‹فنا› عربی زبان کا لفظ هے اور نیست و نابود هونے کے معنی میں هے اور عرفا کے یهاں حق میں بندے کے محو و غرق هونے کو کهتے هیں اس طرح که بندے کی بشریت حضرت حق کی ربوبیت میں گم هوجائے۔ طریق الی الله کے سالکین اور مسافریں نے حق تک پهنچنے کی راهوں کو ﻜﭽﮭ منزلوں پر تقسیم کیا هے اور ‹فنا› کو اس کی آخری منزل بتایا هے۔
مثلا عطار نے اس کی سات منزلیں پیش کی هیں: طلب، عشق، معرفت، استغنا، توحید، حیرت اور فقر و فنا۔
اهل ذوق کے یهاں فنا کئی طرح کی هے: اول، ظاهری فنا جو افعال کی فنا هے؛ دوم، باطنی فنا جو که صفات کی فنا هے؛ سوم، ذات کی فنا۔
ان کا کهنا هے که: الله کی بارگاه میں جو فنا هو گیا وه بقا پاگیا۔
‹فنا› عربی زبان کا لفظ هے اور نیست و نابود هونے کے معنی میں هے[1] اور عرفا کے یهاں حق میں بندے کے محو و غرق هونے کو کهتے هیں اس طرح که بندے کی بشریت حضرت حق کی ربوبیت میں گم هوجائے۔
مذکوره بات کی وضاحت کے لئے چند مقدمات کی طرف توجه ضروری هے:
۱۔ جیسا که هم جانتے هیں که الله نے انسان کو اپنی حکیمانه مشیئت کے ذریعه اس طرح پیدا کیا که وه اپنی پوری زندگی میں همیشه کمال مطلق اور اس کے راستے سے بقا و جاودانگی کے بارے میں سوچتا هے اور اس مقصد تک پهنچنے کے لئے کسی بھی سعی و کوشش سے دریغ نهیں کرتا۔ وه هر اس چیز کو تلاش کرتا هے جو اس کے پاس نهیں هے اور جب اسے پالیتا هے تو اس کے بهتر اور مکمل هونے کی خواهش اس کے وجود میں پلنے لگتی هے اور اسے چین سے نهیں بیٹھنے دیتی۔ بقول شاعر عارف :
دست از طلب ندارم تا کام من برآید یا تن رسد به جانان یا جان ز تن برآید |
مارا مارا پھرتا هوں جاں لب په لئے اپنی یا وه مجھے مل جائے یا جان نکل جائے |
البته اس بات کی طرف بھی توجه رکھنا چاهئے که اس احساس کی تمنا باطنی اور حقیقی هے اعتباری و مجازی نهیں هے، ایسی حقیقت هے جو انسان کی شان و منزلت کے لائق هے تاکه وه الله کی طرف سے عطا کرده اپنی اس خصوصیت کے ذریعه پستی سے بلندی کی طرف چلا جائے اور اپنی اصلی اور پهلی قیامگاه تک پهنچ جائے۔ چونکه:
هر کسی که دور ماند از اصل خویش باز جوید روزگار وصل خویش |
جو بھی اپنے وطن سے دور هوا چاهتا هے وهاں پلٹ جائے |
۲۔ انسان ایسی مخلوق هے جو بااختیار اور بااراده هے جو انتهائی پستی اور انتهائی بلندی کے درمیان کسی بھی طرف انتها تک پهنچ سکتا هے۔
۳۔ انسان اپنے کمال کے راستے میں ﻜﭽﮭ رکاوٹوں سے دوچار هوتا هے عرفاء جنھیں تعینات[2] اور انیات[3]فردیه کهتے هیں اور جب تک انسان ان تعینات کو روند نه ڈالے اور اس کی دیواروں کو نه گرادے تب تک اپنے مقاصد تک نهیں پهنچ سکتا۔ یه وهی غبار راه اور ظلمات کے پردے هیں جو بندے
اور نور حق کے درمیان حائل هیں:
تو کز سرای طبیعت نمی روی بیرون کجا به کوی طریقت گذر توانی کرد جمال یار ندارد نقاب و پرده ولی غبار ره بنشان تا نظر توانی کرد |
تو، طبیعت هی میں الجھا هے ابھی تک سالک پھر طریقت کے نشاں کیسے بھلا دیکھے گا اس نے ڈالی میں کهاں هے رخ زیبا په نقاب گرد ره بیچ میں حائل هے تو کیا دیکھے گا |
ان مقدمات کے بعد عرض هے که جب ایک سالک ایک کے بعد ایک ساری منزلوں کو فتح کرلے یهاں تک که وه تمام انیات و تعینات اور تمام تر مادی اور حتی معنوی رکاوٹوں کو پارکر جائے اور حضرت حق میں اس کا وجود گھل مل جائے اس وقت وه ‹فنا› کے مقام پر پهنچتا هے۔ یه وقت هے جب وه اپنے آپ کو بھول کر جمال معشوق میں گم هوجاتا هے اور هر چیز میں صرف اور صرف اسی کو دیکھتا هے۔
