دین، ایک مقدس الٰهی امر هے، جس میں خطا، اشتباه اور صدمه کی گنجائش نهیں هے ـ اشتباه اور خطا کاری انسانی امور سے مربوط هیں اور دین اور دینداری کی آفت شناسی کی بحث میں صدمه و آفت دین کى حقیقت سے مربوط نهیں هیں بلکه لوگوں کے دین کے بارے هیں عمل، فهم اور اور تصور اور دینی معرفت کی قسم اور دینداری کے طریقه سے مربوطه هے ـ
دین کی آفتوں کى مختلف قسمیں هیں، کیونکه دین کی آفتوں هیں سے کچھـ ایسی آفتیں هیں جو دیندار اور متدین شخص کے ایمان سے مربوط هیں اور یهی آفتیں بعض اوقات دین کی معرفت کے مرحله میں هوتی هیں (دین کی تحقیقی سے مربوط آفتیں) اور کبھی یه آفتیں احکام اور دستورات پر عمل کرنے اور احکام و حدود و حقوق کی رعایت کرنے سے مربوط هوتی هین که دین نے ان کی رعایت کرنے کو واجب قراردیا هے، مثال کے طور پر حسد، تکبر اور غرور ـ دین کی آفتوں کی دوسری قسم، وه آفتیں هیں جو دین کے اجتماعی مسائل سے مربوط هیں، جیسے: خرافات، تحریفات اور شخصی ذوق کے مطابق عمل کرنا، و غیره، یه چیزیں دین کے تحفظ اور پھیلا و کے لئے خطرات هیںـ
دین انسان کى هدایت کے لئے، خدا کی رحمانیت کا خوبصورت ترین جلوه هے اور دینداری اس رحمانیت پر عمل اور اس هدایت کی راه پر قدم بڑھاناهےـ اس راه میں همیشه دین و دینداری کی آفتوں کی صورت میں کچھـ راهزن اور ڈالکو گھات لگائے بیٹھے هیں، که ان کو پهچاننا اور دینداری کو ان سے بچانا اس سفر کے اهم آداب میں سے هے ـ
البته دین، ایک عالی حقیقت اور مقدس امر هے، اور اس لحاظ سے آفت و صدمه پهنچنے سے بالاتر هے ـ دوسرے الفاظ میں الٰهی امور میں خطا، اشتباه، صدمه اور آفت کی گنجائش نهیں هے ـ اشتباه و خطاکاری انسانی امور سے مربوط هیں اور دین ودینداری کی آفت شناسی کی بحث میں صدمه و آفت دین کی حقیقت سے مربوط نهیں هیں بلکه لوگوں کے دین کے بارے میں عمل، فهم اور تصور اور دینی معرفت کی قسم اور دینداری کے طریقه سے مربوط هیں ـ یه امور همیشه اختلاف، صدمه اور آفت کے زدیں هوتے هیںـ دینداری میںمرحله معرفت بھی هے اور عمل، یعنی فکر، معرفت، باور اور دینی ایمان کے علاوه اقرار، کردار اور دینی طرز عمل بھی هے ـ
آفتوں کے ذریعه دینداری کو صدمه پهنچنےکى وجه سے ، انسان کی قدریں اور اجتماعی برتاٶ کی سرحدیں متزلزل هوتی هیں اور قسم قسم کے ظلم، تجاوز اور تباهیاں پیدا هوتی هیں ـ دینداری کا فقدان، گوناگون امور میں ظلم و تعدی کا سبب بن جاتا هے ، کیونکه دین کی شان انسان کو مختلف میدانوں میں بچانا هے اور دین انسان کو تباهی و نابودی سے دوچار هونے سے بچاتاهے ـ اگر دین سالم هو تو انسان کی بهترین صورت میں حفاظت کرتا هے اور اسے صحیح راه پرگامزن هونے کی هدایت کرتا هے اور اسے تحفظ بخشتا هے ـ صحیح راه پر گامزن هونے کی هدایت کرتا هے اور اسے تحفظ بخشتا هے ـ جس قدر دین سالم اور قوی هو انسان بھی اسی قدر زندگی میں سالم اور قوی هو گا ـ دین اور دینداری کی قدریں پامال هونے سے انسان کی تمام چیزیں صدمه اور آفتوں کی زدمیں قرار پاتی هیں ـ
اس نکته کے پیش نظر، ایک کلی تقسیم بندی میں دین اور دینداری کی آفتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا هے:
1ـ دیندار و متدین شخص کے ایمان سے مربوط آفتیں:
پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے افراد کے ذاتى ایمان کى تعریف میں فرمایا هے: " ایمان، دل سے پهچاننا، زبان سے اقرار کرنا اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنا هے[1] "
یه سب پهلو، یعنی فکر، دینی اعتقاد و ایمان، کردار، اور دینی سلوک، آفتوں اور صدموں کی زدمیں قرار پاتے هیںـ ان مباحث میں آفت کا مفهوم عیب و نقص کا ظاهر هونا عادی حالت سے خارج هونا اور تباهی کا پیدا هونا هے ـ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم، امیر المومنین علیه السلام اور دوسرے ائمه معصومین علیهم السلام کے بیانات میں دین کی آفتوں کے عنوان سے متعدد امور معرفی کئے گئے هیں، که هم یهاں پر ان میں سے بعض کی طرف اشاره کرتے هیں:
الف) هوس پرستی: پیغمبر اسلام صلی الله علیه آله و سلم نے فرمایا: " هوس آفت هے[2] "
ب) دنیا پرستی: پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: " دین کی بربادی، دنیا پرستی هے[3] "
