پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی بعثت اور اسلام کے پھیلاٶ کے نتیجه میں، اس زمانه سے آج تک دنیا میں ایک عظیم تبدیلی پیداهوئی هے ، اور اس کے علاوه خاندان اور معاشره میں عورت کی منزلت اور اس کا رول ایک جدید مرحله میں داخل هواهے- اس طرح که عورت کی یه نئی منزلت اس کی اسلام سے پهلے کی حالت سے کسی صورت میں قابل موازنه نهیں هے – اسلام سے پهلے مختلف معاشروں میں عورتوں کو مردوں کی جنسی خواهشات پوری کر نے، گھر کا کام کاج کر نے ،بچے پیدا کر نے ، دودهـ پلانے اور گهر میں بے اراده وبے اختیار حالت میں کام کر نے والے ایک وسیله کے عنوان سے دیکها جاتا تاها اور اس کے لئے لوگ کسی قسم کے انسانی حقوق کے قائل نهیں تھے اور... وه ترکه کے عنوان سے ایک دوسرے کے هاتھـ میں منتقل هو کر وارث کے گهر کی نوکرانی کی حیثیت رکهتی تھی – بعض مواقع پر ، اسے، آنکھـ کهولنے سے پهلے هی سپرد خاک کیا جاتاتھا- لیکن اسلام نے شخصیت اور احترام کے لحاظ سے عورت کو مرد کے برابر لایا اور اس کے نفقه اور مهر کو مرد کے ذمه رکھا اور اسے مرد کی شریک حیات بنا دیا که اب نه صرف وه مرد کی ورترکه نهیں هے بلکه اس سے میراث بھی لیتی هے اوراپنی شان و عظمت کا تحفظ کرتے هوئےمرد کے مانند دینی، ثقافتی، حتی کھ عسکری اور اقتصادی میدانوں میں بھی سر گرم عمل هو کر مفید ثابت هو سکتی هے اور کمال وعروج تک پهنچ سکتی هے – اس کا نمایاں اور واضح نمونه، اسلام کی دو خواتین یعنی حضرت زهراء (ع) اور حضرت زینب(ع) سعی خاندان اور معاشره کے مختلف میدانوں میں موجودگی اور سر گرم رول اداکر نا هے-
حضرت مهدی عجل الله تعالی فرجه الشریف کے ظهور اور حکومت کے نتیجه میں بھی رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی بعثت کے مانند عظیم تبدیلیاں رونما هوں گی اور من جمله آج کی عورت بھی تکریم و شخصیت کے لحاظ سے ایک نئے مرحله میں داخل هو گی،جسے ماڈرن رنگ روپ میں دوران جاهلیت کی طرف پلٹا دیا گیا هے البته یه که حضرت مهدی (عج ) کی حکومت میں لائق اور با صلاحیت عورتوں کے اختیار میں کن مسئو لیتوں اور ذمه داریوں کو سونپا جائے گا، ایک ایسا امر هے که اس کا مشاهده کئے بغیر اس کے جزئیات کے بارے میں فیصله کر نا مشکل هے، کیونکه اس زمانه کے واقعات اور حوادث کے بارے میں هماری معلو مات و آگاهی ، آیات وروایات پر مبنی هیں اور روایات کے ذریعه اس حادثه کے جزئیات هم تک نهیں پهنچے هیں-
عصر حاضر کی عورت ایک دوسری صورت میں دور جهالت کی طرف پلٹ گئی هے اور مرد کے مساوی ، آزادی و حق انتخاب اور حقوق انسانی سے بهره مندی جیسے دلفریب عناوین کے تحت مردوں اور سیاستدانوں کے لئے ایک سستی مزدور اور بے مقصد کھلونا بن چکی هے اور اپنی انسانیت سے کافی دور هوچکی هے – اگر آج کی نام نهاد متمدن عورت کسی منصب و مقام پر بھی فائز هو جائے ، تو پھر بھی حکام اور سیاستدانوں کا کهلو نا بن جاتی هے – آج کی عورت، هر مرحله اور هر مقام پر اس کی شخصیت اور عفت پر شیاطین کی گرفت مستحکم ھونے اور ان کے توسط سے اس کا ناجائز استفاده کئے جانے سے ، محفوظ نهیں هے-
