اگر آخرت میں اعتقادات کی کیفیت کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کے سوا ھمارے پاس کوئی دلیل نھ ھو تو ھم اس صورت میں معذور نھیں ھونگے ، کیونکھ اس قسم کا طرز عمل اور افکار انسانی فطرت کے خلاف ھیں۔ البتھ یھ اس صورت میں ھے کھ جانتے ھوں کھ ھمارے آباء و اجداد نھ اھل علم ھیں ، نھ معرفت و عقل رکھتے ھیں اور نھ دانشور اور آگاه افراد کی ھدایت میں رھے ھیں ۔ البتھ یھ جو ھم نے کھا کھ اعتقادات علم ویقین کی بنیاد پر ھونے چاھئیے ، اس سے مراد یھ نھیں ھے کھ اولاً: انسان کو اس سلسلھ میں فلسفی و علمی استدلال سے کام لینا چاھئے ، بلکھ ھر شخص سے اس کی توانائی کے مطابق اس کی توقع کی جاتی ھے ، ثانیاً: اس سلسلھ میں دانشوروں کی راھنمائی سے استفاده نھ کرسکے۔
جواب کی وضاحت کے لئے مندرجھ ذیل چند نکات کی طرف اشاره کرنا ضروری ھے :
۱۔ خداوند متعال نے انسان کی فطرت اور سرشت کو یوں تخلیق کیاھے کھ ، وه اپنے گرد حقیقت کو پانے اور حقائق پر علمی تسلط جمانے کی مسلسل کوشش میں لگا رھتا ھے ، انسان اپنی پیدائش کے دن سے موت کے وقت ک ایک لمحھ بھی حقیقت کو پانے کی جستجو و تلاش سے غافل نھیں رھتا ھے ، البتھ اس کی یھ تلاش، کوشش اور جستجو اس کی عمر ، جسم ، فکر اور طرز عمل کی مناسبت سے ھوتی ھے۔
دوسرے الفاط میں، خداوند متعال نے انسان کو کمال و سعادت تک پھنچنے اور حقائق و معارف کو درک کرنے کے لئے کافی سرمایھ اور وسائل کے ساتھه زمین پر بھیجا ھے۔ تا کھ اس سے استفاده کرکے اپنی خلقت کے مقصد تک پھنچ جائے۔
قرآن مجید میں ارشاد ھوا ھے: "اور نفس کی قسم اورجس نے اسے درست کیاھے پھر بدی اور تقویٰ کی ھدایت دی ھے ، بیشک وه کامیاب ھوگیا جس نے نفس کو پاکیزه بنا لیا اور وه نامراد ھوگیا جس نے سے آلوده کردیا ھے"۔ [1]
اب اس حقیقت کے پیش نظر کھ انسان معلومات اور علمی ترقی کے حصول میں ، صلاحیت کے لحاظ سے خدا کی عمده ترین مخلوق ھے ، اگر کوئی شخص ، اپنی بنیادی ضرورت یعنی خلقت کے مقصد ،جو تقرب الھی کا سرمایھ ھے، تک پھنچنے میں اپنی دولت وجود سے استفاده نھ کرے اور مقصد تک پھنچانے والی راه اختیار کرنے میں سستی اور کاھلی سے کام لے ( اور اپنے آباء و اجداد کے خیالات اور آداب و رسوم پر اکتفا کرے ، باوجودیکھ جانتا ھو کھ اس کے آباء و اجداد نھ اھل علم و عقل ھیں اور نھ ان کی زندگی علم و دانش کی ھدایت کی بنیاد پر ھے ) تو وه کیسے قابل معافی ھوسکتا ھے؟۔ [2]
حقیقت میں خود فطری طور انسان کا ضمیر اسے ملامت کرتا ھے ،کیونکھ اس نے اس کے برخلاف حرکت کی ھے اور اپنے ھاتھوں اپنی حقیقت کو الٹ کر رکھدیا ھے۔
اسی سلسلھ میں قرآن مجید کا ارشاد ھے : " اور یقیناً ھم نے انسان اور جنات کی ایک کثیر تعدادکو گویا جھنم کےلئے پیدا کیا ھے کھ ان کے پاس دل ھیں مگر جانتے نھیں ھیں اور آنکھیں ھیں مگر دیکھتے نھیں ھیں اور کان ھیں مگر سنتے نھیں ھیں ۔ یھ چوپایوں جیسے ھیں بلکھ ان سے بھی زیاده گمراه ھیں اور یھی لوگ اصل میں غافل ھیں"۔ [3]
