گاڑی کے مانند کسی مال کی ادھا پر اس کی نقد قیمت سے زیاده رقم پر خرید و فروخت صحیح هے لیکن آپ کے سوال کا دوسرا حصه چونکه قرضه پر سود هے، اس لئے حرام هے ـ
اگر کسی مال (جیسے گاڑی) کو ادھار کے طور پر اس کی نقد قیمت سے زیاده قیمت پر بیچا یا خریدا جائے (بیچنے والا قیمت ابتداء میں کهتا هے اس مال کی نقدی قیمت یه هے اور اس کی ادھار یا قسطی قیمت اس قدر زیاده هے اور خریدار بھی اسے قبول کرتا هے که ادھار یا قسطوں کی صورت میں اس مال کو زیاده قیمت میں خرید لے) تو شرعی لحاظ سے یه صحیح هے اور یه سود نهیں هے ـ
حضرت آیت الله العظمیٰ خامنه ای مد ظله العالی نے اس سلسله میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا هے: " کسی مال کو اس کی نقدی قیمت سے زیاده قیمت پر ادھار خرید نے میں کوئی حرج نهیں هے اور نقد و ادھار کے در میان قیمت کا تفاوت سود حساب نهیں هوتا هے[1] ـ "
لیکن اگر کسی سے کوئی رقم قرضه پر لی جائے اور اس رقم سے گاڑى خریدى جائے اور قرض دینے والا شرط لگائے که اس مبلغ کو واپس لیتے وقت قرض لینے والے سے اصل رقم سے زیاده ایک رقم نفع کے عنوان سے لے گا، تو یه قرضه پر سود هے اور حرام هے ـ
حضرت آیت الله العظمیٰ خامنه ای نے قرضه پر سود کی ماهیت کے بارے میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا هے :" قرضه پر سود، قرض کی مبلغ وه اضافى رقم هے که قرض لینے والا قرض لینے کى وجه سے قرض دینے والے کو ادا کرتا هے ـ[2] "