو ناپسند چاول سے تبادله هو جائے تو یه سود اور حرام هے – اس کے علاوه دوسری خصوصیات ، جیسے دوجنسوں میں سے ایک کا پرانا هو نا وغیره، ان تمام موارد میں سود کا حکم لاگو هوتا هے – سونے اور چاندی کے بارے میں بهی یهی شرائط لاگو هو تے هیں ، یعنی جب سونے کے دو ٹکڑوں کو هر توصیف کے ساتھـ ( پرانے یا نئے، ساخته یا اینٹ کی صورت میں ، ٹوٹا هوا یا سالم ) آپس میں معامله کیا جائے ، تو دونوں کا وزن برابر هو نا چاهئے ، اگر چه ان دونوں کی قیمت میں فرق هو – سونے اور چاندی کی خصوصیت یه هے که ان کا معامله نقدی انجام پانا چاهئے ، ان کو ادهار پر بدلنا جائز نهیں هے[2]-
چونکه پرانے سونے کو نئے سونے سے بدلنا ایک عقلائی ضرورت هے ، اس سلسله میں ایک ساده اور شرعی طریقه هے، جس پر عمل کر نے سے عقلائی وشرعی مقصد بهی هاتھـ آتا هے اور حکم الهی کی خلاف ورزی کے مرتکب بهی نهیں هوتے هیں ، جس میں قطعاً کوئی مصلحت هے-
قابل توجه بات هے که جن لوگوں نے ادله شرعی اورروایات کے استناد پر اس طریقه کار کو اپنایا هے ،ان کا یه کام حکم الهی سے فرار اور خداوند متعال کے مقابل میں حیله اور بهانه کے معنی میں نهیں هے، بلکه معامله کو حرام حالات سے حلال حالت میں تبدیل کر نا هے – مثلاً ایک روایت میں آیا هے : " حرام سے حلال کی طرف فرار کر نا ایک اچهی چیز هے[3]- " یعنی ایک ایسا طریقه اختیار کر نا که جو شرعاً ممنوع نه هو-
جو طریقه کار اکثر مسلمانوں کے بازاروں میں انجام پاتا هے ، وه یه هے که معامله کو دوهم جنس چیزوں کی تبدیلی کی حالت سے خارج کیا جاتا هے اور ایک الگ معامله میں تبدیل کیا جاتاهے- اس طرح که پهلے پرانے سونے کو ایک قیمت پر بیچتے هیں اور اس کے بعد نیا سونا خریدتے هیں – مثلاً ١٠ گرام پرانے سونے کو ٢٠٠روپئے میں بیچتے هیں اور اس کے بعد اسی قیمت میں ٨گرام نیا سونا خریدتے هیں [4]-
لیکن سود کے حرام هونے کی علت کیا هے؟
اس سوال پر بحث کر نے سے پهلے ایک نکته کو بیان کر نا ضروری هے :
احکام کو وضع کر نے کی علت کو جاننا ایک لحاظ سے انسان کو اس پر عمل کر نے کی رغبت کو بڑهاتا هے، لیکن دوسرے لحاظ سے ممکن هے عام لوگوں کے در میان خدا کے مقابل میں مخلصانه بندگی اور اطاعت کا جذبه ختم هو جائے ، یعنی اگر کوئی شخص اپنے مولاکے حکم کی علت اور اس کے فائده کو جان لے ، تو ممکن هے اس کام کو اپنے مولاکی عظمت اور اس پر ایمان و اعتقاد کے لحاظ سے انجام نه دے ، بلکه صرف اپنے فائده کے لئے اسے انجام دے اور خدا وند متعال کی مخلصانه بندگی کی قدر وقیمت سے محروم هو جائے[5]- شائد اسی وجه سے دینی کتا بوں میں احکام کے بارے میں تفصیل سے ان کی علت بیان نهیں کی گئی هے اور صرف بعض مواقع پر لوگوں کو احکام کی طرف ترغیب دینے کے لئے ان کے فلسفه کے بارے میں اشاره کیاگیا هے، جبکه هم جانتے هیں که تمام احکام خاص دلائل ، مصلحتوں اور مفاسد کے پیش نظر وضع هوئے هیں – لیکن همیشه همارے ذهنوں میں احکام کے جزئیات کے بارے میں بهت سے سوالات پیدا هوتے هیں – مثلاً هم نماز کے بهت سے فوائد کے بارے میں آگاهی رکهتے هیں ، لیکن همیں کیوں صبح کی نماز صرف دورکعت پڑهنی چاهئے اور اگر هم اپنے اندر معنوی حالت پیدا کر نے کی غرض سے اس میں ایک رکعت کا اضافه کریں تو کیوں پوری نماز باطل هوتی هے ، کو هم نهیں جانتے هیں – انسان کی عقل احکام کے کلی فلسفه کو کسی حد تک درک کرتی هے ، لیکن ان کے بهت سے جزئیات کے بارے میں آگاه نهیں هے اور یه بندوں کے خداوند متعال اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم پر ایمان و اعتقاد کا نتیجه هے که اس کام کو انجام دیتے هیں جس کی علت کو نهیں جانتے هیں یا ترک کرتے هیں اور مٶمنین کی یه دلچسپی اور لگاٶ کافی زیبا، لذت بخش اور تعمیری هے-