عورتوں کے زوا ل کے نتیجه میں خاندان کا نظام بھی ٹوٹ چکا هے اور معاشره کی جڑ خشک هو کر روبه زوال هے – پس ، رسول خدا صلی الله علیه وآله وسالم کے جیسے ایک دور ب کی ضرورت هے ،تاکه انسان، خاص کر عورت کو انسانیت کے مقام کی طرف لوٹا دیا جائے اور اسے ترقی کے حقیقی عروج تک پهنچا دیا جائے-
شیعه ، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانه سے هی آنحضرت(ص) اور قرآن مجید کے وعدوں پر ایمان و یقین رکھتے هو ئے همیشه اس انقلاب کے انتظار میں تھے اور هیں-وه انقلاب ، جو پوری دنیا کو دگر گوں کر کے رکهدے گا ، اس کے بعد عورت کی حیثیت موجوده زمانه کی زوال پذیر حیثیت سے مختلف هوگی –
پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے عورت کو ایک نئی زندگی عطا کی اور اسے مرد کے مانند ایک انسان کی حیثیت سے پهنچنوایا ، جس کے مرد پر حقوق و ذمه داریاں هیں، جس عورت کو جاهلیت کے دوران انسان شمار نهیں کیا جاتا تها اور هر قسم کے انسانی حقوق سے محروم تهی اور کبھی اس کے وجود کو ننگ وشرم جانتے هوئے آنکھـ کهولنے سے پهلے هی زنده دفن کیا جاتا تھا ،اسے اموال کے مانند دوسروں کو هدیه کے طور پر عطاکیا جاتا تھا یا میراث کے عنوان سے رد وبدل هوتی تھی ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے اسے اپنے حقوق واموال کی مالک بنادیا اور اپنے مال کی وارث کی حیثیت سے متعارف کرایا-
اسلام نے عورت کی حیثیت کو اس قدر بلندی بخشی که وه مشرکین کے خلاف جنگ میں تعلیم وتربیت یازخمیوں کی مرهم پٹی اور دیکھـ بھال کر نے کی غرض سے مردوں کے دوش بدوش رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی مدد کر تی تھی اور دین و انسانیت کی راه میں جهاد کر نے والوں کی تر بیت کے لئے میدان کار زار میں حاضر هو سکتی تھی- اسلامی عورت خود شریعت کو زنده کر نے والی اور تمام محاذوں پر اس کی مدافعت کار هے اور اس طریقه سے انسانیت کے بلند مقام پر فائز هو تی هے ، یهاں تک که فرشته اور حوران بهشت سے بھی بلند مقام پاتی هے کیونکه وه ان تمام محاذوں پر خاندان کی شخصیت ، عفت اور تقدس کی محافظ هے اور ایک لحاظ سے اس کا رول مرد سے بالاتر هے، وه خود ایک ایسی انسان هے جو انسان کو پیدا کر کے اس کی پرررورش کر تی هے اور بقول امام خمینی(رح) "عورت کے دامن سے هی مرد معراج تک پهنچتا هے-"
لیکن زمانه کے گزرنے کے ساتھـ ساتھـ ، نه صرف غیر اسلامی معاشره میں بلکه اسلامی معاشره میں بھی ، عورت ایک بار پھر اپنے انسانی حقوق سے محروم هو گئی هے-بعض لوگوں نے اس کو گهر کی چار دیواری کے اندر قیدی بناکر رکھدیا هے اور اسے فکری، ثقافتی اور اقتصادی... ترقی سے روکا جاتا هے اور کچھـ لو گوں نے اسے گھر اور خاندان سے جدا کر کے گاڑی اور هوائی جهاز چلانے اور کارخانوں اور کانوں کی گهرائیوں میں بهیجدیا هے اور دوسروں نے دوسری صورت میں ...
