زبان جبکہ خداوند متعال کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ہے، اور دوسروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے لیے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زبان کی بہت سی آفتیں ہیں جو مختلف گناہوں کا سرچشممہ بن سکتی ہیں، اس لیے زبان کو کنٹرول کرنے اور اس سے صحیح استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جب ہر صبح انسان نیند سے اٹھے تو اس کو اپنے آپ سے یہ نصیحت کرنی چاھیے کہ اپنی زبان کا خیال رکھے۔
حضرت امام علی )ع( نے فرمایا: جب تک تم نے سخن اور کلام کو اپنی زبان پر نہیں لایا وہ تمہارے اختیار میں ہے۔ لیکن جوں ہی تم نے کلام کیا تم اس کے قیدی بن گئے، پس اپنی زبان کی سونے اور چاندی کی طرح حفاظت کرو، بعض کلام ایسے ہیں جو انسان سے نعمتوں کو سلب کرتے ہیں، پس جو کچھ تم نہں جانتے ہو اس کو کہنے سے پرہیز کرو، خداوند متعال نے اعضاء و جوارح پر ایسی چیزیں واجب کی ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ اس دن وہ آدمی ذلیل ہوگا جس پر اس کی زبان حکم چلاتی تھی، جو بھی باتونی ہوگا اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں، اور جو بھی ایسا ہو اس کی غیرت اور حیاء کم ہوگی اور جس کی حیاء کم ہوگی اس کی پرھیزگاری کم ہوگی اوراس کا دل مرجائے گا اور جس کا دل مرجائے وہ دوزخ میں چلاجائے گا۔
زبان ، دل کی ترجمان ، عقل کی نمایندہ اور شخصیت کی کنجی اور انسانی روح کا سب سے اہم دریچہ ہے۔ جو کچھ زبان کے صفحے پر گفتگو کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے وہ انسان کے روح پر کھینچے جانی والی تصاویر کی مثال ہے۔ زبان در حالیکہ خداوند متعال کی ایک بڑی نعمت ہے اور دوسروں کے ساتھ رابطہ بڑھانے کا اہم وسیلہ ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی آفتیں بھی زیادہ ہیں ، یہ بے شمار گناھوں کا سرچشمہ بن سکتی ہے اس لئے زبان کو کنٹرول کرنے اور اس سے صحیح استعمال کرنے کے لیے دو طریقے تجویز کئے جاتے ہیں۔
الف : عملی علاج
زبان کے خطروں کی طرف توجہ کرنا اور ان کا خیال رکھنا پر گوئی کا بہترین علاج ہے۔ زبان اور اس کے ذریعے باتیں کرنا کئی جگہوں پر مفید بھی ہے لیکن اس میں آفات اور خطرے بھی بہت ہیں، صبح کو جب انسان نیند سے اٹھتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو یہ نصیحت کرے کہ وہ اپنی زبان کا خیال رکھے، کیونکہ یہ انسان کو سعادت کے عروج تک پہنچا سکتی ہے یا ذلت و شقاوت کے فرش پر بٹھا سکتی ہے۔ امام سجاد )ع( نے فرمایا:" ہر صبح کو انسان کی زبان پورے بدن کے اعضاء پر نظر کرکے کہتی ہے تم کیسے ہو؟ کیسے صبح کی؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ بہت اچھے اور ٹھیک ٹھاک ہیں اس شرط پر کہ تم ہمیں اپنے حال پر چھوڑو گی، وہ اسے خدا کی قسم دیتے ہیں ) کہ وہ غلط بات نہ کرے اور انہیں تکلیف میں نہ ڈالے ( اور کہتے ہیں ) اس بات میں کوئی شک نہیں ( کہ تمہاری وجہ سے ہمیں ثواب اورجزاء عطا ہوتا ہے اور تمہاری ہی وجہ سے ہمیں سزا ملتی ہے۔[1]
پس انسان کو اپنی زبان اور کلام کا خیال رکھنا چاھیے کیونکہ جو بھی کلام وہ بولتا ہے وہ اس کے نامہ عمل میں لکھا جاتا ہے، قرآن مجید کا ارشاد ہے: وہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا ہے مگر یہ کہ ایک نگہبان اس کے پاس موجود رہتا ہے"[2]
حضرت علی )ع( کا ارشاد ہے :
۱۔ امام ایک آدمی کے پاس سے گزرہے تھے جو زیادہ باتونی تھا ، امام )ع(اس کے سامنے ٹھہرگئے اور فرمایا: اے آدمی! تم اپنی پرگوئی سے اپنے اعمال کو لکھنے والے فرشتوں کےلیے ایک کتاب املاء کرتے ہو جو چیز تمہارے لئے مفید ہے وی بولو اور بیہود کلام سے دوری کرو۔[3]
