وجود ذہنی، یعنی ذہن میں اشیاء کی حقیقی ماہیت و صورت کا اشیاء کے ذہن سے خارج وجود سے موازنہ۔
اسلامی فلسفہ میں زیر بحث مسائل میں سے ایک وجود ذہنی کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ پر بحث کرنے کے سلسلہ میں دو نظریئے پائے جاتے ہیں: بعض کا اعتقاد ہے کہ وجود ذہنی کی بحث ، ذہن و عین کی مطابقت کو ثابت کرنے کے لیے ہے، اور وجود ذہنی کے باب میں رائج اور مشہور نظریہ یہی ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض کا اعتقاد ہے کہ وجود ذہنی کی بحث، وجود ذہنی کو وجود خارجی کے ساتھ ثابت کرنے کے لیے ہے اور حقیقت میں یہ وجود شناسی کی ایک بحث ہے۔
پہلے نظریہ کے قائل فلاسفہ کہتے ہیں، ماہیتوں کا، خارجی اور عینی وجود کے علاوہ ایک وجود ہوتا ہے، اور اس کا نام وجود ذہنی ہے اور اس پر وجود خارجی کے آثار مترتب نہیں ہوتے ہیں اور وہ وجود ذہنی کو ثابت کرنے کے لیے متعدد دلیلیں پیش کرتے ہیں[1]۔ اس کے مقابلے میں {شرح مواقف میں} میر سید شریف جرجانی جیسے بعض متکلمین، یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ بنیادی طور پر ذہن میں کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔
اسی طرح حکمائے متاخرین میں سے بعض قائل ہیں کہ جو کچھ ذہن میں آتا ہے، وہ اشیائے خارجی کی ماہیت نہیں ہے بلکہ ان کا ایک سایہ ہے۔
ذہن میں اشیاء کی ماہیت پیدا ہونے کے نظریہ پر متعدد اعتراضات کیے گیے ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ طے پائے کہ اشیاء کی خود ماہیت ذہن میں آئے، تو ایک ماہیت کو دو مقولوں کے تحت درج کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم نے انسان کی ماہیت کا تصور کیا ، تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان کی ذہنی ماہیت ، جوہر کے مقولہ کے تحت درج ہو، کیونکہ مفروضہ یہ ہے کہ خود ماہیت ہو بہ ہو ذہن میں آئی ہے اور خارج میں انسان جوہر ہے، اور دوسری جانب لازم آتا ہے کہ ماہیت ذہنی،مقولہ کیف کے تحت درج ہو، کیونکہ ذہن میں آئے تو یہ ایک قسم کا علم ہوگا اور علم بھی مقولہ کیف نفسانی میں سے ہے، چونکہ کیف کی تعریف: "عرضْ لا یقبل القسمة و لا النسبة" اس پر لازم آتی ہے، پس اسے مقولہ جوہر کے تحت بھی ہونا چاہئیے اور مقولہ عرض کے تحت بھی[2]۔ اور دوسری جانب دس مقولات تمام ذات سے متباین ہیں،کیونکہ اگر وہ تمام ذات سے متباین نہ ہوں تو اس کا لازمہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ذات کے ایک حصہ میں شریک ہیں اور وہ نقطہ اشتراک ان کا جنس ہے، جبکہ فرض یہ ہے کہ دس مقولے خود جنس الاجناس ہیں اور ان سے بالاتر کوئی جنس نہیں ہے۔
اس بیان کے پیش نظر، ماہیت دو مقولوں کے تحت نہیں ہو سکتی ہے، یا کہنا چاہئیے کہ بنیادی طور پر کوئی چیز ذہن میں نہیں آتی ہے،جیسا کہ بعض نے یہ بات کہی ہے، یا اگر کوئی چیز ذہن میں آتی ہے، تو وہ شناخت اور ذاتیات کو محفوظ رکھتے ہوئے خارجی ماہیت نہیں ہے اور اگر وہی خارجی ماہیت ہے، تو وجود ذہنی کے کیف ہونے سے انکار کرنا چاہئیے، اور مختصر یہ کہ ان میں سے ایک مقدمہ کو اٹھا لینا چاہئیے، ورنہ تمام مقدمات کے بارے میں ایک ماہیت کو دو مقولوں کے تحت درج کرنے کی مشکل پیش آتی ہے۔