مهدی موعود عجل الله تعالی فرجه الشریف کا عالمی انقلاب،جیسا که وعدوں اور نام سے هویدا هے ، دنیا میں ایک عظیم تبدیلی پیدا کر ے گا - خواتین کا معاشره بهی اس عظیم تبدیلی سے مستثنی نهیں هو گا اور اسے اپنے حقیقی مقام وحیثیت کی طرف پلٹا دیا جائے گا-
اس زمانه کے حوادث کے بارے میں همارا فیصله اور علم، مهدویت کے بارے میں صدر اسلام سے موجود روایتوں اور تاریخی قرائن اور شواهد پر مبنی هے – بعض جهات سے امام خمینی(رح) کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران اور دنیا میں رونما هو نے والے تغیرات ، اور ایران میں اسلامی جمهوریه کے تشکیل پانے کے بعد عورتوں کے معاشرے میں نمایاں تبدیلیوں ، کو امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف کے عالمی انقلاب کے سلسلے میں بعد عورتوں کے معاشره میں رونما هو نے والے تغیرات کا ایک چھوٹا سا نمو نه سمجها جاسکتا هے-
جو کچهـ ، امام زمانه عجل الله تعاله فرجه الشریف کے ظهور کے دوران عورتوں کے بارے میں روایتیں نقل هوئی هیں ،وه درج ذیل هیں:
جعفر جعفی امام محمد باقر علیه السلام سے نقل کر تے هیں که آپ(ع) نے فر مایا :" مهدی (عج) قیام کریں گے ...اور ان کے ساتھـ ٣١٣ مرد اور ٥٠ عورتیں جمع هوں گی ، بغیر اس کے که پهلے سے آپس میں کوئی وعده کیا هو، بادلوں کے مانند پراگنده حالت میں ایک دوسرے سے ملیں گے اور بعض دوسرے بھی آئیں گے اور یه هے آیی شریفه (١٢٨ سوره بقره)کی تفسیر جس میں خداوند متعال فر ماتا هے :" تم جهاں پر بھی هو خداوند متعال تم سب کو جمع کرے گا کیونکه خدا هر کام کو انجام دینے میں توانا هے ," یه لوگ رکن و مقام کے در میان حضرت مهدی عجل الله تعالی فرجه الشریف کی بیعت کریں گے اور حضرت مهدی عجل الله تعالی فرجه الشریف ان کے همراه مکه سے خروج کریں گے-"[1]
عبدالله بن بکیر نے حمران سے اور اس نے امام محمد باقر علیه السلام سے روایت کی هے که آپ(ع) نے فر مایا : "... ان کے زمانه میں علم وحکمت کا اس قدر پھیلا ٶ هوگا که عورت اپنے گھر میں بیٹھـ کر خدا کی کتاب اور سنت رسول الله کے مطابق فیصله سنائے گی-"[2]
مهدویت سے متعلق اکثر احادیث، امام مهدی(ع) کی امامت کے ثبوت کی مختلف راهوں ، ظهور سے پهلے حوادث، ظهور کے دوران اور اس کے بعد والے تعیرات کے سلسله میں هیں –ان روایتوں میں حضرت مهدی (عج) کے کارندوں اور گماشتوں کی ذمه داریوں کی تقسیم اور ان کے مرد یا عورت هونے اور اس قسم کے بهت سے دوسرے امور کے جزئیات کی وضاحت بیان نهیں کی گئی هے – لیکن جیسا که بیان کیا گیا ، انقلاب اسلامی ایران کے بعد پیدا هو نے الے تغیرات کو اس زمانه کے تغیرات کا چھوٹا سا نمو نه شمار کیا جاسکتا هے اورقاعدتا انقلاب اسلامی ایران میں عورتوں کے رول اور اس کا جاری اور محفوظ رهنا ، کافی حد تک صدر اسلام