قرآن مجید کے مفسرین نے آیات و روایات سے استفاده کرکے عرش و کرسی کے بارے میں کئی معانی کا احتمال دیا ھے۔
بعض مفسرین نے کها ھے کھ ، عرش و کرسی ایک ھی چیز کے دو نام اور دونوں نام ایک ایسے مقام کے کنایھ هیں جو تدبیر کائنات کے امر کا سرچشمھ ھے۔
بعض دوسرے مفسرین اس کے بارے میں مندرجھ ذیل اعتقاد رکھتے هیں:
۱ ) کرسی سے مراد علم الھی کا دائره اور نفوذ ھے ، یعنی خداوند متعال کا علم تمام آٓسمانوں اور زمینوں کا احاطھ کئے هوئے هیں اور خداوند متعال کے علمی نفوذ کے قلمرو سے باھر کوئی چیز نھیں ھے۔
۲)عرش و کرسی تدبیر الھی کا مقام و سلطنت ھے لیکن کرسی تمام عالم مادھ پر جس میں زمین ، ستارے کھکشاں اور بادل شامل ھیں ، خداوند متعال کا قلمرو اور نفوذ ھے اور عرش ، عالم ارواح فرشتون اور ماورائے فطرت پر خداوند متعال کا قلمرو اور نفوذ ھے۔
۳)عرش ایک خاص اور حقیقی مخلوق ھے ، نھ کھ مقام ربوبیت کا کوئی کنایھ اورکرسی آسمانوں اور زمین سے ایک وسیع تر مخلوق ھے جو انھیں ھر طرف سے احاطھ کئے ھوئے ھے
۴)بعض آیات کے مطابق ، عرش ایک حقیقی مخلوق ھے اور بعض دوسری آیات کے مطابق عرش کا معنی صرف کنایھ سے تعبیر ھے
لغت میں عرش کے معنی ، تخت، تخت شاھی اور رب العالمین کا تخت ھے جس کی تعریف ممکن نھیں[1] ،عرش حقیقت میں ایک ایسی چیز ھے جس کی چھت ھو اور اس کی جمع "عروش" ھے۔ بادشاه کی نشیمن گاه کو بھی عرش کھا جاتا ھے یھ اس کی بلندی کے اعتبار سے ھے[2]۔
کرسی ، یعنی تخت ، علم ، دانش ، ملک ، خداوند متعال کی قدرت اور اس کی تدبیر[3]۔
قرآن مجید میں ، آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ھے ان کے علاوه عرش و کرسی کے نام سے ایک مخلوق ھے
عرش و کرسی کے لفظ کے مفھوم کے بارے میں ، قرآن مجید کے مفسرین نے قرآن مجید کی آیات اور ائمھ معصومین (ع) سے نقل کی گئی روایات کی روشنی میں کئی احتمالات بیان کئے ھیں جو حسب ذیل ھیں
بعض مفسرین نے احتمال دیا ھے کھ عرش و کرسی ایک ھی چیز کے دو نام ھیں ، عرش سلطنت و قدرت کے تخت پر دلالت کے اعتبار سے اور کرسی ، برتری ، تخت حکومت اور فرمانروائی کے مرکز کے اعتبار سے ، دونوں تعبیریں ایک ایسے مقام کے بارے میں کنایھ ھیں جو کائنات کی تدبیر کا سرچشمھ ھے[4].
عرش ، تخت و سریر کے معنی میں، قرآن مجید میں چار بار استعمال ھوا ھے (یوسف/ ۱۰۰، نحل /۳۳۔۳۸،۴۲) قرآن مجید میں عرش الھی کے بارے میں اکیس بار اشارھ ھوا ھے۔ یھ اشارے غالبا استعاری ھیں اور عرش سے مربوط آیات قرآن مجید کی اھم متشابھات ھیں[5]،۔ لیکن عرش الھی سے متعلق احتمالی معانی حسب ذیل ھیں:
۱)شائد عرش سے مراد وھی الھی سلطنت و تدبیر کا مقام ھو ، خاص کر قرآن مجید مین اغلب مقامات پر لفظ عرش کے بعد تدبیر یا اس کے مانند الفاظ استعمال ھوئے ھیں ۔ جیسے : ثم استوی علی العرش یدبر الامر[6] ۔۔۔ 'پھر تخت پر قرار پاکر (کائنات کے ) کام کی تدبیر شروع کی "
۲)دوسرا احتمال یھ ھے کھ عرش ایک خاص اور حقیقی مخلوق کا نام ھو ، جیسے "و ھو رب العرش العظیم [7] " اور وه عظیم عرش کا مالک ھے کھ خداوند متعال کی "رب العرش" کھھ کر تعریف کی جاتی ھے
بظاھر اس آیت سے ایسا معلوم ھوتا ھے کھ عرش ایک ایسی مخلوق ھے جس کا رب خداوند متعال ھے۔