اسی لئے اهل معنی کهتے هیں که ‹انا الحق› کهنے والے کا مقصد یه نهیں هے که الٰهیت کا دعوی کرے بلکه اس نے اپنی ‹انا› کی نفی کرنا چاهی هے۔ یعنی وه کهنا چاهتا هے که میں اپنے اندر بھی اپنے آپ کو نهیں دیکھتا بلکه مجھے اپنے اندر بھی تو هی تو نظر آتا هے جیسا که اس نے خود کها هے:
بینی و بینک انی ینازعنی فارفع بفضلک انی من البین |
بیا و هستی حافظ زپیش او بردار که باوجود تو کس نشنود ز من که منم |
وصال یار میں میرا وجود حائل هے فناجو میں هوں تو میرا وصال هوجائے |
اس تسلسل میں دو نکتے قابل ذکر هیں:
۱۔ عرفاء نے طریق الی الله کو کچھ مرحلوں اور منزلوں میں تقسیم کیا هے[4] اور فنا کو اس کی آخری منزل بتا یا هے۔ مثلا عطار نے اس کی سات منزلیں ذکر کی هیں: طلب، عشق، معرفت، استغنا، توحید، حیرت اور فقر و فنا۔
۲۔ اهل ذوق نے ‹فنا› کی کچھ قسمیں بیان کی هیں[5]:
الف: ظاهری فنا جو که افعال کی فنا هے، اس طرح که عارف هر کام اور هر فعل کو الله کا دیکھتا هے اور اسی سے نسبت دیتا هے۔ ‹قرب نوافل› نامی مشهور حدیث میں آیا هے: ‹و انه لیتقرب الیّ بالنافلۃ حتی احبه فاذا احببته کنت سمعه الذی یسمع به و بصره الذی یبصر به و لسانه الذی ینطق به و یده اللتی یبطش بها ان دعانی اجبته و ان سالنی اعطیته›[6]۔ رسول الله صلی الله علیه وآله سے منقول هے که الله نے فرمایا: اور میرا بنده مستحبات کو انجام دیکر اپنی محبت کے اسباب کو میری طرف سمیٹتا هے۔ یهاں تک که میں اسے دوست رکھنے لگتا هوں، لهٰذا جب میں اس کا دوست هوجاتا هوں تو میں هی اس کا کان هو جاتا هوں جس سے وه سنتا هے اور میں هی اس کی آﻨﻜﮭ هوجاتا هوں جس سے وه دیکھتا هے اور میں هی اس کی زبان هوجاتا هوں جس سے وه بولتا هے اور میں هی اس کا هاﭡﮭ هوں جس سے وه دیتا اور لیتا هے۔ جب وه مجھے پکارتا هے تو میں جواب دیتا هوں اور جب ﻤﺠﮭ سے مانگتا هے تو میں اسےعطا کرتا هوں۔
ب: باطنی فنا جو که صفات کی فنا هے؛ یعنی انسانی صفات کا الٰهی صفات میں تبدیل هوجانا۔
خواجه نصیر الدین طوسی فرماتے هیں:
عارف جب اپنے آپ سے کٹ جائے اور حق سے مل جائے تو تمام ان قدرتوں کو اسی کی قدرت کے اندر دیکھتا هے جن کا کائنات کی هر چیز سے سروکار هے اور تمام علوم کو اسی کے علم میں دیکھتا هے که کائنات کی کوئی چیز اس سے پوشیده نهیں هے اور تمام ارادوں اور آرزؤں کو اسی کی مشیئت میں دیکھتا هے که عالم امکان کا کوئی بھی ذره اس سے ﻤﻨﮭ نهیں موڑ سکتا[7]۔
ج: ذات کی فنا؛ اور یه مرتبه عارف کے روحانی اور ملکوتی سفر کی آخری منزل هے جو صرف بعض اهل سلوک کے لئے هی ممکن هوتی هے۔ یهاں تک که اسمائی اور صفاتی نور کا حجاب بھی سامنے سے هٹ جاتا هے اور وه خدا کی ذاتی و غیبی جلوؤں تک پهنچ جاتا هے اور اس مشاهده میں حضرت حق کی قیومیت اور اپنی ذات کی فنا کا نظاره کرتا هے اور اپنے اور تمام موجودات کے وجود کو حضرت حق کا سایه هونے کی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھتا هے که : ‹ان روح المؤمن لاشد اتصالا بروح الله من اتصال شعاع الشمس بها›[8]؛ بے شک روح خدا سے روح مومن کا رابطه، سورج سے اس کی شعاؤں کے رابطه سے بھی زیاده گهرا هے[9]
[1] فیروز اللغات (اردو)، فرهنگ فارسی
[2] امتیازات اور انفرادی خصوصیات
[3] هستی، وجود
[4] البته ان منزلوں کی تعداد کے بارے میں عرفاء کی طرف سے مختلف نظریات پیش کئے گئے هیں
[5] رجوع فرمائیں: دیوان حافظ با شرح عرفانی، احمد دانشگر، ص144/145
[6] اصول کافی، کتاب الایمان و الکفر، باب ‹من اذی المسلمین و احتقرهم› ح8؛ محاسن برقی، ص291
[7] شرح اشارات، ابن سینا، ج3، مقامات العارفین، ص390
[8] کافی، ج2، کتاب الکفر و الایمان، باب اخوۃ المؤمنین، ح4
[9] رجوع فرمائیں: چهل حدیث، امام خمینی، ص382