چونکه آپ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے هیں، اس لئے مناسب یه که آپ حنفی مذهب کے علماء و فقها سے رابطه قائم کرکے ان سے اپنے سوال کا جواب حاصل کریں که یقیناً اس سلسله میں وه اپنا مخصوص نظریه پیش کریں گے ـ لیکن چونکه آپ نے علم و آگاهی کے ساتھـ هم ایران میں رهنے والے پیروان مذهب اهل بیت (ع) سے سوال کیا هے، هم اسے اس سلسله میں مختلف مذاهب کے نظریات سے آگاهی حاصل کرنے کی آپ کی دلچسپی جانتے هوئے فقه اهل بیت (ع) کے مطابق جواب دینے کی کوشش کریں گے تاکه سبوں پر حقیقت واضح هو جائے ـ
سب سے پهلے قابل ذکر بات هے که نکاح اور مرد اور عورت کے درمیان ازدواج زندگی کا رابطه تکامل اور انسان کے کامل هونے کا سبب هے، اس معنی میں که عارفوں کی معرفت اور عاشقوں کی محبت کی بنا پر پوری کائنات خدا کے اسماء و صفات کی تجلی گاه هے، اس سلسله میں مرد اور عورتیں بھی ظهور تجلی کےمصادیق هیں، لیکن قابل غور نکته یه هے که هر ایک اپنے نظریه عقیده اور تعامل کے مطابق صفات و جمال الٰهی کے مظاهر کا مشاهده کرتا هےـ
دوسرے الفاظ میں چونکه مرد مسائل کو قهارانه نظر سے دیکھتا هے، اس لئے خداوند متعال کے صفات جلاله کا مظهر هے اور عورت ظرافت، لطافت و زیبائی کے زاویه سے هستی پر نظر ڈالتی هے، اس لئے پروردگار کے جمال و زیبائی کے صفات کی مظهر هے ـ اس لحاظ سے مرد اور عورت کے پیوند کو آئینه هستی میں تکامل و کمال کا سبب جاننا چاهئے، کیونکه یهاں پر صفات جلال و جمال الٰهی ایک جگه پر آئینه صفات میں منعکس هوتے هیں ـ اس لئے اسلام ازدواج کے بارے میں غیر معمولی اهمیت کا قائل هے، اور اس سلسله میں ازدواجی زندگی کے پیوند میں همسر (شریک حیات) هونا سب سے اهم اصول جانا گیا هے اور اس همسری کا لازمه مرد اور عورت کا ایک دوسرے کو دقیقا اور عمیقق صورت میں پهچاننا هے اور هر جهت سے عمیق و دقیق اور جذبات سے بالاتر صورت میں ایک دوسرے کو پهچاننے کا نتیجه کامیاب ازدواج هوسکتا هے ـ
اس سلسله میں امام خمینی (رح) تحریر الوسیله میں یوں فرماتے هیں: "بهتر یه هے که انسان اپنی زندگی کا ساتھی چننے کے سلسله میں اس کےصفات کے بارے میں تحقیق کرتے وقت لاپروائی اور بے توجهی سے کام نه لے" ـ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے ایک روایت میں نقل هوا هے که آپ (ص) نے فرمایا: "اپنے لئے ایسی عورت کا انتخاب کرنا که جو پاک و طاهر خاندان سے تعلق رکھتی هو، کیونکه اس قسم کے خاندان اپنی اولاد کی پرورش میں عمیق اثر رکھتے هیں"ـ ایک اور روایت میں آنحضرت (ص) سے نقل کیا گیا هے که : "اپنے لئے ایسی شریک حیات کا انتخاب کرنا جو پاک قبیلوں سے تعلق رکھتی هو کیونکه فرزندان اپنے ماموں سے وراثت میں صفات حاصل کرتے هیں "ـ[1]
حضرت امام صادق علیه السلام سے، شریک حیات کے انتخاب کے سلسله میں اتهمام و دقت کرنے کے بارے میں یوں نقل کیا گیا هے: "غور کرنا که اپنے آپ کو کس کے ساتھـ هم نشین کرتے هو؟ اور کس کو اپنے مال و دولت میں شریک قرار دیتے هو؟ اور کس کو اپنے اسرار اور دین کے بارے میں آگاه کررهے هو؟ پس اگر اس کام کو انجام دینے میں مصمم هوتو، ایک ایسی پاک دامن عورت کا انتخاب کرنا جو نیکی اور حسن اخلاق میں مشهور هو ـ"[2]
