لغت اور اصطلاح میں حشر:
لغت میں، "حشر" کے معنی جمع کرنے کے هیں اور اصطلاح میں، خداوند متعال کے توسط سے قیامت کے دن مخلوقات کو ---- ان سے حساب لینے اور سوال و جواب کرنے کے لئے---- جمع کرنے کے معنی هیں-
حیوانات کا حساب و کتاب، {حشرونشر}:
اس مسئله کے بارے میں کلی طور پر دو نظریات پیش کئے گئے هیں:
۱۔ حیوانات کے لئے کسی قسم کا حشر نهیں هے اور هر حیوان کا حشر اس کی موت هے، کیونکه حیوانات مکلّف نهیں هیں، جبکه حساب اور سوال و جواب مکلفین سے مخصوص هے-
۲۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کا عقیده هے که حیوانات کا بھی انسانوں کے مانند حساب کتاب هوگا اور وه بھی قیامت کے دن محشور هوں گے، کیونکه تمام حیوانات شعور رکھتے هیں اور ان کے شعور کے مطابق ان سے سوال و جواب هوگا-
حیوانات کا شعور و علم:
حیوانات کے شعور و علم کے بارے میں آیات و روایات کے دلائل کے علاوه، بهت سے موجوده سائنسی تجربے بھی اس دعویٰ کی تائید کرتے هیں- اس سلسله میں آیات میں بیان شده واقعات جیسے: سلیمان کے لشکر سے چیونٹیوں کے بھاگ جانے کی داستان، هدهد کا یمن میں سبا کے مقام پر آنا اور سلیمان کے لئے حیرت انگیز خبر لانے کی داستان اور حضرت سلیمان علیه السلام کی فوجی پریڈ میں پرندوں کی شرکت وغیره حیوانوں میں جبلّت کے علاوه بلند شعور کی دلیل هے- اس کے علاوه بعض حیوانات کے بارے میں نقل کی گئی روایتیں حیوانات کے لئے مراتب و مقامات بیان کرتی هیں جو ان کے علم و شعور کی دلیل هے، ورنه حیوانوں کو کوئی مقام و منزلت عطا کرنا معنی و مفهوم نهیں رکھتا هے- امام سجاد علیه السلام سے ایک روایت هے که آپ۴ نے فرمایا: " جو اونٹ سات سال تک صحرائے عرفات میں رهے، وه بهشتی حیوانات میں سے هے-" تجربه اور سائنس کے لحاظ سے بھی هم مشاهده کرتے هیں که عام حیوانات اپنے نفع و نقصان کے بارے میں آگاه هیں اور اپنے دوست و دشمن کو پهچانتے هیں اور خطرے سے بچتے هیں اور اپنے نفع کی طرف قدم بڑھاتے هیں اور تربیت پانا اور وه گوناگوں کام انجام دینا جس پر وه مامور کئے جاتے هیں، اس بات کی دلیل هے که حیوانات، حیوانی جبلّت کے علاوه کافی شعور و ادراک رکھتے هین- اس بنا پر جس طرح ادراک و شعور انسان کے لئے حشر اور خدا کی طرف پلٹنے کا معیار هے، اسی طرح حیوانوں کے لئے بھی حشر اور معاد کا معیار ادراک و شعور هے- حیوانات کے حشر کے قائل لوگ آیه شریفه " واذا الوحوش حشرت" سے استفاده کر کے کهتے هیں که: اس سے مراد قیامت کے دن حیونات کا جمع هونا هے اس قول سے اس آیه شریفه کو تقویت ملتی هے، جس میں ارشاد هوا هے: " اور زمین میں کوئی بھی رینگنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نهیں هے جو اپنی جگه پر تمهاری طرح کی جماعت نه رکھتا هو، هم نے کتاب میں کسی شئے کے بیان میں کوئی کمی نهیں کی هے اور اس کے بعد سب اپنے پروردگار کی بارگاه میں پیش هوں گے-" یه آیت حیوانات کی انسانوں سے تشبیه دیتی هے، "اُمم امثالکم" اور اس کے بعد آیت میں آیا هے "ثم الی ربھم یحشرون" جو اس بات کی دلیل هے که حیوانات انسانوں کے مانند مرتے هیں اور دوباره زنده کئے جائیں گے اور اپنے پروردگار کی بارگاه میں پیش هوں گے- اس معنی کی اسلامی روایتوں نے بھی تائید کی هے- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے به حواله اهل سنت ایک روایت نقل کی گئی هے که آنحضرت{ص} نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: "خداوند متعال ان تمام رینگنے والے جانوروں کو قیامت کے دن محشور کرے گا اور بعض حیوانات سے بعض کا قصاص لے گا، یهاں تک که اس سینگ والے حیوان سے بھی قصاص لے گا جس نے کسی بے سینگ والے حیوان کو مارا هو-
