مسجد کوفہ اور سہلہ کی فضیلت اور ان میں انجام دیئے جانے والے اعمال سے متعلق روایتوں کی تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان مساجد کے اعمال کو ایک ہی جگہ پر انجام دینے کے بارے میں ائمہ اطہار{ع} سے کوئی دستور صادر نہیں ہوا ہے،بلکہ ایک صحابی کو ایک دعا اور ایک نماز کی تعلیم دی گئی ہے اور دوسرے صحابی کو دوسری دعا اور نماز کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس بنا پر ضروری نہیں ہے کہ ہم زائر کو ان مساجد کے تمام اعمال انجام دینے پر مجبور کریں، ضمناً دینی تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مستحبی عبادتوں کو انسان پر زبردستی نہیں ٹھونسنا چاہئیے، کیونکہ اس طرح ان کا پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا ہے، اور ممکن ہے کہ اس کا برعکس نتیجہ نکلے اور انسان عبادت میں معنوی اور رازو نیاز کی حالت پیدا ہونے سے محروم ہو جائے۔ اس لحاظ سے اجتماعی عبادت کے پروگراموں سے استفادہ کرنے کے لیے ، افراد کی توانائی اور ظرفیت کو مدنظر رکھنا چاہئیے، خاص کر بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ جاننا چاہئیے کہ ایک خاص جگہ پر عبادت انجام دینا، کبھی خصوصیت رکھتا ہے۔ اس بنا پر اس میں اپنی پسند سے تبدیلی نہیں لائی جا سکتی ہے۔ البتہ قابل ذکر ہے کہ خدا کے ساتھ ہر راز و نیاز قابل قدر ہوتا ہے اور اس کا اجر و ثواب بھی ہوتا ہے۔
جن مساجد کے بارے میں روایتوں میں کثرت سے فضیلتیں اور اعمال بیان کیے گیے ہیں، ان میں مسجد کوفہ اور مسجد سہلہ بھی ہیں کہ دینی کتابوں میں ان کی تاریخ قبل از اسلام بیان کی گئی ہے اور بہت سے گزشتہ انبیاء{ع} نے ان مساجد میں دعا اور نمازیں پڑھی ہیں، اس کے بارے میں بعد میں ذکر کیا جائے گا۔
ان مساجد کی فضیلت و اعمال سے متعلق روایات کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ، جو دستور اس سلسلہ میں ائمہ اطہار{ع} سے صادر ہوئے ہیں، وہ ان اعمال کو اجتماعی طور پر انجام دینے سے متعلق ہیں نہ کہ انفرادی طور پر، کہ ایک نماز یا منقولہ دعا کے عنوان سے تمام افراد کے لیے انجام دینا ضروری ہو۔
اس سلسلہ میں دو نکات کی یاد دہانی ضروری ہے:
پہلا نکتہ: روایتوں میں موجود عبادتوں کو اسی صورت میں بجا لانا چاہئیے جیسا کہ روایتوں میں بیان کیا گیا ہے اور ان میں کسی قسم کے دخل و تصرف کا ہمیں حق نہیں ہے۔ عبداللہ بن سنان کہتے ہیں: چھٹے امام{ع} نے اس سلسلہ میں فرمایا: ایک زمانہ آئے گا کہ آپ امام و پیشوا سے محروم ہوں گے اور شبہات سے دوچار ہو جائیں گے۔ ۔ ۔ اس کے بعد فرمایا: اس زمانہ میں کوئی نجات نہیں پائے گا، مگر وہ جو دعائے غریق کو پڑھے۔ میں نے عرض کی دعائے غریق کیا ہے؟ فرمایا:"يَا اللَّهُ يَا رَحْمَانُ يَا رَحِيمُ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبي عَلَى دِينِكَ" " اے خدائے رحمان و رحیم ؛ اے دلوں کو تغیر دینے والے ، میرے دل کو اپنے دین پر استوار رکھنا۔"
راوی کہتا ہے: میں نے اس دعا کو پڑھ لیا اور اس میں لفظ "الابصار" کا اضافہ کیا، یعنی اے دلوں اور نظروں کو تغیر دینے والے۔ امام{ع} نے انتباہ کرتے ہوئے فرمایا: بیشک خداوندمتعال " مقلب القلوب والابصار" ہے، لیکن جس طرح میں نے تعلیم دی ہے، دعا کو اسی طرح پڑھنا اس میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرنا؛"[1]