اس کے علاوه حضرت (ع) سے ایک اور روایت نقل کی گئی هے که آپ (ع) نے فرمایا: "عورت گلو بند کے مانند هے جسے گردن میں آویزان کیا جاتا هے، پس دیکھـ لو که کونسے گلوبند کو اپنی گردن میں آویزان کر رهے هو"[3]
ان قابل قدر بیانات سے واضح هوتا هے که ازدواج کا مسئله ایک حساس اوراهم مسئله هے اس لئے اس میں کافی دقت، احتیاط، فکر و تحقیق کے بعد فیصله لینا چاهئے کیونکه خاندان کی تشکیل کا یه اهم مرحله اسلامی معاشره کی تشکیل کا پهلا اقدام هے ـ اس طرح یه آئنده نسل کی پیدائش کے لئے بھی براه راست ارتباط کا سبب هوگا ـ اس لحاظ سے معلوم هوتا هے که اس سلسله میں عاقلانه اور جوانی کے جذبات سے بالاتر فیصله لینا چاهئے ـ اس بنا پر اگر هم ازدواج کے حساس اور فیصله کن مسئله پر عاقلانه اور حقیقت پسندانه نگاه ڈالنا چاهیں تو اس سلسله میں انٹرنیٹ پر جستجو کرنے کو ایک مناسب طریقه نهیں سمجھا جاسکتا هے ـ هم اس کی تجویز نهیں دے سکتے هیں کیونکه اس طریقه سے مثالی شریک حیات کے انتخاب کے سلسله میں عمیق اور دقیق تحقیق کرنا ممکن نهیں هے ـ اگرچه جستجو کرنے والا ایک هوشیار اور زیرک فرد بھی هو ـ البته قابل ذکر بات هے که ممکن هے اس راه سے جستجو کرنے کے نتیجه میں علم و فن سے دلچسپی وغیره جیسے بعض سطحی صفات کو معلوم کیا جاسکے ـ
اما جن صفات کے لئے زیاده دقت اور تحقیق کی ضرورت هے، وه انٹرنیٹ کےعلاوه دوسرے طریقوں سے معلوم کی جاسکتی هیں ـ دوسرے الفاظ میں، انٹرنیٹ سے اس کی توانایئوں، امکانات اور اس پر حاکم فضا کے مطابق توقع کی جانی چاهے، نه اس سے زیاده ـ اس بنا پر آپ کے سوال کے دوسرے حصه کی طرف اشاره کیا جاسکتا هے اور اس سلسله میں جواب دیاجاسکتا هے که چونکه انٹرنیٹ ایک مثالی شریک حیات کے مکمل صفات کی تحقیق کرنے کی صلاحیت نهیں رکھتا هے لهذا فطری طور پر یه اقدام پائدار نهیں هوسکتا هے کیونکه اس اهم امر کے مقدمات عینی واقعات پر مبنی هیں جس قدر ازدواج کے مقدمات اور بنیادیں احساسات، ناپائدار جذبات اور غیر منطقی بنیادوں پر هوں، اس میں کم تر کامیابی حاصل هوگی اس لئے قطعی طور پر انٹرنیٹ کے ذریعه انجام پانے والی ازدواج کو بالکل ناکام طریقه نهیں کها جاسکتا هے جس طرح اس کی کامیابی کی بھی کوئی ضمانت نهیں دی جاسکتی هے بلکه یه کچھـ ایسے مقدمات کے تابع هے که ان میں سے سب سے اهم شریک حیات کی صفات کے بارے میں دقیق و عمیق پهچان حاصل کرنا هے اور مرد اور عورت کی زندگی کے مقاصد میں هم آهنگی هے که دوسرا مطلب بیشتر اهمیت کا حامل هے، لیکن اس قسم کے ازدواج کے کامیاب یاناکام هونے کے سلسله میں ثقافت، اجتماعی طبقات اور دین کے رول سے چشم پوشی نهیں کی جاسکتی هے ـ
انٹرنیٹ کے ذریعه ازدواج کا فقهی پهلو:
انٹرنیٹ کے ذریعه ازدواج کے دو ابعاد هیں:
الف: نا محرم سے گفتگو کرنا
