اوّل یه که انسان کی گمراهی اور انحراف میں شیطان کا کردار صرف اکسانے اور بهکانے کی حد تک هے۔ دوم یه که کمال همیشه تضاد اور ٹکراؤ کے ماحول میں حاصل هوتا هے، اسی لئے بهترین نظام میں اس طرح کی مخلوق کو پیدا کرنا بیکار اور بے مقصد نهیں هوسکتا، بلکه الله کی خالص رحمانیت اور خیریّت کا جلوه هے۔
پهلی بات تو یه هے که الله نے شیطان کو پیدا نهیں کیا هے۔ کیونکه وه سالوں (۶هزار سال)[1] تک فرشتوں اور عبادتگزاروں کا همنشین تھا لیکن بعد میں اس نے اپنے اختیار سے سرکشی اور انحراف کی راه اپنالی اور الله کی رحمت سے دور هوگیا۔
دوسرے یه که شیطان کا وجود ایمانداروں اور راه حق پر چلنے والوں کے لئے نقصان ده نهیں هے بلکه ترقی اور کمال کا وسیله هے؛ کیونکه ترقی و کمال همیشه تضاد اور مقابله کے ماحول میں حاصل هوتے هیں۔[2]
اس دنیا میں شیطان کا کردار اکسانے اور بهکانے کی حد تک هے؛ یعنی شیطان انسان کو گمراهی اور انحراف کی طرف صرف دعوت دیتا هے الله نے اس کو نفوس میں تصرف کی قدرت اور ان پر تسلط نهیں دیا هے ‹ان لیس له سلطان علی الذین آمنوا و علی ربهم یتوکلون›[3]۔ (اور بے شک اس کو ان لوگوں پر تسلط نهیں هے جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسه کرتے هیں)۔ شیطان ان لوگوں سے بحث کرتا هے اور کهتا هے که ‹و ما کان لی علیکم من سلطان الّا ان دعوتکم۔۔۔›[4] (اور مجھے تمهارے اوپر کوئی اختیار نهیں تھا سوائے اس کے که میں نے تمهیں بلایا)۔
قرآنی تعلیمات اس بات کی حکایت کرتی هیں که انسان کی گمراهی میں شیطان کا رول صرف اکسانے اور بلانے کی حد تک هے اور وه انسان کو جبرا گمراهی کی طرف نهیں کھینچتا؛ کیونکه انسان دو طرح کی دعوتوں کا مخاطب هے ایک الله کی طرف سے اور دوسری شیطان کی طرف سے۔ اور انسان اپنے اختیار کے تحت ان دونوں میں سے کسی ایک کواپناتا هے۔ هاں جو لوگ اپنے اختیار اور ارادے سے شیطان کی دعوت کو قبول کرلیتے هیں اور اسی کو اپنے لئے نمونه سمجھتے هیں اور اس کے احکام کی پیروی کرتے هیں شیطان ان کے اوپر قابو اور تسلط حاصل کرلیتا هے اور ان کو نابود کرکے رکھ دیتا هے۔
‹انما سلطانه علی الذین یتولونه۔۔۔›[5] (اس کا بس اور اختیار صرف ان لوگوں پر چلتا هے جو اسے دوست بناتے هیں۔۔۔)۔
اس سلسله میں مزید معلومات کے لئے ذیل کی اشاریوں پر رجوع کریں:
شیطان اور مرگ، سوال398؛ ناله و شیون شیطان، سوال762