١- آیه کریمه "الله نور السموات والارض" میں مسلما " نور" سے مراد حسی ومحسوس نور نهیں هے- کیونکه محسوس نور جسم پر عارض هونے والی مادی خصوصیات و کیفات والانور هے ، چونکه عقلی ادله خدا وند متعال کے لئے جسمانیت کے منافی هیں ، اس لئے خدا کے نور کو هم محسوس نور نهیں که سکتے هیں-
اس کے علاوه بهت سی آیات الهی خدا وند متعال کو آنکهوں سے درک کر نے اور هر چیز سے مثال دینے کی نفی کرتی هیں ، جو خدا کے جسمانی نه هو نے کی قرآنی دلیل هے اور اس لحاظ سے اگر خدا وند متعال کی " آسمانوں اور زمین کے نور"سے تعبیر کی گئی هے ، تواس سے مراد محسوس نور نهیں هوسکتا هے-
٢- "نور" ایک ایسی چیز هے جوظاهر بالذات اور مظهر غیر هے – یعنی روشنی اور روشنی دینے والااور پیدا اور پیدا کر نے والا هے ، خواه محسوس نور هو ، جیسے سورج کانور، ستاروں اور چراغ کا نور اورخواه غیر محسوس نور هو جیسے علم و ایمان کا نور –
لیکن نور کے بارے میں جوابتدائی معنی ذهن میں پیدا هوتے هیں ، وه وهی حسی نور هے، تا ھم نور پر دقت غور کر نے سےمعلوم هوتا هے که نور کے معنی وهی " ظاهر بالذات ومظهر غیر " هے- اس کا تجزیه کر کے امور معنوی پر نور کا اطلاق، جو روح و جان وباطن کو روشنی بخشنے والا هے، صحیح هوگا –چنانچه قرآن مجید" ایمان" کو ایک ایسے نور کے عنوان سے یاد کرتا هے، جو مومن کو عطاکیا جاتا هےاور عرفا نے "عشق" کو نور سمجهاهے-
٣- چونکه خداوند متعال کی ذات واضح اور روشن هے اور دوسری تمام چیزوں کی روشنی کی پیدائش کا سبب هے اور خدا وند متعال ان سب چیزوں کا خالق اور پیدا کر نے والاهے ، اس لئے لفظ "نور" کا اطلاق خدا وند متعال پر صحیح هے- چونکه هر چیز کا وجود دوسروں کے لئے ظهور کا سبب هے اس لئے کهنا چاهئے که نور کا مکمل مصداق وهی"وجود" هے،لهذا، خدا وند متعال "نور" کا مکمل ترین مصداق هے اور ظاهر بالذات ومظهر حقیقی وهی هے - اس لئے اعتراف کر نا چاهئےکه وه ایک ایسا نو رهے جس کے سبب آسمان اور زمین ظاھر اور روشن هیں-
٤- آسمانوں اور زمین کی تعبیر ، حقیقت میں تمام عالم هستی اور تمام مخلوقات ، غیب و شهود کا ایک کنایه ھے ، نه یه که اس سے مراد یهی همارے سر پر موجود آسمان هو- پس" الله نور السموات" کے معنی یه هیں که: خداوند متعال پوری کائنات کا نور هے-
لیکن یه که آیه شریفه میں "نور" کی تعبیر کی گئی هے نه که " پیدا کر نے والے" کی، یه اس نکته کی طرف انتباه هے که جس طرح نور ظاهر هے اور ظاهر کر نے والے کا محتاج نهیں هے، خدا وند متعال بھی ، خود ظاهر، روشن اور واضح هے اور اس کی معرفت حاصل کر نے کے لئے واسطه اور مظهر کے وجود کی ضرورت نهیں – چنانچه عرفا نے ، انبیاء اور ائمه علهیم السلام کی پیروی میں فر مایا هے که مخلوقات کو خدا وند متعال کے نور کی روشنی میں پهچاننا چاهئے نه یه که خدا کو مخلوقات اور آثار کے وسیله سے پهچانا جائے- اولیائے الهی کے لئے هر چیز نور الهی کی روشنی میں دکھائی دیتی هے اور اس کے نور کے سوا کوئی چیز دکهائی نهیں دیتی هے اور اگر نور الهی نه هو تو تمام چیزیں تاریکی میں نابود هوسکتی هیں – لهذا اس آیه شریفه کا اهم اسفاده یه هے که: خداوند متعال کسی بھی مخلوق کے لئے مجهول نهیں هے ، کیونکه تمام اشیاء کا ظهور اس کے ظهور و اظهار سے ترقی پاتا هے-خدا وند متعال مخفی نهیں هے ، تاکه اس کو اس کی مخلوق کے ذریعه پیدا کیا جائے ، بکه وه متجلی به تمام ذات هے، ناقص معرفت رکھنے والوں کو اس کا مخفی دکهائی دینا ، نور کی فرط شد ت کے سب هو سکتا هے "یامن هواختفی لفرط نوره الظاهر الباطن فی ظهوره"