ب : انٹرنیٹ کے ذریعه عقد جاری کرنا
پهلا پهلو نامحرم سے گفتگو کرنا:
نامحرم سے گفتگو کرنے کے سلسله میں قطعی طور پر کها جاسکتا هے که، اگر یه گفتگو غیر ازدواج کے کے علاوه دوسرے مقاصد سے بھی مربوط هو، جائز هے اور یه کام حرام نهیں هے ـ مگر یه که وه گفتگو شهوت کو ابھارنے کا سبب بنے یا اس قسم کی گفتگو فعل حرام کے مرتکب هونے کا سبب بنے تو اس صورت میں حرام کا حکم دیا جاسکتا هے
امام خمینی (رح) فرماتے هیں: "اقویٰ یه هے که نامحرم عورت کی آواز سننا، اگر اس میں قصد لذت و شهوت رانی نه هو، جائز هے ـ اسی طرح عورت بھی نا محرم مردوں کی آواز سن سکتی هے بشرطیکه اس میں برے اثرات نه هوں، البته احتیاط کا تقاضا هے که جوان عورت کی آواز غیر ضروری مواقع پر نهیں سننی چاهئے "[4]
لیکن اگر ازدواج کرنے کا مقصد هو، تو اسلام نے یهاں پر دوراندیشی پر مبنی حکم دیا هے، یهاں تک که ازدواج کے قصد و نیت سے نا محرم عورت کی زیبائیوں تک کو دیکھنا جائز قرار دیا هے [5] اس سے گفتگو کرنے اور اس کی آواز سننے کی بات هی نهیں یه تو نچلے درجے کے امور هیں ـ
امام خمینی (رح) نے اس سلسله میں فرمایا هے : "نامحرم عورت کو ازدواج اور شناخت کی غرض دیکھنا جائز هے، بشرطیکه قصد لذت اور شهوانی استفاده کا قصد نه هو ـ اگر پهچان حاصل نه هوسکی تو دوسری بار بھی دیکھا جاسکتا هے ـ"[6]
دوسرا پهلو انٹرنیٹ کے ذریعه عقد پڑھنا:
انٹرنیٹ کے ذریعه عقد جاری کرنے کے بارے میں بعض معاصر فقها کا یه عقیده هے که: "تحریری عقد حتی نکاح میں بھی جائز اور نافذ هے اگر چه لفظی عقد جاری کرنے میں احتیاط هے ـ"[7] لیکن ان میں سے اکثر کا یه نظریه هے که اگر عقد صرف انٹرنیٹ کے ذریعه ، مثال کے طور پر ای میل کے ذریعه جاری هو جائے اور اس میں عورت مرد کے لئے یوں لکھے: "زوجتک نفسی علی الصداق المعلوم" " میں نے معلوم مهریه پر اپنے آپ کو تیری بیوی قرار دیا"، "اور مرداس کے جواب میں لکھے "قبلت الزواج" "میں نے قبول کیا" تو اس قسم کا ازدواج باطل هے اور قابل اعتبار نهیں هے ـ[8] لیکن اگر عقد کو بزریعه آواز جاری کیا جائے، اس طرح که مرد اور عورت یا ان کے وکلاء ایک دوسرے کی آواز کو سنیں، تو اس صورت میں عقد صیحح هے اور اگر انٹرنیٹ ٹیلیفون کے مانند کام کررها هو، تو شیعه فقها ٹلیفون پر عقد کو جاری کرنا جائز جانتے هیں ـ
[1] تحریر الوسیلة، کتاب نکاح، مسئله اوّل، ص 694.
[2] ایضاً
[3] ایضاً
[4] تحریر الوسیلة، کتاب نکاح، مسئله 29، ص 701.
[5] اللمعة الدمشقیة، کتاب نکاح.
[6] تحریر الوسیلة، کتاب نکاح، مسئله 28.
[7] آیت الله هادوی تهرانی در اعلام نظر کتبی.
[8] امام خمینی (رح) عقد نکاح اور اس کے احکام کے بارے میں فرماتے هیں: "صرف طرفین کی رضامندی اور اسی طرح صرف عقد کا نکاح میں لکھنا کافی نهیں هے ـ
آیت الله سیستانی فرماتے هیں: عقد نکاح دائم اور موقت میں ایجاب و قبول لفظی عقد کے صیحح هونےکی شرط هے اور طرفین کی صرف رضا مندی اور تحریر کافی نهیں هے ـ منتخبه مسائل، مسئله 953