اس بات کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہے کہ، جب کسی عمل کو انجام دینے کا کوئی خاص طریقہ ہو تو ہمیں اس میں کمی بیشی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن زیر بحث موضوع{ یعنی تمام اعمال کو ایک ہی وقت میں بجا لانا یا کاروان کے تمام افراد کو مسجد کے مختلف معین شدہ مقامات پر تمام اعمال بجا لانے پر مجبور کرنا } ہم اس کے بارے میں بیان کریں گے، مذکورہ صورت میں ان اعمال کو بجا لانے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہےبلکہ ان کو ائمہ اطہار{ع} کے دستور کے مطابق انجام دینا چاہئیے، کیونکہ بعض مکانوں کی اپنی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر طواف صرف خانہ کعبہ کے گرد انجام پانا چاہئیے دوسری کسی جگہ پر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دوسرا نکتہ: مسجد کوفہ اور مسجد سہلہ میں بعض عام اعمال ہیں، کہ انہیں مسجد میں کسی جگہ انجام دیا جا سکتا ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل روایتوں میں بیان کیا گیا ہے:
۱۔ امام علی{ع} نے فرمایا ہے: " مسجد کوفہ میں مستحب نماز پڑھنا،رسول خدا{ص} کے ہمراہ ایک عمرہ بجا لانے کے برابر ہے اور اس میں ایک واجب نماز پڑھنا، رسول خدا{ص} کے ہمراہ حج بجا لانے کے برابر ہے اور اس مسجد میں ہزار انبیاء{ع} اور ہزار اوصیائے پیغمبر نے نماز پڑھی ہے۔[2]"
۲۔ ہارون بن خارجہ نے مسجد کوفہ میں نماز پڑھنے کے بارے میں امام جعفرصادق{ع} سے ایک طولانی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کے ضمن میں مسجد کوفہ کی فضیلت کے بارے میں فرماتے ہیں: " میں اگر کوفہ میں ہوتا، تو میں تمام نمازوںکو وہاں پر پڑھنا پسند کرتا۔ ۔ ۔ خدا کا کوئی صالح بندہ ایسا نہیں تھا جس نے اس مسجد میں نماز نہ پڑھی ہو، معراج کی شب میں رسول خدا{ص} اس مسجد سے گزرے، اجازت لے لی اور اس میں دو رکعت نماز بجا لاے۔ ۔ ۔ اس مسجد میں ایک واجب نماز پڑھنا، ہزار واجب نمازوں کے برابر ہے اور ایک مستحب نماز پڑھنا دوسری جگہ پر پانچ سو مستحب نمازیں پڑھنے کے برابر ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر میں مشغول ہوئے بغیر صرف بیٹھنا بھی اس مسجد میں عبادت ہے۔ ۔ ۔[3]
۳۔ امام صادق{ع} نے فرمایا ہے: " کوئی ایسا غمگین انسان نہیں ہے، جو نماز مغرب و عشا کے درمیان مسجد سہلہ میں دو رکعت نماز پڑھے اور خداوندمتعال اس کے غم و آلام کو دور نہ کرے؛[4]
۴۔ امام صادق{ع} نے مزید فرمایا ہے: " مسجد سہلہ میں نماز پڑھو اور خداوندمتعال سے اپنی دنیوی اور اخروی حاجتیں طلب کرو، کیونکہ مسجد سہلہ ادریس{ع} پیغمبر کا گھر ہے جس مین وہ خیاطی کرتے تھے۔ اس مسجد میں دعا قبول ہوتی ہے اور اس مسجد مِن دعا کرنے والوں کے مقام کو خداوند بلند کرتا ہے اور اسے ادریس{ع} کا درجہ عطا کرتا ہے اور اسے دنیا کی برائیوں اور دشمنوں سے محفوظ رکھتا ہے[5]۔
۵۔ ابو حمزہ ثمالی نقل کرتے ہیں کہ امام سجاد{ع} مدینہ سے مسجد کوفہ تشریف لائے، صرف مسجد کوفہ میں دو رکعت نماز پڑھ کے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر واپس مدینہ لوٹے[6]۔
