تزکیہ اور اصلاح نفس کے مرحلہ میں انسان کو چاہیے کہ خود کو دوسروں پر مقدم رکھے اور یہی حکم قران بھی ہے اور مفہوم روایات بھی کیونکہ اپنے تزکیہ کے بغیر دوسروں کی ھدایت کم محقق ہوتی ہے لکین مقام دعا میں بہت مناسب
ہے کہ انسان دوسروں کو خود پر مقدم کرے اور ھماری روایات میں اس سلسلے میں بہت تا زیادہ تاکید ات وارد ہوئی ہیں یہ کام نہ صرف یہ کہ انسان کی حاجتیں پوری ہوتے ہیں تا خیر کا باعث نہیں ہوتا بلکہ دعاوں کے جلد قبول ہوجانے کا سبب بنتا ہے
بظاھر سوال میں تزکیہ نفس اور دعا کے درمیان خلط مسلط واقع ہوا ہے کیونکہ پہلی صورت یعنی اصلاح نفس اور پرھیز گاری کے مرحلہ میں ایات و روایات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ انسان کے لئے ضروری ہے خود کو دوسروں پر مقدم کرے قران مجید آتش جھنم سے بچنے اور تزکیہ نفس کے ذریعہ خود کو زائل اخلاقی سے دور رکھنے کےلئے مومنوں کو کچھ اس طرح سے خطاب کرتا ہے ای مومنو:اپنی فکر کرو اور خود کو ( ضلالت گمراھی اور اللہ کی نا فرمانی) سے محفوظ رکھو اگر تم مومن بن کر رھو گے تو کافر تمہیں نقصان نہیں پہونچا سکتے[1]
اسی طرح قران کی دوسری آیت میں ایا ہے کہ ای مومنو: خود کو اور اپنے قرابتداروں کو اس اگ سے بچاو کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے (یعنی گناہ کرکے کے اپنے اپ کو ایسی اگ کے حوالے نہ کرو )[2]
جیسا کہ اپ محسوس کرتے ہیں یہاں گفتگو دعا اور عبادت کی نہیں ہو رہی ہے بات اصلاح نفس اور زائل اخلاقی سے دوری
کی ہے جس میں ضروری ہے کہ انسان خود کو اور اپنے اقربا کو دوسروں پر مقدم کرے البتہ یہ بات امر بالمعروف اور نہی
عن المنکر کو ترک کرنے کے مترادف نہیں ہے کیونکہ واجبات کی انجام دھی بھی بذات خود اصلاح نفس کا ایک ذریعہ ہے جسے خود سازی کے بہانے سے ترک کیا جاسکتا ہے
لکین دعا اور طلب حوائج کا مسلہ جیسا کہ متعدد روایات سے بھی ظاھر ہوتا ہے اس کے بلکل برعکس ہے کیونکہ معصومینؑ حضرات کی روایات کے مطابق اس مرحلہ میں دوسروں کو خود پر ترجیہ دینے کی طرف رغبت دلائی گئی ہے جیسا کہ ایک روایت حضرت امام حسن نے اپنی والدہ ماجدہ کے سلسلے میں نقل فرمائی ہے اور مزکور سوال کے متن میں یہ عبارت ائی ہے
کہ حضرت زھرا نے امام حسن ؑ کے سوال کے جواب میں فرمایا (( الجارثم الدار)) پہلے پڑوسی ہیں پھر ھم خود۔ [3]
دوسری جگہ امام سجاد (ع) سے روایت ہوئی ہے کہ جب فرشتے سنتے ہیں کہ ایک مومن دوسرے مومن کے پیٹھ پیچھے اس کے لئے دعا ئے خیر کر رہا ہے یا اسکو اچھے الفاظ میں یاد کر رہا ہے تو اسکو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں : تم کتنے اچھے بھائی ہو اپنے مومن بھائی کےحق میں دعائے خیر کر رہے ہو اس حالت میں کہ وہ تمہارے سامنے نہیں ہے اور تم اس کی اچھائی بیان کر رہے ہو حقیقتاً جتناتم نے اپنے بھائی کے لئے مانگا ہے خدا وند عالم اسکا دو گنا عطا کرے گا [4]اس کے جیسی اور بھی بہت سی روایت ملتی ہیں مثلا وسائل الشیعہ میں باب الستحباب اختیار الانسان الدًعاء للمومن علی الدعاء لنفسیہ )
(دوسروں کے لئے دعا کو اپنے حق میں دعا پر ترجیح دینا)) عنوان کے تحت ایک باب موجود ہے اور اس بات میں بہت سی اس دعا وں کو ذکر کیا گیا ہے جس میں دوسرروں کے حق میں دعا کرنے کو خود پر ترجیح دینے کی طرف ترغیب دلائی گئی ہے مزید معمولات کے لئے دیکھیں عنوان: گمراہ زوجہاور قرابت داروں کے لئے دعا (سوال نمبر ۱۴۹7۹ سائٹ ۱۴۷۵۵)
[1] ۔ مائدہ: ۱۰۵۔
[2] ۔ تحریم:۶۔
[3] ۔ شیخ حر عاملی ، وسائل الشیعہ ، ج۷ ، ص۱۱۲، باب استحباب اختیار الانسان الدعاء للمومن علی الدعاء لنفسہ، موسسہ آل البیت، قم۔
[4] ۔ ھمان، ص۱۱۱۔