اس بنا پر، اس اعتراض سے بچنے کے لیے ، فلاسفہ نے مختلف طریقہء حل پیش کیے ہیں۔ بعض متکلمین نے وجود ذہنی کا انکار کر کے کہا ہے کہ بالکل کوئی چیز ذہن میں نہیں آتی ہے اور فخر رازی جیسے بعض افراد نے علم کو ذہن اور خارجی معلوم کے درمیان ایک قسم کا اضافہ جانا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جو کچھ ذہن میں آتا ہے وہ بذات خود ماہیت خارجی نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک سایہ ہے اور فاضل قوشجی جیسے بعض افراد نے علم و معلوم کے درمیان تفکیک سے انکار کرنے کی کوشش کی ہے اور جناب صدرالمتالھین نے حمل اولی و حمل شایع صناعی کی کلید سے اعتراض کو حل کرنے کی کوشش کی ہے[3]۔
فلسفہ کے بعض اساتید کا اعتقاد ہے کہ ، وجود ذہنی کے مسئلہ میں جو کچھ صحیح ہے اسے کہنا چاہئیے، اور وہ یہ ہے کہ جسے ہم وجود ذہنی کہتے ہیں، خواہ ماہیت کے امور میں اور خواہ اس کے وجود اور صفات میں ، خواہ عدمی امور میں، صرف ان کا ایک مفہوم ہے کہ جو ذہن میں تشکیل پاتا ہے اور کبھی کوئی خارجی واقعہ ذہن میں منتقل نہیں ہوتا ہے، پس وجود ذہنی کے اشکالات بھی پیدا نہیں ہوتے ہیں[4]۔
علامہ حسن زادہ آملی بھی یہی فرماتے ہیں کہ: مرجع علم، وجود ہے اور حقیقت میں علم، وجود کی طرف رجوع کرتا ہے، اور وجود کے ذریعہ ہی اشیاء منکشف ہوتی ہیں، لیکن چونکہ علم ایک نفسانی حالت ہے اور نفس کی صفتوں میں سے ایک صفت ہے، قدرت و ارادہ کے مانند نہیں تھا اور بعد میں وجود میں آیا ہے اور تقسیم اور نسبت کی قابلیت نہیں رکھتا ہے، یہ نفسانی کیفیت ہے[5] اور حقیقت میں وجود ذہنی، اشیاء کی ماہیت اور ذہنی صورت کا، ذہن سے خارج وجود سے موازنہ ہے، ذہن سے خارج رکھنے کے باوجود، لیکن اگر صورت ذہنی خارج سے موازنہ کیے بغیر لحاظ کی جائے، بلکہ اس کو ثابت کرنے کے لیے نفس میں اس کا لحاظ کیا جائے، تو خارجی ہے، چونکہ نفس کے ساتھ اتحاد وجودی پیدا کرتا ہے اور اس کے بعد وجود ذہنی شمار نہیں ہوتا ہے، اور اس لحاظ سے علم کا مرجع، وجود کی طرف ہے اور مقولات کے دائرہ سے خارج ہے[6]۔
اس بنا پر، جس چیز کو ہم ذہنی صورت کی نسبت دیتے ہیں وہ سب مختلف اعتباروں کے مطابق ہے، ایک اعتبار سے علم ہے، ایک اعتبار سے وجود ذہنی ہے ، ایک اعتبار سے بالعرض کی کیفیت ہے،ایک اعتبار سے بالذات کی کیفیت ہے، اور ایک اعتبار سے مقولات سے خارج اور کسی مقولہ کے تحت نہیں ہے[7]۔
ایک مفہوم کو ایک مقولہ کے تحت درج کرنے کے لیے دو شرطوں کی ضرورت ہوتی ہے:
۱۔ مقولہ کا صدق{سچا} ہونا
۲۔ آثار کا مترتب ہونا
اس بنا پر جس لحاظ سے یہ دو شرائط متحقق ہوں، تو اس چیز کو اسی اعتبار سے اس مقولہ کے تحت درج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ان شرائط میں سے ایک یا دونوں متحقق نہ ہوں تو وجود کو درج کرنے کے لیے کوئی مصحح نہیں ہوگا۔
