معاد، جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی، جو کچھ انسان کے جسمانی معاد کے بارے میںکہا جاتا ہے، وہ انسان کے بدن کے اصلی اجزاء کا دوبارہ پلٹنا ہے۔ اصلی اجزاء ، وہ اجزاء ہیں، جن کے بارے میں بعض احادیث کی کتابوں میں طینت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس تعریف کے پیش نظرکہ، جب تمام انسان مرتے ہیں اور ختم ہوتے ہیں، روایات کے مطابق جو کچھ اس کے بعد باقی بچتا ہے، وہی طینت اور اصلی اجزاء ہیں اور جو چیز عالم آخرت میں جاتی ہے، وہ بھی انسانوں کی یہی طینت ہے۔ پس، جسمانی معاد کے لیے کرہ زمین کی مزید مٹی کی ضرورت نہیں ہے، کہ ہم کہیں کہ تمام انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے لیے زمین کی مٹی کافی ہے یا نہیں ؟؛
معاد کی اہم بحثوں میں سے ، معاد کے جسمانی اور روحانی ہونے کے لحاظ سے کیفیت کی بحث ہے کہ اس سلسلہ میں اسلامی فلاسفہ اور متکلمین نے تین نظرئیے پیش کیے ہیں:
۱۔ صرف جسمانی معاد { روح کو بھی ایک لطیف جسم تصور کرتے ہیں}
۲۔ صرف روحانی معاد
۳۔ دونوں کا اعتقاد: قیامت میں روح اور بدن دونوں محشور ہوں گے، اور جسمانی لذتوں اور درد کے علاوہ روحانی اور عقلی لذتیں اور درد بھی متحقق ہوں گے۔
معاد کا متحقق ہونا صرف عقلی دلائل سے بھی ثابت ہوتا ہے اور ان دلائل سے بھی ثابت ہوتا ہے ، جو عقل و روایات پر مشتمل ہیں۔ لیکن علماء کا اختلاف معاد کے روحانی اور جسمانی ہونے کے بارے میں ہے اور یہ اختلاف بعض اشکالات کی وجہ سے ہے جو ان میں سے ہر ایک کے بارے میں پیش کیے جاتے ہیں اور ہم اس مختصر مقالہ میں ان کی مکمل تحقیق اور تنقید سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اس وقت معاد کے روحانی ہونے پر کوئی بحث نہیں ہے بلکہ معاد کے جسمانی ہونے اور اس کے متحقق ہونے کی کیفیت پر بحث ہے۔ روحانی معاد، خداوندمتعال کے عدل ، حکمت اور رحمت کا تقاضا ہے۔
جسمانی معاد بھی مختلف طریقوں سے ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید اور روایتوں میں بعض اخروی جزائیں جزئی اور حسی ہیں اور یہ دنیوی جسم کے پلٹنے کی دلیل ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا جسمانی معاد، عین اسی دنیوی جسم کا اس کے تمام خصوصیات کے ساتھ پلٹنا ہے یا یہ کہ اس کے ساتھ تفاوت ہوگا؟
جس چیز کی قرآن مجید تائید کرتا ہے، وہ بالکل اسی دنیوی جسم کا پلٹنا ہے اور اس سلسلہ میں واضح ترین آیات حضرت ابراھیم{ع} کے، مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت کے بارے میں بارگاہ الہٰی سے درخواست کرنا ہے اور خداوند متعال نے انھیں دکھایا کہ کس طرح منتشر ہوئے بدنون کو وہ دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ حضرت عزیر{ع} کی داستان بھی ایسی ہی ہے۔ اسی طرح مردوں کو زندہ کرنے کی زمین کو زندہ کرنے سے تشبیہ دینا وغیرہ بھی جسمانی معاد کے دلائل ہیں۔
لیکن اس سے اجزائے فضلہ کا پلٹنا ثابت نہیں ہوتا ہے، کیونکہ اس سلسلہ میں بنیادی سوال جو ممکن ہے کہ ہر شخص کے ذہن میں پیدا ہو جائے وہ یہ ہے کہ یہ مادی جسم ، جو ہمیشہ ، تغیر و تبدل اور بود و نابود ہونے کی حالت میں ہے، کیسے ایک ایسے عالم میں جائے ، جس کے بارے میںکہا گیا ہے کہ وہاں پر کسی قسم کا نابود اور تغیر نہیں ہے، بلکہ فلسفیانہ تعبیر کے مطابق فعلیت محض ہے اور اس عالم میں کوئی قوت نہیں ہے؟
اس مفروضہ کے پیش نظر، کہا گیا ہے کہ معاد میں جسمانی معاد کا پلٹنا اس طرح ہے کہ، ضروری نہیں ہے کہ انسان کے اجزائے فضلہ بھی تمام مادی عوارض کے ساتھ پلٹ جائیں۔ یہ اس اعتراض کی تائید ہے کہ جو فاسد ہونے والے عناصر کے قیامت کی دنیا میں عدم وجود کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ اگر ہم کہیں کہ یہی جسم اپنے تمام عوارض و اشیائے فضلہ کے ساتھ واپس لوٹے گا تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ ہم عالم ہستی کے بالاترین مراتب کو قید سے مقید کریں گے جو پست ترین عالم یعنی عالم طبعیت میں موجود ہے؛
لہٰذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جبرئیل{ع} ، جو مجرد جوہر ہے، جب عالم طبعیت میں نازل ہوتا ہے تو ایک جسمانی صورت میں نازل ہوتا ہے کیونکہ وجود کے ہر مرتبہ کے خاص احکام ہوتے ہیں۔