٥- اس آیه شریفه سے جو دوسرا نکته معلوم هوتا هے ، وه یه هے که : هم خدا کو "نور" کهتے هیں، لیکن "نور اعظم" اطلاق نهیں کرتے هیں-" مانویه" کا یه عقیده که خدا وند متعال "نور اعظم" هے ، یعنی ایک حسی نور جو تمام انوار کے مانند هے ، لیکن بزرگ تر و بالا تر هے، صحیح اور حقیقی نهیں هے – بلکه قرآن مجید کے مطابق خدا وند متعال "نور محض" هے اور یه نور غیر حسی هے ، یعنی صرف عالم وجود کا نور هے ، اور اس کے علاوه هر چیز تاریکی هے – دعاٶں کی تعبیر میں " نور النور" هے، یعنی حقیقی نور وهی هے اور اگر کوئی نور هےتو وه نور حق کے وجود کی برکت سے هے-
٦-آیه کریمه کی تفسیر، تاویل اور تطبیق میں ، مختلف اقوال اور روایتیں پائی جاتی هیں ، ان کی تفصیلات کےلئے سلسله میں تفاسیر اور روایات کے مجموعوں پر مشتمل کتا بوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے-
بیشک، یه جو قرآن مجید میں خداوند متعال کے بارے میں "نور" کی تعبیر کی گئی هے، " الله نور السمور والارض[1]" سے مراد هر گز حسی نور نهیں هے – محسوس نور، خدا کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق هے، چنانچه قرآن مجید میں سوره انعام کی پهلی آیت میں ارشاد ھوتا هے :" ساری تعریف اس الله کے لئے هے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا هے اور تاریکیوں اور نور کو مقرر کیا هے-"
فلاسفه، متکلمین اور مفسرین قرآن میں سے هر ایک نے خدا کے جسم نه هو نے کے بارے میں مضبوط اور مستحکم دلائل پیش کئے هیں-[2] اس لئے"نور"کا نام خداپر محسوس نورکے معنی میں اطلاق نهیں هو سکتا هے،کیو نکه یه جسم کے عنوان سے یا جسم اور جسم پر عارض هو نے والی خصوصیات میں سے هے – مفسرین اور متکلمین میں شاید " فخر رازی" نے دوسروں کی نسبت اس مسئله کی طرف زیاده توجه مبذول کی هے اور آیه شریفه "الله نور السموت والارض" کی تفسیر میں ، خدا کے جسمانی نه هو نے اور اس نور کے محسوس اور جسمانی نه هو نے کے سلسله میں چھـ دلائل پیش کئے هیں[3] ان میں سب سے اهم دلیل یه هے که قرآن مجید میں بهت سی ایسی آیات موجود هیں جو خدا کے حادث اور جسمانی هو نے کی نفی کرتی هیں – جو کچھـ بیان هوا ، اس کے علاوه ، قرآن مجید میں کئی جگه پر ذکر هوئی،آیه شریفه" لیس کمثله شیء" خدا وند متعال کے لئے هر قسم کی مثال اور شباهت کی نفی کرتی هے - لهذا خدا کی نورانیت کبهی محسوس نورانیت نهیں هوسکتی هے، کیونکه اس نورانیت کی بهت ساری مثالیں اور شباهتیں موجود هیں –
نور کے معنی:
علامه طباطبائی لفظ "نور" کے معنی کا یوں تجزیه کرتے هیں که: لفظ نور ایک معروف معنی رکهتا هے ، اور وه عبارت هے که"نور" تاریک اجسام کو همارے دیکهنے کے لئے روشن کرتا هے ، اور اس کے ذریعه هر چیز ظاهر اور هویدا هوتی هے – لیکن خود نور همارے لئے ذاتی طور پر واضح اور هویدا هے اور کوئی چیز اسے ظاهر نهیں کرتی هے ، پس نور عبارت هے وه چیز ، جو "ظاهر بالذات" اور دوسری چیزوں کو ظاهر کر نے والی هے-
یه پهلا معنی هے جو لفظ نور کے لئے وضع کیا گیا هے ، بعد میں اس سے استعاره یا حقیقت ثانویه کے طور پر هر اس چیز کے لئے استعمال کیا گیا هے جو محسوسات کو ظاھر کرتی هے - اس کے بعد اس کے معنی کو غیر محسوس پر بھی اطلاق کیا گیا هے – اس لئے"عقل" کو بھی ایک"نور" کها گیا هے جو معقولات کو ظاهر کرتی هے، اور یه سب استعمال "نور" کے معنی کا تجزیه کر نے سے هاتھـ آتے هیں جو عبارت هیں "الظاهر بذاته المظهر لغیره" سے[4]
اس لئے، لفظ نور سے سمجھـ میں آتا هے که ، وه محسوس نور هے جو اجسام نوری سے پھیلتا هے، جیسے: سورج ، ستارے ، چراغ اور انسان کے بنائے گئے لیمپ – اگر یه نور نه هو تا تو دنیا تاریک هوتی لیکن ان کے وجود سے فضا نورانی اور روشن هے-
لیکن فزیکس کے سائنسدانوں کی نظر میں نور کی حقیقت اور عمیق تعریف کچھـ اور هے اور شاید ان کی نظر میں نور کی حقیقت مکمل طور پر انکشاف نه هوئی هو یا نور کی حقیقت کے بارے میں اختلاف رکهتے هوں- جو کچھـ مسلم هے، وه یه هے که مادی دنیا میں "نور" کے نام سے ایک چیز موجود هے جو ایسے اجزاسے بنی هے جو نورانی هیں اور اصطلاح میں انھیں "منبع نورانی" کهاجاتا هے – لیکن لفظ "نور" کا اطلاق نور حسی تک محدود نهیں هے ، بلکه هروه چیزجو "روشن اور روشن کر نے والی " یادوسرے الفاظ میں "پیدا اور پیدا کر نے والی " هو اسے "نور" کهتے هیں – مثال کے طور پر هم علم کے بارے میں کهتے هیں: "علم نور هے" کیو نکه اس کی ذات میں روشنی هے اور بعض حقائق کو روشن کرتا هے -[5]
چنانچه قرآن مجید مومن کے بارے میں فر ماتا هے:" کیا جو شخص مرده تها پهر هم نے اسے زنده کیا اور اس کے لئے ایک نور قرار دیا جس کے سهارے وه لوگوں کے در میان چلتا هے...[6]" پس قرآن مجید کی ثقافت میں ایمان "نور" هے، اور چونکه ایمان مومن کو قلب اور باطن کی نورانیت بخشتا هے اور اسے اپنا مقصد اور هدف دکهلاتا هے اور سعادت کی طرف رهنمائی کرتا هے ، اس لئے اس پر نور کا اطلاق صحیح هےـ چنانچه عرفا"عشق" کو نور کهتے هیں ، مولاناروم کهتے هیں:
عشق قهاراست ومومن مقهورعشق چون قمر روشن شدم از نور عشق[7]
لفظ"نورکا" خدا پر اطلاق:
خداوند متعال پر لفظ "نور" کا اطلاق بھی صحیح هے ، کیونکه اس قسم کا اطلاق قرآن مجید اور روایتوں میں آیا هے - [8] لیکن اس بات کو مد نظر رکھنا چاهئے ، که جب هم کهتے هیں که "خدانورهے" تو هماری مراد حسی اور مادی نور نهیں هو تی هے ، بلکه اس معنی میں هے که خدا کی ذات، پیدا اور پیدا کر نے والی ذات هے، روشن اور روشن کر نے والی ذات هے ، هر چیز کا پیدا هو نا اور اس کی روشنی اس کی ذات کی روشنی هے لیکن وه خود پیدا اور روشن هے ، کسی چیز نے اسے پیدا اور روشن نهیں کیاهے، اس لحاظ سے هم کهه سکتے هیں که " خدا نور هے-"
