سوره نساء کی آیت نمبر ۳۴ میں عورتوں پر مردوں کی نگرانی اور حکمرانی " الرجال قوامون علی النساء" عورتوں پر مردوں کے تسلط ، زور زبردستی اور بالا دستی کے معنی میں نھیں ھے ، بلکھ جیسا کھ اھل لغت اور ان کی پیروی میں اکثر مفسرین نے کھا ھے کھ لفظ " قوام" سرپرستی ، رسدات کے انچارج اور نگرانی کے معنی میں ھے ۔کیونکھ خاندان معاشرے کا ایک چھوٹا یونٹ ھوتا ھے ، اس لئے قدرتی بات ھے کھ اس کو ایک بڑے معاشرے کے مانند ایک رھبری و سرپرستی کی ضرورت ھوتی ھے ۔ اس لئے ۔ بعض وجوھات اور مردوں میں موجود خصوصیات کی بنا پر یھ ذمھ داری مردوں کو ھی سونپی گئی ھے ، مردوں کی یھ خصوصیات حسب ذیل ھیں۔
1۔ فکری توانائی کا جذبات، لطف اور احساسات پر غلبھ،
۲۔ خاندان کی عزت و آبرو اور تقدس کا دفاع کرنے کی جسمانی طاقت
۳۔ بیوی بچون کی پرورش کے لئے مالی اخراجات برداشت کرنے کی ذمھ داری مرد پر عائد کی گئی ھے۔
قرآن مجید ، حاکمیت اور سرپرستی کو صرف عدل و انصاف اور خداوند متعال کی رضا مندی کے دائره میں جائز جانتا ھے اور خداوند متعال کے سامنے صرف تقوی اورپرھیزگاری کی برتری معیار ھے ، نھ کھ جنسیت ۔ قرآن مجید کے تھذیبی آداب کے مطابق مرد کی حکمرانی اور بالادستی میں تسلط ، ظلم و زیادتی کی کوئی گنجائش نھیں ھے ، مذکروه آیھ شریفھ سے جو مردوں کے عورتوں پر تسلط کا توھم پیدا ھوا ھے شائد قرآن کے محققین کی طرف سے لفظ "قوام" کے صحیح معنی بیان نھ کئے جانے کی وجھ سے ھے .
اصل مسئلھ (قوامیت کے معنی ) کی بحث میں داخل ھونے سے پھلے ضروری ھے کھ اسلام میں عورت کے مقام و منزلت کو واضح کرنے کیلئے چند نکات بیان کئے جائیں:
۱۔عورت ، دنیا کی نصف آبادی، انسانی معاشره کی سرگرم رکن اور خاندان کی بنیاد کو تشکیل دینے والے دو ارکان میں سے ایک کی حیثیت سے پوری تاریخ میں اپنے بارے میں گوناگوں فیصلوں اور حکمیتوں سے دوچار ھوتی رھی ھے ، تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ھوتا ھےکھ عورت ، ھر معاشرے میں کسی نھ کسی طرح کی محرومی کے رنج اٹھاتی رھی ھے۔ اگر چھ مختلف معاشروں اور تمدنوں میں پوری تاریخ کے دوران اس امتیازی سلوک میں کمی بیشی ھوتی رھی ھے ، لیکن اس محرومی کے جاری رھنے اور واقع ھونے سے کوئی انکار نھیں کرسکتا ھے ، عربوں میں جاھلیت کے دوران بیٹیوں کو زنده دفن کرنا ، سومری معاشره میں عورتوں کا مردوں کے ھاتھوں قتل ھونا یا قرض ادا کرنے کی غرض سے ان کو بیچ ڈالنا [1]عورتوں پر کئے جانے والے بے انتھا مظالم کے نمونے ھیں۔ عورتوں پر بالادستی اور تسلط جمانے والے مردوں یا عورتوں کو مطلق آزادی دینے والے معاشروں کی طرف سے مختلف صدیوں اور زمانوں سے آج تک جو مظالم عورتوں پر ڈھائے گئے ھیں اور ڈھائے جارھے ھیں ، ان کو بیاں کرنے کی یھاں گنجائش نھیں ھے بلکھ ھم اس مختصر تحریر میں صرف خلاصھ اور نمونھ کے طور پر اسلام میں عورت کی قدر و منزلت اور تجدید حیات اور حیات بخش مکتب اسلام میں اس کے حقوق کے تحفظ کو بیان کرنا چاھتے ھیں۔