کئی دوسری روایتیں پائی جاتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے خاص نقطہ )مقام( کی طرف توجہ کی گئی ہے، جیسے:
۱۔ ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں: اصبغ بن نیاتہ میرے ہاتھ کو پکڑ کر مجھے ساتویں ستون کے پاس لے گئے اور کہا کہ: یہ مقام امیرالمومنین{ع} ہے۔ اور جب امام علی{ع} نماز کے لیے نہیں آتے تو امام حسن{ع} یہان پر نماز پڑھتے تھے اور باقی اوقات میں پانچویں ستون پر نماز پڑھتے ہیں۔[7]"
۲۔ بنی عباس کی حکومت میں امام صادق{ع} باب الفیل {مسجد کا ایک دروازہ جو اس نام سے مشہور ہے} سے مسجد میں داخل ہوئے اور بائیں جانب چلے اور چوتھے ستون کے پاس کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، راوی کہتا ہے: میں نے ان سے سوال کیا: کیا حضرت ابراھیم{ع} کا ستون یہی جگہ ہے؟ حضرت{ع} نے جواب دیا؛ جی ہاں؛"[8]
۳۔ امام صادق{ع} نے اپنے بعض صحابیوں سے فرمایا: "۔ ۔ ۔ مقام ابراھیم{ع} جو پانچویں ستون کے قریب ہے ، کے پاس نماز پڑھو۔[9]"
مسجد کوفہ کے اعمال سے متعلق روایتوں کی تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان مساجد میں اہل بیت{ع} کے نماز پڑھنے کا طریقہ یکساں نہیں تھا اور ان روایتوں میں کوئی خاص اور واحد کیفیت بیان نہیں ہوئی ہے کہ سب پر ایسے ہی اعمال انجام دینے کی ذمہ داری ہو۔
اس بنا پر مناسب ہے کہ ان مساجد کے اندر زائروں کی نقل و حرکت مشکل ہونے کی صورت میں ، پہلی قسم کی عبادتوں پر اکتفا کیا جانا چاہئیے اور زائرین کو آزاد چھوڑدینا چاہئیے کہ اگر چاہیں تو مسجد کے خاص مقامات پر بھی جا سکیں۔
بہرحال، چونکہ ہر زمان و مکان میں خداوندمتعال سے راز و نیاز کرنا ایک پسندیدہ کام ہے، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ مناجات کو ایک نقطہ )مقام( پر انجام دیا جائے، اس نیت سے نہیں کہ اس عمل کو ہر جگہ پر انجام دیا جا سکتا ہے، بلکہ صرف اس نیت سے کہ خداوندمتعال کی مناجات کو مجموعی طور پر انجام دیا جائے، اور توجہ کی جانی چاہئیے کہ عبادتوں ، خاص کر مستحبات میں حضور قلب و نشاط کا ہونا ، خود عبادت سے اہم تر ہے۔
اس سلسلہ مِں مزید آگاہی کے لیے ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل عناوین ملاحظہ ہوں:
حضور قلب در مستحباتی، سؤال 8206 (سایٹ: 8268).
انجام نمازهای نافله با رغبت، سؤال 12964 (سایٹ: 13426).
[1]مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 52، ص 148، ح 73، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404ھ.
[2]ایضاً، ج 80 ص 376.
[3]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 3، ص 490، ح 1، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ھ ش.
[4]طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الأحکام، ج 6، ص 38، ح 21، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ھ ش.
[5]بحار الأنوار، ج 97، ص 434، ح 1.
[6]تهذیب الأحکام، ج 3، ص 254، ح20.
[7]ایضاً، ج 6، ص 33، ح 8.
[8]ایضاً، ج 3، ص 252، ح 10.
[9]بحار الأنوار، ج 97، ص 388، ح 11.