اس کے باوجود بعض آیات و روایات میں قرضه کے سود کے بارے میں حرام هو نے کے فلسفه کے چند نمو نے بیان کئے گئے هیں ، جو حسب ذیل هیں :
١- سود، کسی عقلی ومنطقی دلیل کے بغیر مال حاصل کر نا هے ، یا دوسرے الفاظ میں کسی شرعی دلیل کے بغیر مال حاصل کر نا هے[6]-
٢- حضرت امام جعفر صادق علیه السلام سے ایک روایت میں نقل کیاگیا هے که آپ (ع) نے فر مایا : " اگر سودحلال هو تا، تو لوگ اپنی ضرورت کی تجارت اور صنعت کو ترک کرتے- خداوند متعال نے سود کو حرام قرار دیا تاکه لوگ حرام سے حلال کی طرف، یعنی تجارت اور خرید و فروش کی طرف رجحان پیدا کریں ، اور جو باقی رهتا هے وه قرضه کی صورت میں انجام پائے [7]-" یعنی سود حرام هوا تاکه معاشره سے اقتصادی رونق ختم نه هو جائے-
٣- قرآن مجید [8]میں ، سود کے حرام هونے کا حکم بیان هونے کے بعد ارشاد هوتا هے : "لاتظلمون ولاتظلمون" "نه ظلم کرنا اور نه تم پر ظلم کیاجائے-" اس آیه شریفه کے ظاهر سے معلوم هوتا هے که سود ظلم هے جوسود کے حرام هو نے کے سلسله میں یه بذات خود ایک فلسفه هے-
٤- روایات سے سود کے حرام هو نے کی جوایک دوسری دلیل معلوم هوتی هے وه کار خیر انجام دینے کے لئے انسان کے جذبات کو نابود کرناهے – ایک روایت میں آیا هے : " بیشک خداوند متعال نے سود کو حرام قرار دیا هے تاکه لوگ کار خیر (قرض) انجام دینے سے اجتناب نه کریں[9]-"
واضح هے که آیات وروایات میں سود کے حرام هو نے کے بارے میں جو تمام دلیلیں بیان کی گئی هیں وه قرضه پر سود سے مربوط هیں اور معاملات کا سود حرام هو نے کی دلیل، یا بیان نهیں کی گئی هے یا هم تک نهیں پهنچی هے اور یه دوسرے بهت سے احکام کے مانند هے که تعبدی اور ائمه اطهار علیهم السلام کی اطاعت کے طور پر قبول کر نا چاهئے – بهر حال شهید مطهری(رح) [10]اور آیت الله مکارم شیرازی [11]جیسے علماء نے یه خیال ظاهر کیا هے که معاملات کے سود کا حرام هو نا قرضه کے سود کے حفظ ما تقدم کے طور پر هے- دوسرے الفاظ میں معاملات کا سود، قرضه کے سود کے لئے سرحد کا رول اداکرتا هے اور یه قرضه پر سود کی اهمیت کے پیش نظر هے، کیونکه معاملات کے سود سے قرضه کے سود کےحرام هونے سے فرار کر نے کے لئے استفاده کیا جاسکتا هے، اس ناجائز فائده کو روکنے کے لئے معاملات کا سود بهی حرام قرار دیاگیا هے-
[1] - ملا حظه هو : رساله های توضیح المسائل بخش احکام خرید وفروش-
[2] - ملاحظه هو : رساله های توضیح المسائل بخش احکام خرید وفروش طلاونقره (بیع صرف)-
[3] - کافی ،ج٥،ص٢٤٦-
[4] - اس کام کے شرائط میں بهی فقها کے درمیان اختلافات پائے جاتے هیں که مزید معلومات کے لئے تفصیلی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے-
[5] - قابل توجه بات هے که اس سلسله میں خدا کے مخلص بندوں کا حساب جدا هے-
[6] - وسا یل الشیعه ،ج١٢،ابواب الربا،باب١،ح١١-
[7] - وسایل الشیعه ،ج١٢،ابواب الربا،باب١،ح٨-
[8] - سوره بقره،٢٧٩-
[9] - وسایل الشیعه ،ج١٢، ابواب الربا، بب١،ح٤-
[10] - مطهری،مرتضی ، مساله ربا و بانک ،ص٤٦-
[11] - مکارم شیرازی ،ناصر ،الربا والبنک الاسلامی ،ص٦٠-