اب، ان دو عالموں کے باہمی تفاوت کے پیش نظر کہ مادی دنیا کے تمام لوازمات کو اخروی مادہ کے لیے {اور اس کے برعکس} ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے ، چنانچہ دنیا میں موجود پانی، کبھی خارجی عالم کے اثرات سے اپنے رنگ و بو میں تغیر پیدا کرتا ہے، لیکن قرآن مجید کی صراحت کے مطابق بہشت میں موجود پانی میں کبھی تغیر پیدا نہیں ہوتا ہے اور یہ آخرت کے برتر اور مکمل تر شرائط کی وجہ سے ہے[1]۔ ہمیں کہنا چاہئیے کہ جسمانی معاد میں، جسم وہی جسم ہے ، لیکن وہاں پر جسم کی نوعیت اس دنیا کے جسم کی نوعیت سے فرق رکھتی ہے اور اجزائے فضلہ جسم سے جدا ہوں گے اور وہاں پر صرف اصلی اجزاء ہوں گے۔
بہت سے علماء نے اس باب میں جسمانی معاد کی صراحت کی ہے کہ مکلف کے فواضل{اجزائے فضلہ} کے واپس لوٹنے کا امر اسلامی اعتقاد کے مطابق واجب نہیں ہے[2]:
خواجہ نصیرالدین طوسی اپنی کتاب "تجرید" میں فرماتے ہیں کہ: والضرورة قاضیة بثبوت الجسمانی من دین محمد "ص" مع امکانه، و لایجب اعادة فواضل المکلف؛ "جو ضروریات مذہب مِں سے ہے ، وہ دین محمد{ص} میں جسمانی معاد کا ثبوت ہے اور مکلف کے لیے اجزائے فضلہ کا لوٹنا واجب نہیں ہے۔"
تجرید کے شارح، قوشجی،محقق اردبیلی،علامہ حلی اور سید اشرف بن عبدالحبیب الحسینی )رح( نے ،بھی اپنی شرحوں میں اسی عبارت کی صراحت کی ہے۔
سید عبداللہ نے مصابیح الانوار میں، اور علامہ دوانی نے " شرح عقائد العضدیہ" میں اور ملا مھدی نراقی{رح} نے " مشکلات العلوم فی بیان موثقۃ عمارالساباطی" میں بھی اصلی اجزاء میں تبدیل ہوئی طینت کے باقی رہنے کو ضروری سمجھا ہے کہ یہی طینت ہے، جو قیامت میں جسم اخروی کے عنوان سے اٹھے گی۔
یہاں پر ہم عمار ساباطی کی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
سُئِلَ عَنِ الْمَيِّتِ يَبْلَى جَسَدُهُ قَالَ نَعَمْ حَتَّى لَا يَبْقَى لَهُ لَحْمٌ وَ لَا عَظْمٌ إِلَّا طِينَتُهُ الَّتِي خُلِقَ مِنْهَا فَإِنَّهَا لَا تُبْلَى تَبْقَى فِي الْقَبْرِ مُسْتَدِيرَةً حَتَّى يُخْلَقَ مِنْهَا كَمَا خُلِقَ أَوَّلَ مَرَّةٍ[3]"
"امام معصوم{ع} سے سوال کیا گیا: کیا میت کی لاش سڑتی ہے؟ فرمایا: جی ہاں،یہانتک کہ نہ اس میں گوشت باقی رہتا ہے نہ کوئی ہڈی ،مگر یہ کہ وہ طینت باقی رہتی ہے کہ {ابتدا میں} اس سے {انسان} خلق ہوا تھا اور یہ طینت نہیں سڑتی ہے بلکہ قبر میں باقی رہتی ہے یہاں تک کہ {انسان} اس سے دوبارہ خلق ہوتا ہے جس طرح وہ پہلی بار خلق ہوا تھا۔"
شاید فرض کیا جا سکتا ہے کہ ایک انسان کے تمام جسمانی کوائف، جو ایک مالیکیول بھی ہو سکتا ہے، ذخیرہ ہو اور اس سے استفادہ کر کے ، قیامت کے دن دوبارہ جسم وجود میں آئے اور یہ موضوع تعجب خیز نہیں ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ تقریباً انسان کی تمام خصوصیات اس کے بدن کے خلیوں کے جین میں موجود ہیں اور شبیہ سازی بھی اسی طبیعی حافظہ سے استفادہ کر کے انجام پاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کو پیدا کرنے والا پروردگار اس حافظہ کو دقیق تر اور ایک ایٹم کی صورت میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔
ان بیانات کے پیش نظر کہ معاد جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی اور جسم کے صرف اصلی اجزاء دوبارہ لوٹتے ہیں نہ کہ اجزائے فضلہ ، واضح ہوتا ہے کہ جسمانی معاد کے لیے مزید مٹی کی ضرورت کا کوئی موضوع نہیں ہے کہ ہم کرہ زمین کی مٹی کے معاد کے لیے کافی ہونے یا نہ ہونے پر بحث کریں، کیونکہ جو جسمانی معاد میں زیر بحث ہے، وہ بدن کے اصلی اجزاء ہیں۔
اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لیے ہماری اسی سائٹ کا مندرجہ ذیل عنوان ملاحظہ ہو:
"چگونگی حشر انسانہی کہ خارج از زمین می میرند" سوال: 21500{سائٹ: 20666}
[1] علی ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ج2، ص 246، مرکز نشر هاجر"وابسته به مرکز مدیریت حوزه های علمیه خواهران"، 1387ھ ش
[2] الاسکوئی الحائری ، الحاج میرزا موسی ، احقاق الحق، ص 17 الی 24، مطبعة النعمان النجف الاشرف، طبع دوم، 1358 هجری – 1965 ء
[3] کلینی، الکافی، ج3، ص251، دارالکتب الاسلامیة، تهران.