اس آیھ شریفھ کے پیش نظر کھ " الذیں یحملون العرش و من حولھ [8]۔۔۔۔ " عرش کو اٹھانے والے اور اس کے گرد طواف کرنے والے فرشتے اپنے پروردگار کی تسبیح و حمد بجالاتے ھیں، بعید نھیں ھے کھ عرش ایک حقیقی مخلوق ھو۔
۳)عرش کے معنی کے بارے مین تیسرا احتمال ، دو معانی کے درمیان جمع اور آیات کی تفصیل ھے ، یعنی بعض آیات کی روشنی میں عرش ایک حقیقی مخلوق ھے اور بعض آیات کے مطابق عرش کا معنی ایک کنایھ سے تعبیر ھے۔ [9]
عرش کے معنی کے سلسلھ میں علامھ طباطبائی کھتے ھیں : " عرش ، خارجی حقائق میں سے ایک حقیقت ھے " ثم استوی علی العرش " اس کے باوجود کھ خداوند متعال کے اپنے ملک پر احاطھ کرنے کی تدبیر کی ایک مثال ھے اس پر بھی دلالت کرتی ھے کھ اس میں ایک حقیقت بھی کارفرما ھے اور وه حقیقت وھی مقام ھے جھاں پر تمام امور کی باگ ڈور ھے۔ بظاھر ، سوره مومن کی آیت نمبر ۷ ، سوره حاقھ کی آیت ۱۷ اور سوره زمر کی آیت ۷۴ سے معلوم ھوتا ھے کھ عرش ، خارجی حقائق میں سے ایک حقیقت ھے۔[10]
نقل کی گئی روایتوں سے جو کچھ معلوم ھوتا ھے وه یھ ھے کھ عرش ایک حقیقی مخلوق ھے اور اس کو اٹھانے والوں کا ذکر کیا گیا ھے۔ حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام سے عرش و کرسی کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضرت علیھ السلام نے جواب میں فرمایا: ان للعرش صفات کثیرۃ مختلفۃ لھ فی کل سبب وضع فی القرآن صفۃ علی حده[11] ۔۔۔ " عرش کی مختلف اور بھت زیاده صفات ھیں قرآن مجید میں جھاں کھیں بھی جس مناسبت سے عرش کا ذکر کیا گیا ھے اسی مناسبت سے مربوط اس کی صفات کا ذکر کیا گیا ھے مثال کے طور پر آیھ شریفھ ، "رب العرش استوی"
میں عرش ، اس معنی میں ھے کھ خداوند متعال اپنے ملک پر احاطھ رکھتا ھے اور یھ
اشیاء کی کیفیت کا علم ھے۔ یھ لفظ اگر کرسی کے ساتھه ذکر کیا جائے تو اس کا معنی کرسی کے معنی سے مختلف ھوگا، کیونکھ عرش و کرسی غیب کے سب سے بڑے دروازوں میں سے دو دروازے ھیں اور وه خود بھی غیب سے ھیں اور غیب سے ھونے میں آپس میں یکساں ھیں، فرق صرف یھ ھے کھ کرسی ، غیب کا ظاھری دروازه ھے اور ھر چیز وھیں سے پھوٹتی ھے اور تمام چیزین اسی دروازه سے پیدا ھوتی ھیں اور عرش ، اس کا باطنی دروازه ھے ، یعنی مختلف مخلوقات کی کیفیت ، ھستی ، قدر ، اور ان کے حدود اورمکان۔
لھذا ، عرش و کرسی دو متصل دروازے ھیں ، فرق صرف اتنا ھے کھ ملک عرش ملک کرسی کے مختلف اور اس کا علم کرسی کے علم سے غیب تر اور پوشیده تر ھے[12]
"ثم العرش فی الوصل متفرد ومن الکرسی " کی تفسیر اور تشریح کے بارے میں شیخ صدوق کھتے ھیں : " عرش ، کرسی پر مقدم ھے اور بلاواسطھ اس پر موثر ھے ، عرش و کرسی ملکوتی مخلوقات میں سے دو مخلوق ھیں جھاں ادراک کی پھونچ نھیں۔[13]
رسول خدا صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے روایت ھے کھ آپ نے فرمایا: "ان الشمس و القمر و النجوم خلقن مں نور العرش[14] " سورج ، چاند اور ستارے (خداوند متعال کے ) عرش کے نور سے پیدا کئے گئے ھیں۔
کرسی کا معنی
لفظ "کرسی" قرآن مجید میں تنھا صرف ایک بار استعمال ھوا ھے "۔۔۔ وسع کرسیه السموات و الارض"[15] اس کی (حکومت) کے تحت ، آسمان اور زمین قرار پائے ھیں ، اس کے معنی میں بھی کئی احتمالات بیان کئے گئے ھیں:
۱)کرسی: یعنی حکومت کا دائره اور یھ فرمانروائی کے مقام کا کنایھ ھے۔ اس معنی میں کھ خداوند متعال تمام آسمانوں اور زمین پر حکومت کرتا ھے اور اس کے قلمرو اور نفوذ میں سب کچھه ھے اس طرح کھ خداوند متعال کی کرسی ، زمین ستارے کھکشاں ، ابر سمیت تمام مادی کائنات کا مجموعھ ھے ۔ کرسی کے اس معنی کے مطابق ، عرش کو عالم ماده سے ایک مرحلھ بر تر اور عالی تر ھونا چاھئے ، اس صورت میں عرش کا معنی عالم ارواح ، فرشتے اور ماورائے فطرت عالم ھے۔[16]
۲)دوسرا احتمال یھ ھے کھ کرسی سے مراد ، علم الھی کے نفوذ کا دائره ھے یعنی علم الھی تمام آسمانوں اور زمین کا احاطھ کئے ھے اور خداوند متعال کے علم کے قلمرو سے باھر کوئی چیز نھیں ھے۔[17]
یھ نظریھ امام صادق علیھ السلام کی اس روایت کی تائید کرتا ھے کھ امام سے سوال کیا گیا کھ آیھ شریھ " وسع کرسیه السموات و الارض" میں کرسی سے کیا مرا ھے؟ آپ نے فرمایا: اس (خدا) کا علم ھے"[18] امام صادق علیھ السلام نے اسی طرح کرسی کے معنی کے بارے میں فرمایا: و الکرسی ھو العلم الذی لم یطلع اللھ علیھ احدا من انبیائھ و رسلھ و حججھ[19] " کرسی خدا کا مخصوص علم ھے کھ کھ اس سے کوئی شخص حتی کھ انبیاء بھی آگاه نھیں ھیں۔
۳)کرسی کے معنی میں تیسرا احتمال یھ ھے کھ کرسی تمام آسمانوں اور زمین سے وسیع تر ایک مخلوق ھے جس نے ھر طرف سے ان کا احاطھ کر رکھا ھے۔
حضرت امام علی علیھ السلام سے کرسی کے بارے میں سوال کی گیا تو ، حضرت نے جواب میں فرمایا: " الکرسی محیط بالسماوات و الارض و ما بینھما و ما تحت الثری[20]" کرسی تمام زمین و آسمان اور جو کچه اں کے درمیان ھے اور جو کچه زمین کی گھرائیوں میں موجود ھے ان پر احاطھ رکھتی ھے[21] ، البتھ جیسا کھ ظاھر ھے اس روایت میں بھی کرسی ایک حقیقی مخلوق مانی گئی ھے۔
تفسیر نمونھ کے مولفین کے خیال کے مطابق مذکوره تینوں معانی کے درمیان کوئی تضاد نھیں ھے ، کیوں کھ آیھ شریفھ " وسَع کرسیه السموات و الارض" میں کرسی سے مراد آسمانوں اور زمین میں پروردگار عالم کی مطلق حکومت و قدرت کی طرف اشاره ھوسکتا ھے اس کے علاوه اس کا علمی نفوذ ھوسکتا ھے بلکھ اس زمین و آسمان پر مشتمل عالم سے وسیع تر ایک عالم ھوسکتا ھے[22]۔
[1] صفی پور ، عبد الکریم ، منتهی الارب ج 3 اور4 باب العین ص 1716۔
[2] راغب اصفھانی ، مفردات الفاظ قرآن مجید ، کلمھ عرش۔
[3] صفی پور ، عبد الکریم ، منتهی الارب ج 3 اور4 باب الکاف ص 1090۔
[4] مصباح یزدی ، محمد تقی ،معارف قرآن ج ۱ تا ۳ ص 248 ۔
[5] خرمشاھی ، بهاء الدین ، دانشنامھ قرآن ج ۳ ص , 1445 -1446
[6] سوره یونس / ۳۔
[7] سوره توبھ / ۱۳۹۔
[8] سوره غافر / ۷
[9] مصباح یزدی ، محمد تقی ،معارف قرآن ج ۱ تا ۳ ص ۳۴۹۔
[10] شمس ، مراد علی باعلامھ در المیزان ج ۳ ش ۱۶۵۔۱۶۶۔
[11] توحید صدوق ش ۳۳۱ ، ۳۳۲ ، ح ۱ باب ۵۰۔
[12] المیزان ( ترجمھ ) ج ۸ ش ۲۰۶۔
[13] توحید صدوق ش ۳۳۱ ، ۳۳۲ ، ح ۱ باب ۵۰۔
[14] الدر المنثور ج ۳ ص ۴۷۷ ، بحار الانوار ج ۵۵ ص ۳۱۰ ۔
[15] بقره / ۲۵۵۔
[16] تفسیر نمونھ ج ۲ ص ۲۰۰ ، ۲۰۱۔
[17] المیزان ( ترجمھ ) ج ۲ ش ۵۱۳ ، تفسیر نمونھ ج ۲ ش ۲۰۰ ، ۲۰۱۔
[18] التوحید ش ۳۳۷۔
[19] معانی الاخبار ش ۲۹ ۔ ح۱ ، تفسیر برھان ج ۱ ش ۳۴۰ ح ۶ ۔
[20] تفسیر نور الثقلین ج ۸ ص ۲۶۰ ح ۱۰۴۲۔
[21] تفسیر نمونھ ج ۲ ش ۲۰۰ ، ۲۰۱ ۔
[22] تفسیر نمونھ ج ۲ ش ۲۰۰ و ۲۰۱۔