قران کے مطابق شیطان صرف خدا کے مخلص بندوں پر مسلط نہیں ہوتا ۔ مخلص وہ لوگ ہیں جو اس درجہ پر پہنچے ہوئےہیں کہ شیطان انھیں گمراہ نہیں کر سکتا ـ شیطان سے مقابلہ کی بعض راہیں اور ضروری وسایل ہیں کہ انکے ذریعے اس پر قابو پایا جاتا ہے نمونہ کے طور ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
1- ایمان:قران کریم کو شیطان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ جانتا ہے ۔
۲ـ توکل: شیطان اور اس کے لشکر پر قابو پانے کا دوسرا وسیلہ اللہ کی ذات پر توکل ہے
۳ـ استفادہ : یعنی خدا سے پناہ کی درخواست
۴۔ خدا کی یاد انسان کو بصیرت دیتی ہے اسے وسوسہ سے بچاتی ہے اور شیطان کی مداخلت کی راہ کو بند کرتی ہے ۔
- ۔ تقوا : تقوا کا ملکہ پیدا کرنے اور اسے مضبوط کرنے سے دل کی آنکھیں کھلتی ہیں اور انسان ، شیطان کے فریب سے محفوظ رہتا ہے
قران کی روسے صرف خدا کے مخلص بندوں پر شیطان قابو نہیں پاتا قرآن میں ہے کہ شیطان نے قسم کھائی ہے کہ میں تمام بندوں کو گمراہ کروں گا صرف تیرے مخلص بندے میرے قابو میں نہ آئیں گے :( قال فبعزتک لاُغوینَّھم اجمعین الاّ عبادَک منھمُ المخلَصین)[1] شیطان نے کہا ، عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کردوں گا مگر ان میں سے ترے خاص بندوں کو گمراہ نہ کر سکوں گا
یا خداوند عالم فرماتا ہے :( انّ عبادی لیس لک علیھم سلطان الاّ منِ اتّبعکَ مِن الغاوین ) [2] بلا شبہہ تو میرے خاص بندوں پر مسلط نہ ہو پائےگا مگر وہ لوگ جوتیری پیروی کریں گے گمراہ ہوں گے۔
ان آیات کے مطابق مخلصین [3] شیطان کے دایرہ سے باہر ہیں اور وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف شیطان نے بھی کیا ہے اور خداوندعالم نے صراحت کی ہے اور فرمایا ہے : ( ان عبادی لیس لک علیھم سلطان) تو ہرگز میرے خاص بندوں پر قابو نہ پائےگا
شیطان سے مقابلہ کی راہیں
مخلصین وہ لوگ جو اس درجہ کو پہنچے ہوئے ہیں کہ شیطان ان پر قابو نہیں پا سکتا ۔ شیطان پر قابو پانے کے لے کچھ وسایل لازم وضروری ہیں جن کے ذریعہ اس سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور اس پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ یہاں ہم نمونہ کے طور پر ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
۱۔ قران کریم ؛ شیطان پر قابو پانے اور اس کے مسلط ہونے کا پہلا بنیادی وسیلہ ایمان کو جانتا ہے ( انّہ لیسَ لہُ سلطان علَی الذین امنوا و۔۔۔)[4] شیطان ایمان والوں پر مسلط نہیں ہوتا ۔
۲۔ شیطان اور اس لشکر پر کامیاب ہونے کا ایک دوسرا ذریعہ توکل خدا پر بھروسہ ہے (انہ لیس لہُ سلطان علی الذین ۔۔۔ و علی ربِّھِم یتوَکَّلون)[5] شیطان ان لوگوں پر جو ۔۔۔ اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں؛ مسلط نہیں ہوسکتا۔
لہذا خدا اور اس کی نشانیوں پر ایمان لانا انسانوں پر شیطانوں کی حاکمیت میں رکاوٹ بنتا ہے اور وہ لوگ جو ایمان کے قلعہ میں رہتے ہیں اور خدا پر توکل کرتے ہیں ان پر شیطان کسی بھی طرح مسلط نہیں ہوگا شیطان ان ہی پر مسلط ہوتا ہے جو شیطان کی حاکمیت قبول کرتے ہیں اور شرک اختیار کرتے ہیں (انَّما سُلطانُہُ علی الَّذینَ یتوَلَّونَہُ والَّذینَ ھم بہِ مُشرِکون ) [6] شیطان ان ہی لوگوں پر غالب آتاہے جو اسے دوست رکھتے ہیں اور مشرک ہو جاتے ہیں۔
