رسالہ ’’ صفیر سیمرغ ‘‘کے مصنف شہادب الدین یحیی ابن جشن بن امیرک ابوالفتوح سہروردی معروف بہ ’’شیخ اشراق‘‘ہیں۔
صفیر کے معنی ہر لمبی آواز با صدا کے ہیں جو نرم اور تلفظ کے بغیر ہو اور دو لبوں کے درمیان سے نکلے ۱ اور ’’سیمرغ‘‘ ایک انسانوی پرندہ کا نام ہے جو پرندوں کا بادشاہ تھا ؛ اور عرفان میں یہ پیر (بوڑھے) یا انسان کامل کا کنایہ ہے اس پرندہ اور دوسرے پرندوں کی داستانیں فارسی ادبیات اور عرفانی کتابوں میں متعدد طریقوں سے بیان ہوئی ہیں
شیخ اشراق نے اس رسالہ میں عرفانی سیر و سلوک کو بیان کیا ہے اور سالک الی اللہ (خدا کی جانب راہ کے کرنے والے )کے روحی حالات ؛پیش آنے والے مواقع اور خطرات اور اس راہ میں موجود رکاوٹوں کو بیان کیا ہے
رسالہ’’ صفیر سیمرغ ‘‘ کے مصنف شہاب الدین یحیحی ابن جشن بن امیرک ابوالفتوح سہرودی معروف بہ شیخ اشراق ‘ ہیں یہ رسالہ فارسی زبان میں لکھا گیا ہے ۔ رسالہ کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے[1]
- ’’ صفیر ‘‘ ہر لمبی اور نرم آواز اور صدا کو کہتے ہیں جو تلفظ کے بغیر دو لبوں کے درمیان سے نکلے[2] ’’سیمرغ‘‘ ایک پرندہ کا نام ہے جو انسانوی پرندوں کا بادشاہ ہے اس کی اور دوسروں کی فارسی ادبیات اور عرفانی کتابوں میں متعدد طریقوں سے بیان ہوئی ہے [3]
- سیمرغ؛ عرفان میں ایک ذوقی اصلاح ہے جو کنایہ ہے [4] پیر یا انسان کامل کا ۔[5]
- مصنف نے اس کتاب میں عرفانی سیرو سلوک کو بیان کیا ہے اور اس میں سالک الی اللہ کے روحی حالات اس راہ میں پیش آنے والے مواقع نیز اس راہ میں موجود خطرات اور رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے شیخ اشراق اس رسالہ کے ایک حصّہ میں بیان کرتے ہیں ’’ میں مقدمہ میں عرض اس پرندہ بزرگوار ( سیمرغ) کے حالات بیان کرتا ہوں کہ روشن ضمیروں نے اسکا ذکر یوں کیا ہے کہ جس وقت ( ہدہد[6] جو موسم بہار میں اپنا آشیانہ چھوڑ کر باہر نکلنا ہے اور اپنی چونچ سے اپنے پیروں کو نوچتا ہوا کوہ قاف کا رخ کرتا ہے ) کوہ قاف سایہ اسپر پڑتا ہے تو ہزار سال کی مقدار کے برابر یہ وقت کہ جو ’’ وانّ یوماً عند ربّک کالف سنتہٍ مّما تعدّون‘‘[7] اور یہ ہزار سال حقیقت کی تقویم میں ایک وقت صبح کے مانند ہے جو حالاہوت اعظم کے مشرق سے طلوع ہوتی ہے اس وقت وہ پرندہ سیمرغ ہو جاتا ہے جس کی صغیر سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرتی ہے اس کا آشیانہ کوہ قاف ہوتا ہے اور اس کی صغیر تمام لوگوں تک پہنچتی ہے لیکن اس کے سننے والے کم ہیں ۔ سب اس کی آواز سنتے ہیں لیکن بیشتر لوگ اس کے ہمراہ نہیں ہیں [8]
اس رسالہ کے دو باب ہیں اور ہر باب میں چند فصلیں ہیں ۔ پہلا باب بحث کے ابتدائیات سے مربوط ہے جس میں تین فصلیں ہیں
۱- اس علم (عرفان ) کی افضلیت ‘‘۲- جو باتیں شروع کرنے والوں پر ظاہر ہوتی ہیں ۳- ’’سکینہ‘‘[9] (یعنی سکون واطمنان کے منزل)
نمونہ کے طور پر اس کی دوسری فصل ان لوگوں سے مربوط ہے جوالہی سیرو سلوک کی راہ کے آغاز میں ہیں اور ریاضت وذکر میں مشغول ہیں ۔ سالکان الی اللہ کے اس گروہ پر الہی انوار ظاھر ہوتے ہیں ۔ شیخ اشراق اس قسم کو ’’ جو کچھ اس راہ کے مبتدیوں پر ظاھر ہوتا ہے ‘‘ تعبیر کرتے ہیں [10]
دوسرا باب ؛ بحث کے مقاصد سے متعلق ہے اور اس میں تین فصلیں ہیں : ۱ (فنا) ۲ جو زیادہ عالم ہے ؛؛ ۳ ’’بندہ کے لئے حق کی لذّت کا اثبات‘‘[11]
[1] فرھنگ ابحدی عربی۔:فارسی ص۵۵۵ واژہ صفرّ’’اور ص۵۵۶ واژہ’’الصغیر ‘‘المفردات فی غریب القران ص۴۸۷ ’’واژہ الصغیر‘‘ لسان العرب ج ۴ ص ۴۶۰ واژہ ’’الصغیر‘‘
[2] گذشتہ حوالہ
[3] اس بارے میں سائٹ www.noormags.com میں پرندہ ٗ سیمرغ سے متعلق مقالات کی طرف رجوع کریں ۔ مثلاً ۔۔: منزوی ؛ علی نقی ؛؛ ’’سی مرغ و سیمرغ ‘‘ شفیعی کدکنی ،محمد رضا’’سی مرغ‘‘- نجومی ،مهتاج ،’’سی مرغ استوره ای سایه گسترد بر فرهنگ ایرانی‘‘- نوروزی بناه ،علی،’’سیمرغ‘‘‘
[4] عرفان میں پیر عارف کامل کےمعنی میں ہے اور کنایہ ہے کہ وه زمانہ پر احاطہ رکهتا ہے ، نہ یہ کہ سن کہ اعتبار سے بوڑها ۔
[5] سجادی ،سید جعفر ،فرهنگ ومعرف اسلامی،ج 2 ص1030 انتشارات دانشگاه تهران ،چاپ سوم،1373 ش
[6] سالک الی الله کا رمز ہے
[7] ’’اور ایک دن تمارےپروردگار کےنزدیک ایک ہزار سال کےمانند ہے جو تم شمار کرتے ہو‘‘ – (حج/34)
[8] شیخ الشراق ،مجموعہ تضیفات شیخ اشراق،تصیح ومقدمہ : ہنری کوربن ونصر،سید حسین وحبیبی ،نجفقلی ،ج 3 ص 314 اور ص 315- موسسہ مطالعات و تحقیقات فرهنگی تہران ، چاپ دوم – 1375 ش
[9] گذشتہ حوالہ ص 316
[10] گذشتہ حوالہ ص 319
[11]گذشتہ حوالہ ص316