اور ظهور کے دوران اور اس کے بعد عورتوں کے فرائض اور رول کی حکایت کرتا هے-امام خمینی(رح) اس سلسله میں فر ماتے هیں :" اسلام چاهتا هے که زن اور مرد دونوں ترقی کریں ، اسلام نے عورتوں کو نجات دلائی هے ، ان چیزوں سے جو جاهلیت میں تھیں ، جس قدر اسلام نے عورت کی خدمت کی هے ، خداشاهد هے مرد کی نهیں کی هے... آپ نهیں جانتے هیں که جاهلیت میں عورت کیا تھی اور اسلام میں کیا بن گئی-"[3] وه ایک دوسری جگه پر فر ماتے هیں :" تشیع نه صرف عورتوں کو اجتماعی زندگی کے میدان میں سرگرم هونے سے منبع نهیں کرتا هے بلکه اسے اپنے بلند انسانی مقام پر قرار دیتا هے، هم مغربی دنیا کی ترقی کو قبول کرتے هیں ، لیکن مغرب کے مفسده کو قبول نهیں کرتے هیں جس سے وه خود بھی نالاں هے-"[4] امام خمینی (رح) مزید فر ماتے هیں :" اسلام کے نقطه نظر سے اسلامی معاشره کی تعمیر میں عورتوں کا اهم اور احساس رول هے اور اسلام عورت کو اس حد تک ارتقا بخشتا هے که وه معاشره میں اپنے انسانی مقام کو پالے اور ایک محض شے هو نے کی حد سے خارج هو جائے اور اس قسم کے رشد و بالیدگی کی تسبت سے وه حکومت اسلامی کے ڈھانچے میں کئی ذمه داریوں کو سنبھال سکتی هے-[5]
اسلامی انقلاب کے معمار حضرت امام خمینی (رح)فر ماتےهیں :" ایران کی عورتوں میں دینی بصیرت بھی هے اور سیاسی بصیرت بھی- جو چیز تمهارے لئے سیاسی اور دینی سر گر میوں کے سلسله میں رکاوٹ بنی تھی ، وه اب دور هو چکی هے اور میں امید رکھتا هوں که جلدی هی ایک ایسے مقام پر پهنچ جاٶ گی که تم میں سے هر ایک کئی افراد کی تربیت کروگی-[6]یه سب رول ایک طرف اور ماں کا رول ایک طرف اگر تم ایک اچھے فر زند کو معاشرے کے حواله کرو گی ، تو تمهارے لئے تمام دنیا سے بهتر هے، اگر تم ایک انسان کی تربیت کرو گی تو تمهارے لئے اس میں اس قدر شرافت هے که میں بیان نهیں کر سکتا هوں ... ماٶں کا دامن ایک ایسادامن هے جهاں پر انسان کی تر بیت هو نی چاهئے-[7]اس لئے جو ملت پوری قدرت کے ساتھـ اسلامی مقاصد کی ترقی کے لئے محاذ کے اگلے مورچے پر کهڑی هے ، اسے کوئی ضرر نهیں پهنچ سکتا هے ، جس ملت کی عورتیں میدان کارزار میں بڑی طاقتوں اور شیطانی طاقتوں سے لڑنے کے لئے مردوں سے پهلے حاضر هوئی هیں، وه ملت کامیاب هو گی ,جس ملت کی راه اسلام میں عورتیں بھی شهید هوں اور مرد بھی اور شهادت کی طالب عورتیں بھی هوں اور مرد بھی، اس ملت کو کبھی نقصان نهیں پهنچے گا-[8]
اگر اسلامی جمهوریه کے رهبر و بانی کے مذکوره منطقی بیانات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ایک اسلامی تغیر میں اور اس کے بعد عورتوں کا رول بخوبی واضح هو سکتا هے اور اس طرح امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف کی حکومت میں عورتوں کے کردار کو بهتر صورت میں ادراک کیا جائے گا-