علامه طباطبائی فر ماتے هیں: " چونکه هر چیز کا وجود وهستی اس چیز کے ظهور کا سبب دوسروں کے لئے هے، پس نور کا مکمل مصداق، وهی وجود هے اور دوسری جانب چونکه ممکن مخلوقات کا وجود حق تعالی کی ایجاد پر مبنی هے، اس لئے خدا وند متعال نور کا مکمل ترین مصداق هے - وه ظاهربالذات اور اپنے علاوه سب چیزوں کو ظاهر کر نے والاهے ،اور هر مخلوق اس کے وسیله سے ظاهر هوتی هے اور وجود میں آتی هے – اس لئے خدائے سبحان نور هے جس کے وسیله سے آسمان اور زمین ظهور پا چکے هیں اور آیه شریفه " الله نور السموات والارض" [9]سے مراد بهی یهی هے-
مذکوره مطالب کے پیش نظر " الله نور السموات والارض"کے معنی واضح هوئے که اگر هم یه کهیں گے که " خدا آسمانوں اور زمین کا نور" هے تو یه اس معنی میں هےکه خدا آسمانوں اور زمین کو ظاهر کر نے والا ، روشن کر نے والا اور پیدا کر نے والا هے اور آسمانوں اور زمین کی تعبیر پوری عالم هستی هے اور کائنات میں موجود تمام مخلوقات هے- [10]اس سے مراد صرف همارے سر پر موجود آسمان اور همارے پاٶں تلے زمین نهیں هے – اس لئے اس آیه شریفه کے معنی یه هیں : خدا وند متعال تمام کائنات کا نور هے –اور "نور" کی تعبیر" پیدا کر نے والا"نهی هے، بلکه اس مطلب کی طرف متوجه کر نے کے لئے هے که جس طرح "نور" خود ظاهر هے اور اس کے لئے ظاهر کر نے والے کی ضرورت نهیں هوتی هے ، کیو نکه وه مظهر اور تمام اشیاء کو روشنی بخشنے والا هے – خدا وند متعال بھی ظاهر کر نے والے اور پیدا کر نے والے کا محتاج نهیں هے ، وه ایک ظاهر ، واضح اور بدیهی موجود هے اور اس کے وجود کے استدلال کے لئےکسی واسطه کی ضرورت نهیں هے ، کیونکه وه کائنات کی تمام مخلوقات کا خالق اور پیدا کر نے والا هے – حاجی سبزواری کی تعبیر میں : " یا من هو اختفی لفرط نوره" [11]یعنی اے وه که جو اپنے نور کی فرط شد ت کے سبب مخفی هوا هے-
پس چونکه اهل عرفان نے ( انبیاء وائمه اطهار(ع) کی اطاعت کے مطابق) بیان کیا هے که خدا وند متعال خود تمام معانی میں جلوه گر اور کامل روشن هے ، اس کا استخراجی استدلال کیا جانا چاهئے نه که انی استدلال-[12] پهلے خدا کی معرفت پیدا کی جانی چاهئے تاکه اس کی معرفت سے اس کی مخلوقات کی معرفت پیدا کی جائے، نه یه که پهلے مخلوقات کی پهچان حاصل کی جائے پهر خدا کی معرفت حاصل کر نے کی کوشش کی جائے اور خدا کو اس کی مخلوق کے نور کی روشنی میں پهچانا جائے-
چنانچه دعائے عرفه امام حسین علیه السلام میں آیا هے :" الهی ترددی فی الاثار یو جب بعد المزار " " خدا وندا ! تیرے آثار و مخلوقات کی طرف میری توجه میرے لئے تیرے دیدار اور تجھـ سے دوری کا سبب بنتا هے –" امیرالمومنین علیه السلام دعائے کمیل میں فر ماتے هیں :" وبنور وجهک الذی اضاء له کل شیء "[13] تیرے چهره کے نور کی قسم جس سے سب چیزیں روشن هیں-" اگر تیرے چهره کا نور اور تیری ذات نه هو تو سب چیزیں تاریک هیں یعنی کو ئی چیز نهیں هے اور تمام چیزیں تاریکی میں عدم هیں – اگر تیری ذات کا نور نه هو تو تمام اشیاء " نیستی" کی تاریکی میں چلی جائیں گی ، نه یه که اشیاء شب کی تاریکی کے مانند کسی تاریکی میں هیں – پس کهنا چاهئے که : خدا وند متعال صرف نور هے اور اس کے مقابل میں کوئی چیز نور نهیں هے بلکه اس کے مقابل میں تمام نور تاریکیاں هیں ـ چونکه تنها وجود جو اپنی ذات میں پیدا اور پیدا کر نے والاهے ، وه صرف خدا هے ، دوسری تمام اشیاء اگر پیدا اور پیدا کر نے والی هیں تو اپنی ذات میں تاریک هیں اور خدا نے انهیں پیدا اور پیدا کر نے والا بنایا هے- [14]