۲۔ جزیرۃ العرب میں مکتب اسلام کے طلوع و ظھور کے ساتھه ، اسلامی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور اھل بیت علیھم السلام کی برکت سے عورت کو اپنی شان کے مطابق قدر ومنزلت ملی اور وه کھوئی ھوئی حقیقی حیثیت کے دوباره حاصل کرنے میں کامیاب ھوئی۔
اسلامی جھموریھ ایران کے بانی حضرت امام خمینی ( رح) اس سلسلھ میں فرماتے ھیں: " اسلام مرد اور عورت دونوں کی رشد و بالیدگی چاھتا ھے ، اسلام نے عورتوں کو زمانھ جاھلیت کی لعنتوں سے نجات دلائی ھے اسلام نے جس قدر عورتوں کی خدمت کی ھے خدا جانتا ھے کھ اس قدر مردوں کی خدمت نھیں کی ھے ۔ [2] اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی قرار دیا ھے لیکن کچھه خاص احکام مردوں سے منسوب ھیں اور کچھه خاص احکام عورتوں سے منسوب ھیں ، اس کا مطلب یھ نھیں ھے کھ اسلام نے مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کیا ھے۔[3]
۳۔ تخلیق میں یکسانیت : قرآن مجید عورتوں اور مردوں کو انسان کے دو گروه جانتا ھے جو ایک گوھر و جان سے پیدا کئے گئے ھیں قرآنی تعلیمات کے مطابق انسانیت ایک نوع ھے اور مرد اور عورت دونوں مساوی و برابری کے حقدار ھیں۔ اس سلسلھ میں قرآن مجید میں بیان کیا گیا ھے: "خلقکم من نفس واحدۃ ثم جعل منھا زوجھا ۔۔۔" [4] " اس نے تم سب کو ایک ھی نفس سے پیدا کیا ھے اور پھر اسی سے اس کا جوڑا قرار دیا ھے"
" ھو الذی خلقکم من نفس واحدۃ و جعل منھا زوجھا " [5] " اسی خدا نے تم سب کو ایک ھی نفس سے پیدا کیاھے اور پھر اس سے اس کا جوڑا قرار دیا ھے"
۴۔ اسی طرح اھم ترین انسانی خصوصیات ، یعنی استدلال اور عقلمندی میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نھیں ھے اور دونوں ان خصوصیات سے مساوی طور پر استفاده کرتے ھیں:" قل ھو الذی أنشا کم و جعل لکم السمع و الابصار و الافئدۃ " [6] " آپ کھدیجئے کھ خدا ھی نے تمھیں پیدا کیا ھے اور اسی نے تھارے لئے کان آنکھه اور دل قرار دئے ھیں۔۔۔۔ "
مسلمان مفسرین اور دانشوروں نے مذکوره آیھ شریفھ میں " أفئدۃ" کے معنی اندیشھ ( غور و فکر) بتائے ھیں ، یھ ( غور و فکر) وه چیز ھے جو انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ھے۔[7]