حشر کے لغوی اور اصطلاحی معنی:
لغت میں "حشر" جمع[1] کرنے کے معنی میں هے اور آیه شریفه "ذالک حشر علینا یسیر[2]" "یه حشر همارے لئے آسان هے-" میں لفظ "حشر" اسی معنی میں استعمال هوا هے- اور شرعی اصطلاح میں اس کے معنی: خداوند متعال کا قیامت کے دن مخلوقات کو جمع کرنا هے تاکه ان سے سوال و جواب اور محاسبه کرے- "اور الله سے ڈرو اور یه یاد رکھو که تم سب {ایک دن} اسی کی طرف محشور کئے جاو گے[3]-" "وحوش"، "وحش" کی جمع هے اور اس کے معنی وحشی حیوانات هیں جو پالتو حیوانات کے برعکس اور مقابل هوتے هیں[4]- اور جو حیوان انسان سے انس نه رکھتا هو اسے وحشی حیوان کها جاتا هے[5]-
حیوانات کا حساب و کتاب{حشر و نشر}:
اس موضوع پر متکلمین اور مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا هے- بعضوں کا اعتقاد هے کی چونکه حساب و کتاب اور سوال و جواب، مکلفین سے مخصوص هے اور حیوانات مکلف نهیں هیں، اس لئے حیوانات کے لئے حشر نهیں هے، اور هر حیوان کا حشر اس کی موت هے- اس کے برعکس جنات اور انسانوں کو قیامت پر چھوڑا جاتا هے- لیکن اکثر دانشور اس کے قائل هیں که تمام حیوانات شعور رکھتے هیں اور قیامت کے دن محشور هوں گے اور ان کے شعور کی به نسبت ان سے سوال و جواب هوگا-
حیوانات کا علم و شعور:
بهت سی آیات و روایات، حیوانات کے علم و شعور کے بارے میں دلالت کرتی هیں- اس کے علاوه انسان کے تجربے اور جدید سائنس سے بھی اس امر کی تائید هوتی هے- قرآن مجید کی آیات کے مطابق چیونٹیوں کے' حضرت سلیمان۴ کے لشکر سے اپنے آپ کو بچانے کی داستان[6]، هد هد کے ملک یمن کے علاقه سبا میں آنے اور حضرت سلیمان۴ کے لئے حیرت انگیز خبریں لانے[7] کی داستان، حضرت سلیمان۴ کی فوجی مشق میں پرندوں کی شرکت[8] اور آپس میں ان کی گفتگو کو حضرت سلیمان۴ کے سننے اور خدا کی طرف سے انهیں پرندوں کی زبان سکھانے پر فخر کرنے کے واقعه کی طرف اشاره کیا جا سکتا هے[9]- اور یه سب امور حیوانات کے شعور پر دلالت کرتے هیں اس کے علاوه قرآن میں ارشاد هوا هے: " اور کوئی ایسی شے نهیں هے جو اس کی تسبیح نه کرتی هو، یه اور بات هے که تم ان کی تسبیح کو نهیں سمجھتے هو[10]-" علامه طباطبائی{رح} کے مطابق یه آیت اس بات کی بهترین دلیل هے که مخلوقات کی تسبیح سے مراد، علم پر مبنی تسبیح هے اور یه تسبیح مخلوقات کی زبان قال هے نه که زبان حال، کیونکه اگر زبان حال مراد هوتی اور ان کی دلالت وجود صانع پر هوتی، تو اس کے کوئی معنی نهیں تھے که ارشاد فرماتا : "تم ان کی تسبیح کو نهیں سمجھتے هو[11]-" اس کے علاوه بعض روایات میں، بعض حیوانات کے لئے کچھه مقامات بیان کئے گئے هیں، مثلاً " اگر کوئی اونٹ تین بار مکه گیا هو، وه اهل بهشت هے[12]"- اور امام سجاد علیه السلام نے فرمایا هے: "جو اونٹ سات سال تک صحرائے عرفات میں رهے، وه بهشتی حیوانوں میں سے هے[13]-" اس قسم کی روایتیں بھی حیوانات کے ادراک و شعور پر دلالت کرتی هیں، ورنه ان کے لئے مقام و منزلت عطا کرنے کا کوئی معنی و مفهوم نهیں هوگا اور هم علم و تجربه سے بھی مشاهده کرتے هیں که عام حیوانات اپنے نفع و نقصان سے آگاه هیں، اور اپنے دوست و دشمن کو پهچانتے هیں اور خطرات سے اپنے آپ کو بچاتے هیں اور اپنے فائده کی فکر میں هوتے هیں اور تربیت حاصل کرتے هیں اور گوناگوں ذمه داریاں نبھاتے هیں-
حیوانات کا محشور هونا اور انسان کے محشور هونے سے اس کی شباهت:
آیات و روایات سے واضح طور پر استفاده هوتا هے که حیوانات بھی انسانوں کے مانند ادراک و شعور رکھتے هیں، اگرچه نچلے هی درجه پر، اور ان کی اپنی سمجھه کے مطابق هی سهی، اور چونکه انسان کے محشور هونے کا معیار یهی ادراک و شعور هے، اس لئے حیوانات بھی محشور هوں گے اور اپنے پروردگار کی طرف پلٹیں گے- اس سلسله میں جن آیات سے استفاده کیا جا سکتا هے، ان میں یهی آیه شریفه : " واذا الوحش حشرت[14]" هے که کها گیا هے: یه آیت قیامت کے مقدمات اور عالم کے فنا هونے کی ابتداء کے بارے میں هے[15]- لیکن بهت سے مفسرین کے نزدیک اس آیه شریفه که جس میں کها گیا هے: " اور زمین میں کوئی بھی رینگنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نهیں هے جو اپنی جگه پر تمھاری طرح کی جماعت نه رکھتا هو- هم نے کتاب میں کسی شے کے بیان میں کوئی کمی نهیں کی هے اور اس کے بعد سب اپنے پروردگار کی بارگاه میں پیش هوں گے[16]-" کے پیش نظر قیامت کے دن حیوانات کے محشور هونے کے قول کو تقویت ملتی هے- اگرچه اس آیت میں حیوانات کی انسانوں سے تشبیه کے بارے میں آیا هے که "امم امثالکم" ، بعض کا کهنا هے که اس سے مراد یه هے که حیوانات ، آپ هی کے مانند خداوند متعال کی مخلوق هیں اور ان میں سے هر ایک اپنے پروردگار کی قدرت، عظمت اور حکمت کی نشانی اور دلیل هے[17]- بعض دوسرے یه اعتقاد رکھتے هیں که اس سے مراد یه هے که وه {حیوانات} بھی آپ انسانوں کے مانند کھانے پینے، پهننے اوڑھنے اور سونے جاگنے جیسے، زندگی کے طریقه کے سلسله میں عاقلانه تدبر کے محتاج هیں تاکه ان کے لئے زندگی کی مناسب راه معین هو جائے[18]- بعض لوگ اس آیت کے جمله "ثم الی ربھم یحشرون" کے پیش نظر کهتے هیں که: " اس سے مراد یه هے که وه {حیوانات} آپ کے مانند مرتے هیں اور مرنے کے بعد دوباره زنده کئے جائیں گے اور اپنے پروردگار کی طرف پلٹائے جائیں گے[19]- یهی معنی اسلامی روایتوں کے ذریعه بھی مورد تائید قرار پاتے هیں- من جمله حضرت ابوذر{رض} سے ایک روایت نقل کی گئی هے که انهوں نے فرمایا: هم پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی خدمت میں تھے که همارے سامنے دو بکروں نے ایک دوسرے کو سینگ مارا، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا : کیا آپ جانتے هیں که انهوں نے ایک دوسرے کو کیوں سینگ مارا؟ حاضرین نے عرض کی : نهیں ، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا: "لیکن خدا جانتا هے که ایسا کیوں هوا، اور عنقریب هی ان کے درمیان فیصله سنا دے گا[20]-" اهل سنت کی طرف سے ایک روایت میں نقل کیا گیا هے که رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے اس آیه شریفه کی تفسیر میں فرمایا هے: " خداوند متعال قیامت کے دن ان تمام رینگنے والے جانوروں کو محشور کرے گا اور بعض حیوانات سے بعض کا قصاص لے گا، یهاں تک که اس سینگ والے حیوان سے بھی قصاص لے گا جس نے کسی بے سینگ والے حیوان کو سینگ مارا هو[21]-" اور[22]-
[1] قرشى، سید على اکبر، قاموس قرآن، ج 2، ص 145.
[2] ق، 44.
[3] بقره، 203.
[4] قاموس قرآن، ج 7، ص 189.
[5] مفردات راغب، مادهى وحش.
[6] نحل، 18.
[7] نحل، ۲۱.
[8] نحل، ۱۷.
[9] نحل، ۱۶.
[10] اسرى، 44.
[11] علامه طباطبایى، محمد حسین، تفسیر المیزان، ترجمه فارسی، موسوى همدانى، 2 جلدى، ج 17، ص 609، بنیاد علمى و فکرى طباطبائى، 1363.
[12] العروسى الحویزى، تفسیر نورالثقلین، ج 1، ص 715، حدیث 68، مؤسسه ی مطبوعاتى اسماعیلیان، چ 1373 هش،.
[13] ایضاً، حدیث 70.
[14] تکویر، 5.
[15] مکارم شیرازى، ناصر، تفسیر نمونه، ج 26، ص 173 و 174.
[16] انعام، 38.
[17] طبرسى، تفسیر مجمع البیان، دارالمعرفة، چاپ دوم، 1408 هق، ج 3 و 4، ص 461.
[18] ایضاً
[19] ایضاً
[20] ایضاً؛ تفسیر نورالثقلین، همان، ج 1، ص 715، حدیث 69.
[21] محمد رشید رضا، تفسیر المنار، ایضاً، ج 7، ص 326.
[22] مزید معلومات کے لئے بحارالانوار، ج 7، ص 353 تا 377 ملاخطه هو.