۲۔ ھر مسلمان جو اپنے آپ کو دین اسلام کے تابع سمجھتا ھے اس کے پاس ، اپنے اعتقادات کے بارے میں ، اپنے آبا و اجداد کی اندھی تقلید کے علاوه کوئی دلیل بھی ھونا ضروری ھے اور اسی وجھ سے مراجع کی توضیح المسائل میں ( ھر مسلمان کے لئے اسے حاصل کرنا ضروری ھے ) درج ھے کھ اصول دین میں تقلید نھیں کی جاسکتی ھے ، بلکه ھر شخص کو اس سلسلھ میںخود علم و یقین تک پھنچنا چاھئے۔ [4]
اس کے علاوه اسلامی دستور و آئین کی روح ، عقل و دانش ھے اور اسلام ھمیں ھر جگھ پر فکر و فھم کی دعوت دیتا ھے۔ [5]
البتھ ظاھر ھے کھ درک و فھم کے مراتب ، انسان کی آگاھی اور علم کے مناسبت سے مختلف ھیں ۔ ایک ان پڑھ شخص سے ، اس کے فکر و خیال اور زندگی کے حالات کے مطابق توقع کی جاسکتی ھے ، جیسا کھ ایک مشھور حدیث میں آیا ھے کھ: " ایک دھاگا کاتتی ھوئی بوڑھی عورت سے پیغمبر اسلام نے سوال کیا کھ خدا کو کس طریقھ سے ثابت کرتی ھو؟ عورت نے ھاتھه روک کر کھا : اس سے "۔
یھاں پر اس بوڑھی عورت نے فلسفیانھ دلائل کا سھارا نھیں لیا اور نھ اس سے اس کی توقع کی جاسکتی تھی اور نھ وه اس کی سکت رکھتی تھی ، بلکھ اس نے تمام لوگوں کے لئے اس قابل فھم نکتھ کی طرف اشاره کیا کھ اگر اس چرخ کو چلانے کے لئے ایک چلانے والے کی ضرورت ھے تو یھ کیسے ممکن ھے کھ اس کائنات کو ایک پروردگار اور چلانے والے کی ضرورت نھ ھو۔ اور یھ بھی اسی موضوع سے تعلق رکھتا ھے کھ ایک اعرابی نے کھا تھا کھ جس طرح اونٹ کے پاؤں کی نشانیاں اونٹ پر دلالت کرتی ھیں اسی طرح آسمان و زمیں بھی خدائے لطیف و خبیر پر دلالت کرتے ھیں۔ [6]
لیکن ایسا لگتا ھے کھ اسلام کی حقانیت کے لئے انتھائی عالم ساده ترین اور استدلال کا ، انسان کی فطرت و سرشت کے مطابق ھونا ھے۔ اگر انسان اپنے طرز عمل اور ناپسند اخلاق سے خدا داد فطرت کو گناه و معصیت کی تاریکیوں میں نھ چھپائے ، تو وه اسلام کی حقانیت اوریقین کی منزل تک پھنچ سکتا ھے اور صحیح اعتقادات حاصل کرنے کےلئے فکر و تعقل کے علاوه اس راه سے بھی استفاده کرسکتا ھے۔
۳۔ سچ ھے کھ اصول دین کا اعتقاد علم و یقین کی حد تک پھنچنا چاھئے اور اگر اس حد تک نھ پھنچے ، تو اس کا مطلب یھ ھے کھ اعتقاد میں شک و شبھھ کی ملاوٹ ھے ، جو کافی نھیں ھے ، اگر چھ یھ ترجیحی ظن کے درجھ تک بھی پھنچا ھو اور مسلمان ببنے کےلئے تقلید کی راه کافی نھیں ھے اور جو مسلمان بننا چاھتا ھے اسے دین کے حق یا باطل ھونے کے سلسلھ میں بحث و تحقیق کرنی چاھئے۔
لیکن یقینی علم علمی استدلال کے علاوه دوسری راھوں سے بھی حاصل ھوسکتا ھے جیسے قرآن مجید کی آیات وغیره سسنے اور سمجھنے سے۔[7]
اصول دین میں علم و یقین حاصل کرنے کی راھوں میں سے ایک ، دانشوروں کی راھنمائی کی پیروی کرنا بھی ھے۔ [8]
جس چیز کی قرآن مجید میں مذمت کی گئی ھے وه تعصب کی بنیاد پر بالکل اندھی تقلید ھے۔
اس سلسلھ میں قرآن مجید میں ارشاد الھی ھے:
