قرآن مجید کے نظریه کے مطابق جهاد چاهے ابتدائی هو یا دفاعی انسانی حقوق کے خاطر هے اور توحید ،انسانیت کا اهم ترین حق هے توحید انسانی فطرت کی سب سے بهترین متاع هے که جس کی حفاظت کے لیئے اسلام نے جهاد کو تجویز کیا هے اور امر به معروف و نهی عن المنکر بھی اسی فهرست میں هے،لهذا اسلام نے مسلمانوں پر انسانیت کو گمراهی و ضلالت سے نجات دلانا واجب قرار دیا هے تا که ایک مسلمان فقط اپنے هی بارے میں نه سونچے ۔
ایسے میں مادی اسباب سے مدد لینا ضروری هے،اگر قرآن مجید میں خداوند عالم نے پیغمبر کے لوگوں کو ایمان کا ذمه دار قرار نهیں دیا هے تو اس لیئے که ایمان و اعتقاد ایک قلبی امر هے جهاں جبر کی گنجائش نهیں هے اور پیغبر کا فریضه یه هے که لوگوں کی هدایت کی کوشش کریں ۔ لیکن اس کے بعد سے یه سوال نهیں کیا جائے گا که لوگ هدایت یافته کیوں نهیں هوئے۔
اس طرح کے سوالات کا جواب امر به معروف ،نهی عن المنکر اور ابتدائی جهاد کی صحیح شناخت و تصور کی روشنی مین ممکن هے ۔
اسلام میں جهاد، مومنین کے لیئے حیات بخش قرار دیا گیا هے [1] یعنی جهاد چاهے ابتدائی هو یا دفاعی ، انسانی زندگی میں حق کے دفاع کی خاطر هوتا هے اس لیئے که شرک انسانیت کی هلاکت اور موت کا سبب هے اور توحید و دین کا قانون ،انسانیت کے اهم حقوق میں سے هے جو اپنی جگه مسلم اور ثابت هو چکا هے۔
اسلام نے جهاد کو اپنایا تا که زمین شرک کی آلودگیوں سے پاک هو سکے ۔ حقیقت میں یه حکم ایک دفاعی حکم هے یعنی انسانی حقوق کا دفاع محسوب هوتا هے اور اگر حیات انسان اسی بات پر منحصر هو که یه جائز حق، دلیلوں کے بیان کرنے کے بعد ﮐﭽﮭ لوگوں پر لاگو کیا جائے تو کیا یه عقل اور عقلاء کے اعتبار سے قبیح هے؟[2]۔
رهی بات امر به معروف و نهی عن المنکر کی تو یه هر مسلمان پر واجب هے که وه لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دے اور انسانیت کو گمراهی و ضلالت سے نجات دینے اور گناهوں سے دور کرنے کی کوشش کرتا هے [3] ۔
اس لیئے که "اگر بینی که نابینا و چاه است ، اگر خاموش بنشینی گناه است"یعنی اگرآپ دیکھے که کوئی اندھا کنویں کی طرف جا رها هے تو ایسی صورت میں خاموشی سے بیٹھے رهنا گناه هے۔
انسان کواس کام کے لیئے مادی اسباب سے مدد لینا چاهئے اور مسببات کو خدا کے حوالے کرنا چاهئے که (اِلیه الأمرُ کلّه )هر امر کی انتها اس کی طرف هے، یعنی انسان کا یه فریضه نهیں هے که دوسرے کی نجات کی خاطر اپنے کو هلاک کردے ، اگر اس نے لوگوں کی هدایت کے سلسله میں کوتاهی نهیں کی هے تو اسے ان کی گمراهی کی سزا بھی نهیں ملے گی ۔( لا یضُرّکم من ضلّ اذ اِھتَدیتُم اِنّ اللهَ مرجعُکم)[4] اے ایمان لانے والو! اپنی حفاظت کرو جبکه تم هدایت پا چکے هو اور گمراهوں کی گمراهی تمهیں نقصان نهیں پهنچا سکتی بیشک تو لوگوں کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا هے۔
قرآن مجید دوسرے مقام پر پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم سے مخاطب هو کر فرمایا هے (فلعلّک باخعٌ نفسک اَ لّا یکونوا مٶمنین)[5] شاید تم (اس فکر میں ) اپنی جان هلاک کر ڈالوگے یه (کفار) مومن کیوں نهیں هو جاتے ۔ دوسرے یه که دین کا عقیده ایک قلبی امر هے جهاں جبر و اکراه کی گنجائش هی نهیں هے هر چند ظاهری اعمال ،افعال اور بدن کی حرکت میں جبر و اکراه بے تأثیر بھی نهیں هے لیکن پھر بھی قلبی عقیده کے لیئے علل و اسباب کی جستجو اور ان میں غور و فکر کرنا ضروری هے [6]۔اسی لیئے پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم سے خطاب هوتا هے که ((فذکّر انّما انتَ مُذکَّر ،لستَ علیهم بمصیطر))[7]
تو تم نصیحت کرتے رهو، تم تو بس نصیحت کرنے والے هو تم ﮐﭽﮭ اس پر داروغه تو هونهیں که جو انھیں ایمان لانے پر مجبور کرو[8]۔ لهذامذکوره آیات سے یه نتیجه نکلتا هے که اسلام میں جهاد کا مقصد زبر دستی دین کا پھیلانا نهیں هے بلکه حق کو جلا دینا اور توحیدکا دفاع کرنا هے ۔ اور توحید فطرت انسانی کی سب سے اچھی متاع هے مگر لوگوں کے در میان توحید کے پھیل جانے اور دین نبوت یا یهودیت یا مسیحیت کے سانمے سر تسلیم خم کرنے کے بعد مسلمانوں اور موحد افراد کے در میان کسی قسم کا جھگڑا باقی نهیں رهتا۔
اور جو خدا اپنے پیغمبر سے فرمارها هے که تم ،لوگوں کے اس کے معنی یه نهیں که امر به معروف ،
نهی عن المنکر اور جهاد و غیره کے ذریعه ان کی هدایت کرنا واجب نهیں هے ،بلکه مقصد یه هے که تم پیغام پهنچانے پر مامور هو نه که نتیجه کے ، یعنی ان کا هدایت پانا ایک قلبی امر هے اور تمهارے قبضه قدرت میں نهیں هے ،لهذا بهتر یه هوگا که ان کے کام کو همارے سپرد کردو۔
[1]سوره انفال ،آیت 24 ۔
[2] دیکھئے المیزان، ج 2 ،صص66 ۔71 ۔
[3] سوره اعراف آیت 54 ، آل عمران آیت 104 ۔110 ،114 ،توبه آیت 67 ۔ 71 ، انبیاء آیت 73 ،یوسف آیت 108 ۔
[4] مائده آیت 105 ، بقره آیت 134 ۔((تلکَ امّۃٌ قد خَلَت لھا ما کَسبت و لکم ما کَسَبتم وَلا تسئلونَ عمّا کانوا یعمَلون))
[5] شعراء آیت 3 ۔ کهف آیت 6 ۔
[6] دیکهئے المیزان ،ج 2 ،صص 342 ،343 ۔
[7] غاشیه آیت 22 ۔
[8] دیکھئے المیزان ،ج 6 ، صص 162 ۔165 ۔