۵۔ ازدواجی زندگی میں مرد اور عورت کے حقوق میں فرق نھ ھونا ، قرآن مجید میں عورت کے حق میں جس اقتدار ، تسلط اور امتیاز کا خیال رکھا گیا ھے ، وه اس کے برابر ھی ھے جس کا مرد کے حق میں لحاظ رکھا گیا ھے ، اگرچھ ممکن ھے کھ بعض مصادیق میں کچھه فرق نظر آئے گا جیسے عورت کے نفقھ کا حق ، جس کی رعایت کرنا مرد کیلئے ضروری ھے اور مردوں کے آرام و سکون کا حق جس کی پیروی عورت کے لئے ضروری ھے ، کیوں کھ قرآن مجید میں بیان ھوا ھے: " و لھن مثل الذی علیھن ۔۔۔" [8] اور عورتوں کے لئے ویسے ھی حقوق بھی ھیں جیسی ذمھ داریاں ھیں ۔۔۔ " مفسرین نے اس آیت سے مردوں اور عورتون کے حقوق مساوی ھونے کا نتیجھ اخذ کیا ھے۔[9]
حقیقت یھ ھے کھ قرآن مجید میں کوئی ایسا موقع نھیں پایا جاتا جس میں انسان کے اراده و اختیار کے دائره سے خارج، واضح طور پر کسی حق کی برتری یا عطا کی گئی فضیلت کی " درجھ" کے طور پر تعبیر کی گئی ھو ، بلکھ لفظ " درجھ" یا " درجات" انسان کے اس دنیوی یا اخروی مقام و منزلت کی طرف اشاره ھے جو اس کے اراده و عمل کا نتیجھ ھوتا ھے۔ [10]
"لکل درجات مما عملوا " [11] " اور ھر ایک کےلئے اس کے اعمال کے مطابق درجات ھیں"
۶۔ لفظ " قوام" اھل لغت کی نظر میں رسد رسانی ، محافظت اور نگرانی کے معنی میں ھے ۔ لفظ " قیام" کبھی محافظت اور اصلاح کے معنی میں آتا ھے اسی کے مطابق خداوند متعال کا کلام ھے : ' الرجال قوامون علی النساء " [12] " مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ھیں'[13] ، " قام الرجل علی المرأۃ صانھا و قام بشانھا " ،" مرد کا عورت پر قوام ، یعنی اس کی حفاظت کی اور اس کے مسائل حل کئے " [14]
قرآن مجید کے اکثر مفسرین نے بھی اھل لغت کے اس مشترکھ نطریھ پر اتفاق کرتے ھوئے ، آیھ شریفھ " الرجال قوامون علی النساء " میں لفظ " قوام" کے معانی سرپرست ، نگران اور رسد رسان بتائے ھیں۔ نمونھ کے طور پر دو مثالوں کی طرف اشاره کیا جاتا ھے : "قوام ، اس شخص کا نام ھے جو سنجیدگی کے ساتھه کوئی کام انجام دیتا ھے ، جب کھا جاتا ھے کھ یھ عورت کا " قَیُم" ھے اس سے مراد وه شخص ھوتا ھے جو اس کا کام انجام دیتا ھے اور اس کی رکھوالی کرتا ھے۔ لفظ " قَیُم " اس شخص کے معنی میں ھے جو کسی دوسرے کےلئے کوئی کام انجام دینے کا ذمھ دار ھوتا ھے اور لفظ "قوام" اور " قیام" اس معنی میں مبالغھ ھے۔[15]
۷۔ اس بنا پر اور اسلام میں عورت کے مقام و منزلت اور لفظ قوام کے بیان شده معنی کے پیش نظر آیھ شریفھ " الرجال قوامون علی النساء" سے یھ مطلب حاصل کیا جاسکتا ھے کھ یھ آیت خاندان میں ایک واحد رھبری و سرپرستی کو بیان کرتی ھے جو صلاح ، مشوروں اور ذمھ داریوں کے پیش نظر ضروری ھے ، نھ کھ یھ عورتوں کے بارے میں ظلم ، تسلط ، اور زور زبردستی کی دلیل ھے[16]