" جب ان سے کھا جاتا ھے کھ جو کچھه خدا نے نازل کیا ھے اس کا اتباع کرو تو کھتے ھیں کھ ھم اس کا اتباع کریں گے جس پر ھم نے اپنے باپ داد کو پایا ھے۔ کیا یھ ایسا ھی کریں گے ، چاھے ان کے باپ دادا بے عقل ھی رھے ھوں اور ھدایت یافتھ نھ رھے ھو؟ [9]
اسی قسم کا مضمون سوره مائده کی آیت نمبر ۱۰۴ میں بھی آیا ھےَ
مذکوره آیات سے یھ استدلال کیا جاسکتا ھے کھ اگر ان کے باپ دادا صاحب نظر دانشور اورھدایت یافتھ تھے تو انکی پیروی کی جاسکتی تھی۔ [10] لیکن اس کے باوجود کھ وه جانتے ھیں کھ ان کے باپ دادا ناداں ، ان پڑھ اور وھم پرست تھے ، تو ان کی پیروی کے کیا معنی ھیں؟ کیا یھ ایک جاھل کی دوسرے جاھل کے تقلید کرنے کی مثال نھیں ھے؟"[11]
پس ایک فرد کو کیسے مسلمان جانا جاسکتا ھے ؟ جبکھ وه ایسے افرادکی اندھی تقلید کرتا ھے جو نھ اھل علم و عقل ھیں اور نھ ان کا طرز عمل ھدایت الھی اور فطرت کی بنیاد پر ھے۔ البتھ ظاھر ھے کھ حقیقی مسلمان وھی ھیں جو اھل علم و عقل ھیں یا ان کا طرز عمل ھدایت الھی و فطرت کی بنیاد پر ھے اور ان کی تقلید ھمیشھ علمی و استدلالی بنیادون پر مستحکم اور یھ تقلید تعصب اور ضد پر مبنی نھیں ھے ، کیونکھ وه جانتا کھ اگر ایسا نھ ھو تو بارگاه الھی میں معاف نھیں کیا جائے گا۔
[1] سوره شمس / ۷ ۔۔ ۱۰۔
[2] مگر یھ کھ اس سلسلھ میں ھم واقعی قاصر ھیں نھ مقصر، مزید معلومات حاصل کرنے کےلئے ملاحظھ ھو، عنوان : " قاصرین و نجات از جھنم " سوال نمبر ۳۲۳۔
[3] سوره اعراف/ ۱۷۹۔
[4] رسالھ عملیھ ، مسئلھ نمبر ۱۔
[5] قرآن مجید جو ھمارا سب سے اصلی دینی منبع ھے ، سراسر ، فکر اور سوچ کی دعوت پر مشتمل ھے ، مثلاًً : لفط " علم " ، یا لفظ " فقھ" یالفظ " عقل" وغیره کے علاوه کم از کم ۱۷ بار لفظ " فکر " سے استفاده کرکے غور و فکر کی ترغیب دیتا ھے۔
[6] حیث قال : البعرۃ تدل علی البعیر و اثر الاقدام علی المسیر فسماء ذات ابراج و ارض ذات فجاج لا تدلان علی الطیف الخبیر " بحار الانوار ، ج ۶۶، ص ۱۳۳۔
[7] مزید معلومات کے لئے ملاحظھ ھو۔ ترجمھ تفسیر المیزان (فارسی) ج ۹ ص ۲۰۹۔
[8] اس سلسلھ مین تفسیر نمونھ میں آیا ھے : " بعض مفسرین نے حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام سے ایک حدیث نقل کی ھے ، جس مین قابل توجھ چند نکات ھیں۔ حدیث یوں ھے : " ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام کی خدمت مین عرض کیا کھ : باوجودیکھ عام یھودی اپنی آاسمانی کتاب کے بارے میں اپنے علماء کے علاوه کسی اور راه سے کوئی اطلاع نھیں رکھتے تھے، تو خداوندمتعال انکی اپنے علماء کی تقلید اور انکی پیروی کرنے کی کیوں مذمت کرتا ھے؟ ! ( زیر بحث آیات کی طرف اشاره ھے) کیا عام یھودی ھمارے عوام سے فرق رکھتے ھیں ، جو اپنے علماء کی تقلید کرتے ھیں؟ امام علیھ السلام نے فرمایا: ھمارے عوام اور عام یھودیوں کے درمیان ایک جھت سے فرق ھے اور ایک جھت سے مساوی ھیں ، جس جھت سے ( یھ دوںون عوام ) مساوی ھیں وه یھ ھے کھ خداوند متعال نے ھمارے عوام کی بھی اسی طرح مذمت کی ھے ، جس طرح یھدوی عوام کی مذمت کی ھے۔