۳۔ استفادہ یعنی خدا کی بارگاہ میں شیطان سے پناہ مانگنا یہ پناہ گاہ کبھی تکوینی ہے کبھی تشریعی ۔ طبیعی برائیوں کو دور کرنے کے لئے خدا کی تکوینی پناہ گاہ سے استفادہ کرنا چاہئے ان سے مراد وہ قوانین اور الہی سنتوں میں جو نظام خلقت میں طبیعی اسباب و علل کی صورت میں قائم ہوئے ہیں ؛ اور نفسانی برائیوں سے محفوظ رہنے کے لئے جیسا کہ سورہ ناس میں بھی آیا ہے خدا کی تشریعی پناہ گاہ میں جانا چاہئے یہ پناہ گاہیں الہی تعلیمات میں جو اعتقادی بنیادوں کے طور پر شریعت مقدسہ میں تربیتی منصوبوں کی شکل میں مقرر ہوئی ہیں (واما یَنزغنَّکَ من الشّیطانِ نَزغٌ فَستَعذ باللہ انَّہ سمیعٌ علیہمٌ )[7] اگر شیطان کی جانب سے تمہیں کوئی وسوسہ ہو تو خداکی پناہ میں آؤ کیونکہ وہی سننے اور جاننے والا ہے۔ اصولاً توحید کا تقاضا یہ ہے کہ انسان فایدہ اور خیر حاصل کرنے کے لے خدا سے مدد طلب کرے اور اپنے کاموں کو(بسم اللہ) سے شروع کرے ، اور برائیاں و نقصان سے بچنے کے لئے بھی خدا سے مدد چاہے اور اپنے کاموں کو (اعوذ باللہ) سے شروع کرے اس لیے کہ توحیدی نقطۂ نظر سے خدا کے علاوہ کوئی چیز عالم میں اثر ڈالنے والی نہیں ہے۔
۴۔ ذکر خدا و یاد خدا انسان کو بصیرت عطا کرتی ہے اسے وسوسہ سے دور رکھتی ہے اور شیطان کے نفوذ کی راہوں کو بند کرتی ہے (۔ ۔ ۔ تذکَّروا فاذا ہُم مُبصِرون)[8] امام صادق علیہ السلام بھی فرماتے ہیں : شیطان ، انسان پر وسوسہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا مگر اس وقت جب وہ خدا کی یاد سے غافل ہو جائے[9] حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ذکر خدا کو شیطان کو دور کرنے کا ذریعہ جانتے ہیں (ذکر اللہ مطردتہ الشیطان )[10]۔
۵۔ تقوا میں ملکہ حاصل کرنا اور اسے مضبوط کرنا ، دل کی آنکھوں کو کھول دیتا ہے اور وہ شیطانی وسوسوں کو دیکھ لیتی ہیں اور انسان کو شیطان کے جال سے محفوظ رکھتی ہیں (انَّ الَّذین اتَّقوا اذا مسَّھُم طائفٌ مِنَ الشَّیطانِ تذکَّروا فاذا ھُم مُبصرون)[11]
۱۱۔ پرہیزگار افراد جب شیطانی وسوسہ کا شکار ہوتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور (اس کے سبب) اچانک بینا اور اہل بصیرت ہو جاتے ہیں۔
طائف کے معنی میں طواف کرنے والا ، گویا شیطانی وسوسے طواف کرنے والے کی طرح انسان کی روح اور اس کی فکر کے گرد برابر چکر لگاتے ہیں تا کہ موقع ملتے ہی داخل ہو سکیں ۔ شیطان اس روح پر اثر نہیں کر سکتا جو ایمان اور تقوا کے ذریعہ محکم ہو چکی ہو ؛ لیکن برابر موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور بعض نفسانی خواہشات مثلا شہوت ، غصہ ، حسد اور انتقام وغیرہ کو بھڑکاتا ہے تا کہ موقع پاتے ہی انسان میں نفوذ کرے اور گمراہ کرے۔
شیطان سے مقابلہ کی بعض دوسری راہیں یہ ہیں : اہل بیت علیہم السلام کا ذکر ، اہل بیت علیہم السلام کے دوستوں کے ساتھ احسان ، خود کو ان افراد کے ساتھ رکھنا جن پرشیطان کا غلبہ نہیں ہوتا اور۔۔۔ ۔
نتیجہ :خدا پر اعتقاد انسان کو برائیوں اور گناہوں سے دور رکھنے کا مؤثر ذریعہ ہے نیز خدا کی عزت و حکمت پر توجہ اور خدا کے امور کی طرف رجوع کرنے سے انسان کی روح شیطان سے مقابلہ میں قوی ہوتی ہے ۔ ایمان کی تقویت ، توکل، تقوا، یاد خدا اور شیطان کو اذیت پہنچانے والے امور نیز شیطان کی طرف سے شر و فساد کی ۔۔۔ کے موقع پر استعاذہ اور خدا سے پناہ مانگنا شیطان سے دوری کے مؤثر اقدام تو ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا چیزیں اہل بیت علیہم السلام سے توسل اور انکی عنایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
مربوط عناوین:
انسان میں شیطان کے نفوذ کی راہیں ، 2394 (سائٹ: 2560(
شیطان کے اہداف اور منصوبہ ، 4747 (سائٹ: 5048(
[1] ـ اسراء / ۶۵ ۔
[2] حجر / ۴۲
[3] مخلص وہ شخص ہے جس نے اپنی روح کو طبیعت کی کثافتوں اور مالی امور سے پاک کر لیا ہو ۔ قلب کو غیر خدا سے پاکیزہ بنا لیا ہو اور اسے اللہ کی محبت بڑھ لیا ہو ۔
[4] نحل / ۹۹
[5] ایضاً
[6] ایضاً، ۱۰۰
[7] اعراف /۲۰۰، فصلت/ ۳۶ ۔
[8] اعراف / ۲۰۱
[9] محدث بوری ، مستدرک الوسائل ، ج ۱ ، ص ۱۷۸ ، موسسہ آل البیت ، قم ، ۱۴۰۸ ق ؛ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار، ج ۷۲ ، ص ۱۲۴ ، موسسہ الوفاء ، بیروت ، ۱۴۰۴ ق ۔
[10] آمدی تمیمی ، عبدالواحد ، غرر الحکم و درر الکلم ، ص ۱۸۸، مکتب الاعلام الاسلامی ، قم ، ۱۳۶۶ش ۔
[11] اعراف / ۲۰۱