۲۔ کلام کو جب تک کہ تم نے اپنی زبان پر نہیں لایا وہ تمہارے اختیار میں ہے لیکن جب تم نے کلام کیا تو تم اس کے قیدی بن گئے، اپنی زبان کو سونے اور چاندی کی طرح حفاظت کرو، کبھی کوئی بات انسان سے ایک نعمت دور کرتی ہے، پس جو کچھ نہیں جانتے ہو اس کو بولنے سے پرھیز کرو۔ خداوند متعال نے اعضاء و جوارح پر یہ واجب کیا ہے کہ قیامت کے دن ان سے سوال کیا جائے گا ، اس دن وہ انسان جس پر اس کی زبان حکومت کرتی تھی ذلیل ہوگا جو بھی پر گوئی کرتا ہے اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور جس کی غلطیاں زیادہ ہوں اس کی غیرت کم ہوتی ہے اور جس کی حیاء کم ہو اس کی پرھیزگاری کم ہوگی اور جس کی پرھیز گاری کم ہو اس کا دل مرتا ہے اور جس کا دل مرتا ہے وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے [4]
۳۔ جب عقل کامل ہوتی ہے تو کلام کم ہوتا ہے۔[5]
پس قرآن مجید کی آیات اور روایات کے مطابق زبان کی آفتوں سے بچنےکے لیے بیہودہ باتوں اور پرگوئی سے پرھیز کرنا چاھیئے، کیونکہ اگر انسان جان لے کہ اس کا کلام اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے اور وہ اس کے مقابلے میں مسئول ہے۔ تواس صورت میں وہ پرگوئی، جس کا انجام اکثر اوقات غیبت کرنا ، وقت ضائع کرنا، دوسروں کو تکلیف پھنچانا اور قساوت قلب ہے اس سے دوری اختیار کرے گا۔
شاید زیادہ بولنے کی نفسیاتی بیماریوں کے سرچشمہ کو اس نکتے میں تلاش کیا جاسکتا ہے کہ ہم انسان ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کی توجہ اور محبت کا مرکز قرار پائیں ، اور دوسروں سے محبت حاصل کرنے کے لیے ہم بعض ایسے کام انجام دیتے ہیں جو دوسروں کی توجہ کا سبب بنیں، لیکن ہمیں یہ نہیں بولنا چاھیے کہ اگر انسان خدا کے ساتھ اپنے رابطہ کو ٹھیک کرے گا اور اپنے کاموں میں اس کی نیت خدا کی رضا حاصل کرنا ہو اور وہ یہ کوشش کرے کہ خدا کا محبوب بنے تو خداوند اسے دوسروں کا محبوب بنائے گا بغیر اس کے کہ ریا اور دوسروں کی توجہ کا مرکز بنے ۔ تو اس صورت میں پر گوئی اور دوسروں کی توجہ اپنی جانب متوجہ کرنے جیسے مذموم کام انجام دیںے کی ضرورت نہیں پڑے گی[6]
ب: عملی علاج
ہم مشق، تلقین اور کبھی نذر کرنے اور اپنے اوپر جرمانہ عاید کرنے کے ذریعے زیادہ بولنے کا علاج کرسکتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ اس بری عادت کو اپنے سے دور کرکے اپنے اندر اس سلسلے میں راسخ صفت کو پیدا کرسکتے ہیں۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اپنی زبان کو پرگوئی سے منع کرنا ایک تدریجی اور طولانی کام ہے جس کو زمانہ گزرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں پر گوئی اور اپنی زبان کو کنٹرول نہ کرنے کی عادت نہ پڑی ہو اور اس کے اندر یہ صفت جڑیں پکڑی ہوئی ہو وہ ایک ہی دن کے اندر اس کو بدل نہیں سکتا ہے بلکہ اس کو یہ طے کرنا ہے کہ ہر دن پر گوئی کی کچھ مقدار کو کم کرے تاکہ رفتہ رفتہ اپنی زبان پر مسلط ہوکر اپنی زبان کو ضرورت کے مطابق استعمال میں لائے اور کلام کرے۔
اس سلسلے میں مزید آگاہی کے لیے ملاحظہ ہو:
"راھنمایی برای زدودن رذایل " سوال نمبر ۲۶۰۴ )سایٹ نمبر ۲۷۴۱(
“ مقایسہ کلام و سکوت" سوال نمبر ۹۱۳۵ ) ۹۶۰۸(
" راہ ھای ترک گناھان زبانی" سوال نمبر ۱۳۸۶۸ )سایٹ نمبر ۱۳۵۸۳(
[1] مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار ، ج ۶۸، ص ۳۰۲ ، موسسہ الوفاء ، بیروت، ۱۴۰۴ ھ۔
[2] ق / ۱۸ " ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید"
[3] شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ ، ج ۴، ص ۳۹۶ ، نشر جامعہ مدرسین ، قم طبع دوم ، ۱۴۰۴ ھ
[4] بحار الانوار ج ۶۸ ص ۲۸۶
[5] بحار الانوار ج ۱ ص ۱۵۹
[6] اس سلسلے میں مزید آگاھی کے لیے رجوع کریں " راہ ھای کسب محبوبیت نزد دیگران ، سوال نمبر ۱۰۹۱۵، (سایٹ نمبر ۱۱۶۶۴) اور " راہ ھای محبوب خدا شدن" سوال نمبر ۱۰۶ سایٹ نمبر ( 1025( کا مطالعہ کریں۔