اسلام کی نظر میں شادی ، خاندان کی تشکیل اور اسی کے ساتھ معاشرے کے لئے ایک مقدس عهد و پیمان هے جس کے بهت سے ثمرات اور نتیجے هیں منجمله : جنسی غریزه کا پورا کرنا ، نسل کی بقاء ، سکون و آرام ، عفت و پاک دامنی ، پیار و محبت میں استحکام اور دوسری بهت سی نعمتیں یه مقدس عهد و پیمان فقط خداوند عالم کے معین کرده قوانین ، اصول و ضوابط اور شرائط هی کی بنیاد پر ممکن پذیر هے ان شرائط میں سے ایک خاص الفاظ میں خطبه نکاح کا انشاء کرنا هے (جو توضیح المسائل میں موجود هے) پروردگار عالم نے شارع اور قانون ساز کے عنوان سے ان الفاظ کو قدر و قیمت اور اعتبار بخشا هے اور اس کے انشاء کو خطبه نکاح کے عنوان سے مرد و عورت میں زوجیت کے سبب کا جزو قرار دیا هے ۔
شادی کے معنی دو طرفه رضامندی نهیں هے بلکه طرفین کی رضامندی شادی کی واجب شرطوں میں سے هے جیسے دوسرے شرائط ، منجمله انشاء خطبه نکاح کے همراه هونا چاهئے تا که شادی صحیح اورشرعی طور پر تحقق پائے ۔ شادی وه عظیم و بزرگ کام هے جو ذ مه داری اور تعهد کا نیازمند هے اور واضح سی بات هے که عقلا بڑے کاموں جیسے معاملات میں عقد (اگریمنٹ) سے استفاده کرتے هیں اور فقط طرفین کی رضامندی پر هی اکتفاء نهیں کرتے اور اس طرح کے معاملات میں ذمه داری پوری کرنے میں طرفین کی رضامندی کو هی اهمیت نهیں دیتے بلکه ان کا عقیده هے که اس مسؤلیت کا استحکام عقد کی صورت میں محقق هوتا هے ۔
سب سے پهلے ضرورت اس بات کی هے که اسلام کی نظر میں شادی کی اهمیت و آثار بیان کریں :
اسلام کی نظر میں شادی خانواده کی تشکیل اور اسی کے ساتھ معاشرے کے لئے ایک مقدس عهد و پیمان هے جس کے بهت سے ثمرات و نتائج هیں منجمله :
جنسی غریزه کو پورا کرنا ، بقائے نسل ، کمال انسانیت ، آرام سکون ، عفت و پاک دامنی اور انسان کے دین کا تحفظ هے ۔
قرآن مجید شادی سے متعلق فرماتا هے :" اس (خدا ) کی نشانیوں میں سے یه هے که تمهاری جنس میں سے تمهارے لئے جوڑا پیدا کیا تا که ان کے ساتھ تمھیں آرام ملے اور تمهارے درمیان مودت و رحمت قرار دیا هے " [1] ۔ رسول خدا (صل الله علیه وآله وسلم) نے بھی فرمایا هے : " اسلام کی نظر میں کوئی بنیاد ایسی نهیں جو شادی (ازدواج) کی طرح خداوند عالم کی نگاه میں محبوب هو "[2] ۔
دونوں طرح کی شادیوں (دائمی و وقتی) میں عقد کی ضرورت هے ۔
"عقد " لغت میں (گره ) اور ( گره لگانے) کے معنی میں هے اور اصطلاح میں دو فرد یا دو گروه کے درمیان قائم هونے والا رابطه هے جس کی بنیاد پر طرفین پر ایک دوسرے کے مقابل ذمه داری و تعهد ایجاد هوتا هے [3] ۔
قرآن مجید نے جمله " یا ایّها الّذین آمنوا اوفوا بالعقود ۔ ۔ ۔" [4] ( یعنی اے ایمان والو ؛ عهد و پیمان پر وفا کرو ) کے ذریعه صحیح اور انسان عهد و پیمان پر عمل کرنا مومنین کے لئے واجب قرار دیا هے ۔