اس بنا پر صورت ذہنی، ایک اعتبار سے کہ نفس کے لیے حاصل ہوئی وجود کی ایک قسم ہے، صورت علمی اور بالذات نفسانی کیفیت ہے۔ اور اس لحاظ سے کہ صورت ذہنی، خارج اور خارج کی گزارش دینے والی ہے، وجود ذہنی اور پہلی صورت میں معلوم مقولہ ہے اور شایع کے لحاظ سے، صورت ذہنی اور بالعرض کیفیت ہے جو بالذات کیفیت پر منتہی ہوتی ہے اور اس لحاظ سے کہ ذہنی صورتوں کا مرجع وجود ہے، مقولات سے خارج ہے اور کسی مقولہ کے تحت نہیں ہوتی ہے، کیونکہ مذکورہ وجود، مقولہ ہے۔
لیکن جو یہ کہا جاتا ہے کہ علمی صورتیں قطعاً مقولہ کی کیفیت کے تحت ہیں،یہ ایک مسامحہ ہے، کیونکہ ذہنی طور پر وجود صورت علمی، کا وجود، نفس واحد کے لیے ہے[8]، کیونکہ دو وجود نہیں ہیں، کہ ان میں ایک عارضی ہو اور دوسرا معروض، بلکہ صورت علمی اور نفسی دونوں ایک وجود سے موجود ہیں اور وجود میں کوئی تعدد نہیں ہے کہ ایک کی جہت جوہری ہو اور دوسری کی عرض۔ اس بنا پر صورت علمی مسامحت کے طور پر کیفیت ہے نہ کہ حقیقت میں، کیونکہ جب نفس کے لیے صورت علمی حاصل ہوتی ہے، نفس کی وجہ سے اتحاد وجودی حاص ہوتا ہے کہ ہم اس کا نام عاقل کا معقول سے یا عالم کا معلوم سے اتحاد رکھتے ہیں۔ اب ہمیں اس پر بحث کرنی چاہئیے کہ اس اتحاد سے فلاسفہ کی مراد کیا ہے؟ اور کونسی چیز کس چیز کے ساتھ متحد ہوتی ہے؟
اس امر کی ابتداء میں چھ صورتیں قابل تصور ہیں:
۱۔ ہماری ماہیت، معلوم کی خارجی ماہیت سے متحد ہوتی ہے۔
۲۔ ہمارا وجود، معلوم کی خارجی ماہیت سے متحد ہوتا ہے۔
۳۔ ہماری ماہیت، معلوم کے خارجی وجود سے متحد ہوتی ہے۔
۴۔ ہماری ماہیت، ذہنی معلوم کی ماہیت سے متحد ہوتی ہے۔
۵۔ ہماری ماہیت، معلوم وجود ذہنی سے متحد ہوتی ہے۔
۶۔ ہمارا وجود معلوم ذہنی وجود سے متحد ہوتا ہے۔
مذکورہ چھ مفروضوں میں سے، آخری مفروضہ فلاسفہ کی مراد ہے کہ ہمارا وجود معلوم ذہنی وجود سے متحد ہوتا ہے ، اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دو وجود آپس میں متحد ہوتے ہیں، سے مراد یہ ہے کہ نفس کا عالم ہونا اس کے "وہ" ہونے کے معنی میں ہے، یعنی جب نفس عالم ہوتا ہے ایک "ہونے" کی حالت اور ایک "صیرورت" کی حالت ہوتی ہے۔ نفس کا عالم ہونا اس معنی میں ہے کہ نفس اپنی جگہ پر ثابت و خاموش نہیں بیٹھا ہے اور مرتب اس پر نقوش درج ہوتے ہیں، بلکہ نفس، ہر عالم ہونے سے ایک چیز ہوتا ہے، یعنی اس چیز کا وجود بن جاتا ہے، لہٰذا اس وجود علمی کی نفس سے نسبت، مادہ سے صورت کی نسبت ہے نہ کہ عرض کی موضوع سے نسبت۔
[1]. سبزواری، حاج ملا هادی؛ شرح منظومه؛ جلد 2؛ ص 124؛ طبع اول نشر ناب؛ تهران؛ 1413؛ ھ
[2]. ایضاً؛ ص 126، 127
[3].ملا صدرا؛ حكمت متعالیه؛ جلد 1؛ ص 292؛ چاپ چهارم؛ داراحیاء التراث العربی؛ بیروت؛ 1410؛ ھ
[4]. فیاضی؛ غلامرضا؛ وجود ذهنی در فلسفه اسلامی؛ فصل نامه تخصصی مركز پژوهشی دائرة المعارف علوم عقلی اسلامی؛ شماره 6؛ تابستان 1386 ھ ش
[5]. علامه حسن زاده املی؛ حسن؛ النور المتجلی فی الظهور الظلی؛ ص 150؛ طبع سوم؛ مؤسسه بوستان كتاب؛ قم؛ 1387؛ ھ
[6]. ایضاً؛ ص 150
[7].ایضاً ص 64
[8].ایضاً ص 156