چونکھ خاندان معاشره کا ایک چھوٹا یونٹ ھوتا ھے ، قدرتی بات ھے کھ وه ایک بڑے معاشرے کے مانند ایک رھبری اور سرپرستی کا محتاج ھے ، اس لئے بعض وجوه اور مردوں میں پائی جانے والی بعض خصوصیات کے پیش نظر یھ ذمھ داری مرد پر رکھی گئی ھے ، مرد کی ان خصوصیات میں جذبات پر ا س کا فکری غلبھ ، خاندان کے تقدس کا دفاع کرنے میں اس کی جسمانی قوت ار بیوی بچوں کی زندگی کے مالی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمھ داری وغیره شامل ھے
لیکن ممکن ھے بعض ایسی عورتیں بھی ھوں جو مذکوره خصوصیات میں مردوں برتی رکھتی ھوں ، لیکن قوانین میںجزئی اور استثنائی واقعات و حوادث کو مدنظر نھیں رکھا جاتا ھے بلکھ نوع اور کلی کو مد نظر رکھاجاتا ھے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبھیھ نھیں ھے کھ کلی طور پر عورتوں کی بھ نسبت مردوں میں خاندان کی سرپرستی کی ذمھ داری انجام دینے کی زیاده صلاحیت اور آمادگی پائی جاتی ھے۔پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے عورتوں پر مردوں کی برتری کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آنحضرت نے فرمایا: " کفضل الماء علی الارض فبا لماء تحیی الارض و با لرجال تحیی النساء " ثم تلا ھذه الآیۃ " الرجال قوامون علی النساء" [17] " مرد کی عورت پر فضیلت ، پانی کی زمیں پر فضیلت کے مانند ھے ، پانی سے زمیں زنده ھوتی ھے اور مردوں سے عورتوں کی زندگی میں نشاط و شادمانی پیدا ھوتی ھے " اس کے بعد آنحضرت نے آیھ شریفھ " الرجال قواموں علی النساء " کی تلاوت فرمائی۔ اس سلسلھ میں امام صادق علیھ السلام فرماتے ھیں:" من سعادۃ الرجل ان یکون القیم علی عیالھ" [18] " خاندان کی سرپرستی مرد کی سعادت کی علامت ھے"
مذکوره دو روایتوں کے مطابق اگر سرپرستی کی ذمھ داری خاندان میں دوستی کے ماحول میں انجام پائے تو زندگی کے لئے نشاط و شادمانی اور شادابی و سلامتی کا سبب بن سکتی ھے ۔
۸۔ مردوں کی عورتوں پر سرپرستی کے مسئلھ کے بارے میں دو مختلف نظرئیے پائے جاتے ھیں:
الف) ایک نظریھ کے مطابق گھر کی چار دیوار کے اندر مردوں کی عورتوں پر حکمرانی اور سرپرستی مردوںمیں جنسیت کے لحاظ سے پائی جانے والی خصوصیات کے پیش نظر ھے ، یعنی زندگی کو بھتر طریقے پر چلانے کے لئے ، ضروری ھے کھ مردوں اور عورتوں میں سے ھر ایک اپنی استعداد کے مطابق ایک خاص ذمھ داری کو سنبھالیں اور س لحاظ سے شوھر ، بیوی کا سرپرست ھوتا ھے اور خانداں کے نظام میں سرپرستی کا حق مرد کو ھے [19]
