عرفان عملی کے سلسله میں دو معنی بیان کئے جاتے هیں:
۱۔ خود سلوک اور طرز عمل
۲۔ وه تعلیمات جس میں سلوک کے طریقے بتائے گئے هیں
عرفان نظری کبھی پهلے معنی کے مقابل استعمال هوتا هے اور کبھی دوسرے معنی کے مقابلے میں؛ یعنی عرفان نظری یا سالک کے مشاهدات کو بیان کرتا هے یا کائنات اور انسان کی شناخت کی بحث کرتا هے۔
عرفان نظری اور عرفان عملی کو بیان کرنے کے لئے اهل فن، مختلف تعبیریں استعمال کرتے هیں:
پهلی تعبیر:
عرفان میں دو پهلو هوتے هیں:
۱۔ اجتماعی پهلو (تصوف): یهاں عرفاء ایک اجتماعی فرقه کے اعتبار سے اپنی خاص خصوصیات کے ساﭡﮭ مد نظر هوتے هیں۔[1]
۲۔ علمی اور ثقافتی پهلو: خود اس کی بھی دو قسمیں هیں:
الف: عملی؛ عرفان اس راسته سے انسان میں تبدیلی پیدا کرنا چاهتا هے، مختصر یه که خود اپنے آپ سے، کائنات سے اور الله سے متعلق انسان کے فرائض اور روابط کو بیان کرتا هے۔
ب: نظری: عرفان اس کے ذریعه کائنات کی تفسیر کرنا چاهتا هے؛ یعنی الله، کائنات اور انسان کی تفسیر۔[2]
دوسری تعبیر:
انسان شناسی، انسان کامل، توحید، اسماء، صفات حضرت حق، جهان شناسی یه سب ارشادی بحثیں عرفان نظری میں آتی هیں۔ اور زهد، محبت، ریاضت، ذکر، احسان، عبادت وغیره عرفان عملی سے متعلق هیں[3]
تیسری تعبیر:
عرفان نظری میں عارف دل کی آنکھوں کے مشاهدات کو عقل کی زبان میں بیان کرتا هے۔ [4]
چوتھی تعبیر:
صاحب کتاب‹عرفان نظری› کهتے هیں که عرفان اسلامی کے اصلی مسائل (عرفان کے بنیادی اصول) پانچ هیں: ۱۔ وحدت، ۲۔ شهود، ۳۔ فنا، ۴۔ ریاضت، ۵۔ عشق۔ اس کے بعد عرفان عملی اور نظری کے درمیان فرق کو بیان کرتے هوئے فرماتے هیں که: عرفان عملی یعنی: مراحل و منازل سے گزرنے اور خاص مقامات اور حالات تک پهچنے کے لئے عرفانی آگاهی اور توحید و فنا (جسے طریقت بھی کهتے هیں) کے حصول کی خاطر ایک دقیق اور سخت منصوبے کو عملی کرنا عرفان عملی هے ۔ اور عرفان نظری یعنی کائنات اور انسان کی حقیقت کے بارے میں اپنے مشاهدات پر مشتمل عرفاء کے بیانات اور تعبیریں۔[5]
پانچویں تعبیر:
تمهید القواعد میں پهلے تو انسان کامل کے وجود کی ضرورت کے مبادی نظری پر ﻜﭽﮭ اشکال کرتے هیں۔ پھر عرفان عملی (جامع وجود کے مقام تک پهنچنے کے لئے جس کی سفارش کی جاتی هے) کے ﻜﭽﮭ اشکالات کو بیان کرتے هوئے یوں فرماتے هیں: اقول: ما سبق من الاشکالات انما ھی متعلقۃ بالقسسم النظری و ھذه الایرادات متعلقۃ بالقسم العملی منها۔۔۔۔
اس ٹکڑے کی تشریح کرتے هوئے آیۃ الله جوادی آملی فرماتے هیں:
یهاں عرفان عملی سے مراد ان تعلیمات کا مجموعه هے جو سلوک کے طرز عمل اور طریقوں پر مشتمل هے لهٰذا عرفان عملی اس کے بر عکس هے جو خود سلوک اور عمل سے عبارت هے اور الفاظ، قضایا اور مسائل وغیره سے مشروط نهیں هوتا۔[6] وه فرماتے هیں که عرفان میں مسئله اور قضیه سے بحث نهیں هے بلکه مرحله کی بات پیش نظر هے؛ یعنی عارف کی کوشش هوتی هے که ﻜﭽﮭ مراحل طے کرنے کے بعد عین الیقین کے مرحلے تک پهنچ جائے اور عین الیقین در اصل ‹مفهوم کے ذریعه سمجھنے› سے مختلف هے، بلکه وه تو خود حقیقت کے مشاهده کا نام هے۔
جو شخص مفهوم کے ذریعه حقیقت کو سمجھنے کی حد تک پهنچتا هے وه اس کی طرح هے جو دور سے دھواں دﯿﻜﮭ کر آگ کے بارے میں جان جاتا هے لیکن جو حارثه ابن مالک کی طرح دیواروں کے گرانے میں کامیاب هوجائے وه عین الیقین کے ساﭡﮭ براه راست آگ کے مشاهده کا هنر حاصل کرسکتا هے۔
خود هنر دان دیدن آتش عیان نی گپ ‹دلّ علی النار الدخان› |
آتش عشق و محبت کو تو خود آنکھوں سے دﯿﻜﮭ نعره ‹دلّ علی النار الدخاں› کو چھوڑ دے |
لیکن عرفان نظری جو که مفهوم پر ٹکا هے وه مسائل اور دلائل والا علم هے۔[7]
بحث کا نتیجه:
جیسا که ملاحظه کیا ان سب بیانات میں تعارض اور تضاد پایا جارها هے لیکن مذکوره باتوں میں غور و فکر کے ذریعه یه بات ﺴﻤﺠﮭ میں آتی هے که عرفان نظری کے مفهوم کی وسعت یا تنگی اس بات سے جڑی هوئی هے که هم عرفان عملی کی کیا تعریف کرتے هیں۔
عرفان عملی کے دو معانی بیان کئے گئے:
۱۔ خود سلوک اور طرز عمل
۲۔ وه تعلیمات جن میں سلوک کے طریقه بتائے گئے هیں
پهلی دو تعبیریں عرفان عملی اور نظری کے فرق کو بیان کرتی هیں۔ اس طرح که عرفان نظری دوسرے معنی کے مقابلے میں هے۔ اور آخر کی تین تعبیریں، عرفان نظری کو پهلے معنی کے مقابلے میں قرار دیتی هیں اور اس دوسری صورت کے مطابق اس میں کوئی حرج نهیں هے که اسفار اربعه اور سیر سلوک و قوس صعود و زهد و محبت و ریاضت وغیره عرفان نظری میں بیان هو۔
[1] ڈاکٹر قاسم انصاری کی ‹مبانی عرفان و تصوف› نامی کتاب کے پهلے درس میں صوفیه کی وجه تسمیه کے بارے میں ﻜﭽﮭ اسباب بیان هوئے هیں۔
[2] شهید مطهری، آشنائی با علوم اسلامی، حصه عرفان، ص70۔75
[3] ناطم زاده قمی، علی آئینه عرفان، ص40/41
[4] شهید مطهری، آشنائی با علوم اسلامی، حصه عرفان، ص76/77
[5] ڈاکٹر یثربی، عرفان نظری، ص38۔53
[6] آیۃ الله جوادی آملی، تحریر تمهید القواعد، ص598۔601
[7] آیۃ الله جوادی آملی، تحریر تمهید القواعد، ص13/158