ج) بدگمانی: حضرت علی علیه السلام نے فرمایا: " دینداری کی آفت (خداوند متعال کے بارے میں) بدگمانى هے[4] "
د) جھوٹ: حضرت علی علیه السلام نے فرمایا: " بهت سے جھوٹ دین کو برباد کرتے هیں[5]"
ھـ) حسد و کینه: حضرت علی علیه السلام نے فرمایا: " حسد، جھوٹ اور کینه کو چھوڑ دو، کیونکه یقیناً یه تین خصلتیں دین کو معیوب کرتی هیں[6]ـ"
و) تکبر اور غرور: امام صادق علیه السلام نے فرمایا: " حسد، تکبر اور غرور دین کی آفتیں هیں[7]"
واضح هے که مذکوره روایات کے کے بارے میں کسی قسم کا تضاد نهیں هے اور جو چیزیں ان احادیث میں دین کی آفت کے عنوان سے شمار کی گئی هیں محدود و انحصارى نهیں هیں، یعنی امام (ع) کا مراد یه نهیں تھا که صرف بدگمانی یا حسد یا تکبر یا غرور و غیره دین کی آفتیں هیں اور اس کے علاوه کچھـ نهیں هے، بلکه جو کچھـ ان روایتوں میں ذکر هوا هے، وه دین کی آفتوں کے کچھـ نمونے هیں اور حقیقت میں کهنا چاهئے که هر وه چیز حو کسی نه کسی طرح دین کو خطره سے دوچار کرے وه دین کی آفت هے اور احادیث میں ان کے اهم ترین موارد کی طرف اشاراه کیا گیا هے ـ
2ـ وه آفتیں جو دین کو اجتماعی میدان میں خطره سے دوچار کرتے هیں اور دین کے حقیقى چهره کو مسخ کرکے رکھدیتى هیں: مثال کے طور پروین میں زهد و تقویٰ کو غلط صورت میں سمجھنا، انسان کو زندگی کی فطری حالت سے خارج کرکے افراط و تفریط سے دوچار کرنے کا سبب بن جاتا هے ... اسی طرح قضا و قدر، توکل، انتظار فرج، صبر، شفاعت، تقیه اور ایسے هی دوسرے امور کو غلط صورت میں سمجھنا، دین اوردینداری کو نقصان پهنچنے کا سبب بن جاتا هے ـ مذکوره معنی میں آفتوں کی مختلف صورتیں اور گوناگون مراتب هیں اور ان میں شدت اور ضعف بھی پایا جاتاهے ، اس طرح که مندرجه ذیل صورتوں اور ان کے مانند دوسرے امور کو مد نظر رکھتے هوئے ان کے مراتب اور شدت و ضعف کو ملحوظ نظر رکھا جا سکتا هے :
دین اور دینی سلوک کے بارے میں عمیق فهم کا فقدان
دینی مفاهیم کی غلط تعبیر کرنا،
دینی اعتقادات اور طریقه کار میں ضعف پیدا هونا
اخلاقی اصولوں میں سستی پیدا هونا
دینی قدروں کی قدر و قیمت گر جاناا
دین اور مذهبی امور کے بارے میں بد اعتقادی کا پھیلنا
هر دینی و مذهبی امر سے دورى اختیار کرنا
پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: " تین چیزیں دین کی آفت هیں:
الف) بد عمل، فاسق اور فاجر دانشور ب) ظالم رهبر و پیشوا ج) نادان مقدس[8] ـ"
اس کے علاوه دین میں خرافات اور بدعتوں کو شامل کرنا، تنگ نظری، دوسرے اسلامی فرقوں کے نظریات کو برداشت نه کرنا اور ان پر گمراهی، شرک اور کفر کا اتهام لگانا، دین کا متشدد اور غیر واقعى چهره ظاهر کرنا، انسانى معاشره میں دین کى بقاء اور اس کے پھیلاٶ کے لئے بڑى اور خطرناک آفتیں هیں ـ
مذکوره دین اور دینداری کى آفتوں کو ایک دوسرى صورت میں دین کی اندرونی آفتوں اور دین کی بیرونی آفتوں میں تقسیم کیا چا سکتا هے ـ دین کی اندرونی آفتوں کا مراد وه آفتیں هیں جو ایک صورت میں دین کے طریقه کار، دین کے تصور اور دینی معرفت کی قسم اور دینداری کے طریقه کار سے مربوط هیں، جیسے دین میں جیرو اکراه، دین کو غلط سمجھنا، هدایت و تربیت میں توانائى کا فقدان اور اسی کے مانند دوسرے مواردـ اور دین کى اندرونی آفتوں کا مراد، وه آفتیں هیں جو اجتماعى، اقتصادی، سیاسی عوامل سے منسلک هو کر دین سے مربوط هوتی هیں ـ
[1] صدوق، الخصال، ج1،ص:178 239... عن علی بن ابی طالب ع قال،"قال رسول الله( ص) الا یمان معرفه بالقلب و اقرار باللسان و عمل بالارکان"
[2] کنزل العمال، خبر 44121
[3] تحریر المواعظ العددیھ ، ص 21؛ آفه الدین الھوی.
[4] تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، ص263ـ5669؛ قال علی (ع): آفه الدین سوء الظن (101/3).
[5] تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، ص 221ـ 4421؛ کثره الکذب تفسد الدین و یعظم الوزر (597/4).
[6] تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، ص 299، دع الحسد و الکذب و الحقد فانھن ثلاثه تشین الدین و تھلک الرجل (19/4)
[7] الکافی، ج 2، ص 307 5؛ آفه الدین الحسد و العجب و الفخر.
[8] کنزالعمال، خبر 28954.