بھرحال خالق کائنات نے لوگوں کو مختلف لیاقتوں اور گوناگوں صلاحیتوں کے ساتھه پیدا کیا ھے اور اگر تمام لوگ ایک ھی قسم کی صلاحیتوں اور لیاقتوں کے مالک ھوتے تو ھستی کا نظام درھم برھم ھوجاتا ، کیونکھ دنیا کے کام مختلف ھیں اور مختلف کاموں کےلئے مختلف صلاحیتوں کی ضرورت ھوتی ھے ، لھذا صلاحیتوں میں فرق ھونا ضروری ھے ، عورت اور مرد کے درمیان فرق اسی لحاظ سے ھے ، لیکن یھ فرق مرد اورعورت میں سے کسی ایک کے لئے برتری اور فضیلت کا معیار نھیں ھے ، جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے مقابل میں دو صنفوں کے عنوان سے ھوں تو اس صورت میں مرد ھرگز عورت کا قیم نھیں ھے اور عورت بھی مرد کے تسلط میں نھیں ھے ، اس لئے ان دو کے درمیان موجود فرق برتری کا سبب نھیں ھے اور امتیاز و برتی کا سبب ان کےدرمیاں موجود فرق نھیں بن سکتا ھے ، اس لئے اس نظریھ کے مطابق سوره نساء کی چونتیسویں آیت ایک فریضھ بیان کرتی ھے جسے مردوں کے ذمھ رکھا ھے نھ کھ کسی مقام و منزلت ، معیار اور فضیلت کو بیان کرتی ھے۔[20]
ب) اس موضوع کے سلسلھ میں دوسرا نظریھ ، یھ ھے کھ مرد عورتوں پر بالادستی اور حکمرانی رکھتے ھیں اور یھ حکمرانی صرف شوھر کی اپنی بیوی کی نسبت نھیں ھے بلکھ یھ ایک ایسا حکم ھے جو مردوں کی نوع پر عورتوں کی نوع کے سلسلھ میں صادر ھوا ھے ، لیکن " عمومیت" کے لحاظ سے کھ تمام مرد عورتوں کی صنف پر حکمرانی رکھتے ھیں ، یھ حکمرانی حکومت اور عدلیھ کے مانند ھے کھ ایک معاشره کی زندگی اس سے وابستھ ھے ، ان دو ذمھ داریوں کا قوام استدلال کی طاقت پر ھے کھ قدرتی طورپر یھ طاقت عورتوں کی نسبت مردوں میں زیاده اور قوی تر ھے ۔[21] لیکن اس نظریھ کے مطابق عورتوں پر مردوں کی سرپرستی کے معنی عورتوں کو آزادی اور ان کے انفرادی اور اجتماعی حقوق سے محروم کرنا نھیں ھے ۔
۹ ) سر انجام ، مردوں کی سرپرستی کے بارے میں کھنا چاھئے کھ : یھ سرپرستی ازدواجی زندگی کے نظم و انتظام کی اقسام میں سے ایک قسم ھے ، جس نے مرد کو عورتوں کے امور کا ذمھ دار بنایا ھے ، مرد خاندان کے مالی امور کا ذمھ دار ھے اور اس میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ھیں جن کے پیش نظر وه مختلف حالات سے مقابلھ کرنے کی زیاده طاقت رکھتا ھے مرد کو یھ ذمه داری سونپنا اس کے لئے کسی بھی دنیوی یا اخروی فضیلت و برتری کا سبب نھیں بن سکتا ھے ، کیوں کھ اسلام کمال اور عروج کی راه میں مرد اور عورت کے درمیان کسی فرق کا قائل نھیں ھے ۔ کمال اور عروج کی راه کو طے کرکے تقرب الھی حاصل کرنا عقل، تقوی اور عمل صالح کے ذریعھ ممکن ھے اور اس سلسلھ میں خداوند متعال کے هاں برتری کا معیار صرف پرھیزگاری ھے نھ کھ جنسیت۔اس لئے قرآن مجید کے نزدیک مرد کی سرپرستی میں کسی قسم کے تسلط ، ظلم اور زیادتی کی گنجائش نھیں ھے اور یھ وھم و گمان کھ مذکوره آیت مردوں کے عورتوں پھ تسلط کا باعث ھے ، شائد قرآن مجید کی بحث و تحقیق میں لفظ قوام کے صحیح معنی بیان نھ کئے جانے کی وجھ سے ایجاد ھوا ھے۔
اس سلسلھ میں مزید تفصیلات کے لئے مندرجھ ذیل موضوعات کی طرف رجوع کیا جائے :
۱۔ مردوں کے مقابل میں عورتوں کی ذمھ داریاں" سوال نمبر ۸۵۰ ، ( سائٹ: )
۲، مرد کی عورت پر عدم برتری ، سوال نمبر ۵۳۱ ( سائٹ: )
۳۔ "عورتوں پر پابندیاں" سوال نمبر ۴۱۶ ، ( سائٹ: )
[1] پژوھش ھای قرآنی ، ش ، ۲۵ ، ۲۶، بھار و تابستان ، ۱۳۸۰ ، بھ نقل ال المرأۃ فی التاریخ و الشریعۃ ، احمد حمرانی ، ص ۲۰۔
[2] صحیفھ نور ، ج ۳ ،ص ۸۲۔
[3] ایضا ، ج ۴ ص ۶۰۔
[4] سوره زمر /۶۔
[5] سوره اعراف / ۱۸۹
[6] سوره ملک / ۲۳۔
[7] ابن خلدون ، عبدا لرحمن ، مقدمھ ابن خلدون ج ۲ ، ص ۸۶۰۔
[8] سوره بقره / ۲۲۸۔
[9] علامھ طباطبائی ، تفسیر المزیان مین فرماتے ھیں : اجتماعی عدالت کے مطابق مساوی کی جو تفسیر کی گئی ھے وه یھ ھے کھ معاشره مین ھر صاحب حق کو اپنا حق ملنا چاھئے اور ھر شخص اپنی وسعت اور استعداد کے مطابق آگے بڑھے ، نھ کھ اس سے زیاده پس مختلف افراد اور طبقات کے درماین مساوی کے معنی یھی ھیں کھ ھر صاحب حق اپنے حق کو پالے ، بغیر اس کے کھ کسی کی حق تلفی کی جائے ، اور یھ وھی جملھ ھے کھ فرمایا گیا ھے : و لھں مثل الذین علیھن با لمعروف و اللرجال علیھن درجۃ ،۔۔۔( تفسیر المیزان ، ج ۲ ، ص ۲۶۸ ، ۲۹۷) اس سلسلے مین اھل سنت کا نظریھ جاننے کے لئے ملاحظھ ھو : ابن کثیر ، تفسیر القرآن العظیم ، ج ۳ ، ص ۵۰۶۔ رشید رضا ، تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۲۶۸ ۔۔ ۲۹۷۔
[10] پژوھش های قرآنی ، ش ، ۲۵، ۲۶،سال ۱۳۸۰ ، ص۱۰۳۔
[11] سوره انعام / ۱۳۲۔
[12] سوره نساء / ۳۴۔
[13] ابن منظور، لسان العرب ، ج ۱۱ ، کلمھ ، قوم۔
[14] سعید الخواری ، اقرب الموارد ، کلمھ قوم۔
[15] طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، (ترجمھ فارسی ) ، ج ۴،ص ۵۴۲۔
[16] تفسیر نمونھ ، ج ۳ ، ص ۴۱۱۔۔ ۴۱۶۔
[17] کاشانی ، فیض ، تفسیر صافی ، ج ۱ ، ص ۴۴۸۔
[18] وسائل الشیعھ ، ج ۱۵۔ ،ص ۲۵۱۔
[19] تفسیر نمونھ ، ج ۳،ص ۳۷۰۔۔ ۳۷۱۔
[20] جوادی آملی ، عبدا للھ ، زن در آئینھ جلال و جمال ، ص ۳۶۴۔۔ ۳۶۹۔
[21] طباطبائی ، سید محمد حسین ، ، المیزان ، ج ۴، ذیل آیھ ۳۴ سوره نساء ، ص ۳۴۳۔۔ ۳۴۷۔