لیکن جس جھت سے آپس مین فرق رکھتے ھیں ، و ه یھ ھے کھ یھودی عوام اپنے علماء کے حالات سے واقف تهے ، جانتے تهے کھ وه بالکل جھوٹے ھین ، حرام اور رشوت کھاتے ھیں اور خدا کے حکم کی نافرمانی کرتے ھیں ، ان کو اپنی فطرت سے معلوم ھوچکا تها کھ اس قسم کے افراد فاسق ھین اور ان کی باتوں کو خدا اور اس کے احکام کے بارے میں قبول کرنا نا جائز ھے ، اسی وجھ سے خداوند متعال نے ان کی خدمت کی ھے ، لیکن ھمارے عوام ایسے علماء کے پیرو نھیں ھیں۔
اور اگر ھمارے عوام بھی اپنے علماء کے بارے میں واضح فسق ، شدید تعصب اور دنیا و مال حرام کے حرص اور لالچ کا مشاھد کریں اور جو بھی شخص ان کی پیروی کرے ، وه یھود کے مانند ھے کھ خداوند متعال نے ، علمائے فاسق کی پیروی کرنے پر ان کی مذمت کی ھےَ " فاما من کان من الفقھاء صائنا لنفسھ ، حافظا لدینھ مخالفا علی ھواه ، مطیعا لامر مولاه فللعوام ان یقلدوه " لیکن جو دانشور اپنی روح کی پاکیزگی کی حفاظت کریں۔ اور اپنے دین کی نگرانی کریں ، اپنے نفسانی خواھشات کے مخالف اور اپنے مولا کے اوامر کے مطیع و فرمانبردار ھون تو عوام ان کی پیروی کرسکتے ھیں۔
ظاھر ھے کھ یھ حدیث احکام میں اطاعتی تقلید کی طرف اشاره نھیں کرتی ھے ، بلکھ اس سے مراد اصول دین مین علم و یقین پیدا کرنے کے لئے دانشوروں کی راھنمائی کی پیروی کرنا ھے ، کیوں کھ حدیث پیغمبر کی معرفت کے بارے میں بات کرتی ھے ، کھ مسلم طور پر اصول دین ھے اور اطاعتی تقلید اس مین جائز نھیں ھے ( تفسیر نمونھ ، ج ۱ ص ۳۲۰)
اسی طرح ایک اور جگھ پر لکھتا ھے:
قرآن مجید کی آیات میں بیان ھوا ھے کھ حجرت ابراھیم علیھ السلام آذر کو اپنی پیروی کرنے کی دعوت دیتے ھیں ، جبکھ قاعدے سے ان کا چچا (آذر) بھ اعتبار عمر ان سے کافی بڑا تھا اور اس معاشره میں ایک مشھور شخص تھا، اس کی دلیل یھ بیان کرتے ھین کھ میرے پاس ایسے علوم ھیں جو تمھارے پاس نھیں ھیں (قد جائنی من العلم مالم یاتک)
یھ ان سب لوگوں کےلئے ایک کلی قانون ھے جو ان سب چیزون سے آگاه نھیں ھیں ، وه ان لوگون کی پیروی کرین جو آگاه ھین اور یھ حقیقت میں ھر فن کے ماھرین کی طرف متوجھ کرانے کے علاوه احکام اسلامی کے فروع میں مجتھد کی تقلید کے مسئلھ کو مشخص کرتا ھے ، لیکن حضرت ابراھیم علیھ السلام کی بحث فروع دین کے بارے میں نھیں تھی، بلکھ آپ (ع) حد درجھ بنیادی مسئلھ اصول دین کی بات کررھے تهے تا ھم اس قسم کے مسائل میں بھی دانشوروں کی راھنمائی سے استفاده کرنا چاھئے ، تا کھ صراط مستقیم کی ھدایت حاصل ھوجائے ، تفسیر نمونھ ج ۱۳ ، ص ۸۱۔
[9] سوره بقره / ۱۷۰
[10] حقیقت میں کھا جاسکتا ھے کھ اس قسم کی تقلید کو علمی و عقلی حمایت اورپشت پناھی حاصل ھے اور یھ محض تقلید نھیں ھے۔
[11] تفسیر نمونھ ، ج ۱ ص ۵۷۶۔