کسی بھی عقد کے ایجاد کا راسته اس عقد کے صیغه کا انشاء کرنا هے جو مخصوص الفاظ سے صورت پذیر هوتا هے ۔ عقد نکاح (ازدواج) کا مطلب میاں بیوی کے درمیان ایک رابطه ایجاد کرنا هے جس کے سایه میں ، دوطرفه حقوق ، تعهد اور ذمه داریاں وجود میں آتی هے لیکن یه سوال که عقد کی کیا ضرورت هے ؟ تو کهنا پڑے گا که :
عقلا بڑے کاموں میں که جس میں ذمه داری و تعهد کی ضرورت هوتی هے مثال کے طور پر بڑے بڑے معاملات میں عقد سے استفاده کرتے هیں ، فقط طرفین کی رضامندی پر اکتفاء نهیں کرتے اور اس طرح کے اهم کاموں میں ذمه داری و تعهد پورا کرنے میں صرف رضایت طرفین کو اهمیت نهیں دیتے بلکه ان کا عقیده هے که ان ذمه داریوں و تعهدات کا استحکام عقد کی صورت میں تحقق هوتا هے ۔
اسی وجه سے چوں که ازدواج (شادی) ایک اهم کام هے جو ذمه داری کا هے لهذا مخصوص شرائط و قوانین کی بنیاد پر هونا چاهئے، ان شرائط میں سے ، شارع مقدس خداوند عالم کی طرف سے خاص معین الفاظ میں خطبه نکاح کا انشاء هے ( جو توضیح المسائل میں موجود هے ) [5] طرفین کی رضامندی هر چند اس کے ضروری شرائط میں سے هے لیکن تنها رضایت کافی نهیں هے بلکه دوسرے تمام شرائط کے ساتھ هونا چاهئے ۔
خطبه نکاح کے الفاظ کے سلسله میں یه کهنا هوگا که : خداوند عالم نے خطبه نکاح کو مخصوص الفاظ ( ایجاب و قبول) میں ازدواج (شادی) کی ایک شرط قرار دینے کے بعد اس کام کو ایک خشک و بے روح الفاظ کی حا لت سے باهر نکل کر ان الفاظ کو وه منزلت عطا کی هے که انھیں دو اجنبی و نامحرم انسان کے درمیان زوجیت قائم کرنے کے مقدس سبب میں بدل دیا هے ۔ لهذا خطبه (عقد) نکاح کا اس کے مخصوص شرائط (قصد و اراده ازدواج ) کے ساتھ پڑھنا ، جس کے بهت سے مبارک ثمرات نتائج برآمد هوتے هیں ، چار معمولی الفاظ ادا کرنا نهیں هے که کوئی یه کهے که ان چار الفاظ کاکیا اثر هے ! بلکه خطبه (عقد) پڑھنا اسباب نکاح کا ایک جزو هے اور صیغه کے بغیر طرفین کی قلبی رضایت یا صیغه کے بغیر عملی شادی (یعنی عقد کے بغیر صرف رخصتی ) یا کتبی یا اشاره میں صیغه کا اجراء کافی نهیں هے ، هاں وه افراد جو گونگے اور بهرے هیں اور اس کے لئے انشاء صیغه کے لئے وکیل بنانا ممکن نهیں هے ، ایسی صورت میں ان کا اشاره سے صیغه پڑھنا یا صیغه لکھنا ، الفاظ کے ذریعه انشاء صیغه کا جانشین قرار پائے گا [6] ۔
[1] (وَ مـِنْ آیـاتـِهِ اَنْ خـَلَقَ لَکـُمْ مـِنْ اَنـْفـُسـِکـُمْ اَزْواجـاً لِتـَسـْکـُنـُوا اِلَیـْهـا وَ جـَعـَلَ بـَیْنَکُمْ مَوَدَّةًوَ رَحْمَةً)، روم، آیه 21.
[2] (ما بُنِىَ بِناءٌ فِى الاْسْلامِ اَحَبَّ اِلَى اللّهِ عَزَّوَجَلَّ مِنَ التَّزْویجِ)، وسائل الشیعه، ج 20، ص 14.
[3] ر.ک . به : فرهنگ معارف اسلامى ؛ مفردات الفاظ قرآن ، واژه (عقد).
[4] مائده، آیه1.
[5] دیکھئے سوال نمبر1238 (سایت: 1225) (شرایط ازدواج موقت).
[6] تحریر الوسیله، ص 246، ( جو افراد گونگے هیں وه اشاره سے صیغه جاری کریں گے ) ۔