اس لئے علامه طباطبائی نے اس آیه شریفه کی ایک خوبصورت اندازمیں یوں تفسیر کی هے": پس استفاده کیا جاسکتا هے که خدا وند متعال کسی بھی مخلوق کے لئے مجهول نهیں هے ، کیونکه تمام اشیاء کا ظهور اپنے لئے یا دوسروں کے لئے ، خدا کی جانب سے هے، اگر خدا کسی چیز کا اظهار نهیں کر تا اور مخلوق کو هستی نهیں بخشتا ، تو وه مخلوق ظهور نه پاتی۔ پس هر چیز سے پهلے ، ظاهر بالذات خدا هے ... نتیجه یه که جمله "خدا آسمانوں اور زمین کا نور هے"میں خدا کا "نور " هے که اس عام نور سے ایک عالم ترقی پاتا هے، وه نور جس کے وسیله سے هر چیز روشن هوتی هے اور هر چیز کے "وجود" سے مساوی هے، اور یه وهی خدا کی عام رحمت هے-[15]
لهذا قرآن مجید کی ثقافت کے مطابق ، خدا وند متعال ایک غائب اور ایک مخفی بالذات نهیں هے تاکه اپنی مخلوق اور عالم خلقت، اور آسمان وزمین کے ذریعه کشف اور هویدا هو جائے ، بلکه اس قسم کی معرفت ، ناقص اور کمزور اور ابتدائی هے- حقیقی معرفت یه هے که کائنات کو خدا سے پهچانا جائے ، نه که خدا کو کائنات سے – اور یه آیه شریفه فر ماتی هے که خداوندمتعال کمال میں واضح ، روشن اور بدیهی هے-
"نور" یا "نوراعظم":
اس آیه شریفه سے حاصل هو نے والا ایک اور نکته یه هے که: هم خدا وند متعال کو"نور"کهتے هیں، لیکن "نور اعظم" نهیں کهتے ، یعنی هم ایسے نور رکھتے هیں جن میں سے کچھـ بڑے اور کچھـ چھوٹے هیں اور خدا وند متعال بڑا نور هے – بلکه قرآن مجید کی نظر میں ایک نور سے زیاده کوئی نورنهیں هے اور وه خدا هے اور باقی تاریکی اور نابودی هیں- هاں، چیزوں کے آپسی موازنه میں ایک چیز نور هوتی هے اور دوسری نور نهیں هوتی – مثلا علم و ایمان و عقل وغیره نور هیں ، لیکن انهوں نے اپنی نورانیت خدا وند متعال سے حاصل کی هے – لهذا خدا کے مقابل میں وه نور نهیں هیں یا دوسری تعبیر میں ، خدا وند متعال "نور النور" هے-[16] یعنی تمام نوروں کا نور هے نه یه که نوراعظم هے – پس یه عقیده جو "مانویه" سے منسوب هے که وه خدا وند متعا ل کو "نور اعظم " جانتے هیں، یعنی ایک حسی نور کے عنوان سے لیکن ایک بڑا نور جانتے تهے ، بهر حا ل جو بھی شخص یه عقیده رکهتا هو، یه ایک باطل عقیده هے -[17]
آخر پر هم حضرت امام رضاعلیه السلام کی ایک روایت کی طرف اشاره کرتے هیں که آپ (ع) نے، آیه شریفه" الله نور السموات والارض" کے بارے میں عباس بن هلال کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فر مایا: " وه اهل آسمان کے لئے هادی هے اور اهل زمیں کے لئے هادی هے-" [18]
منابع و ماخذ:
١- جوادی آملی ،عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن کریم، ج١٢، فطرت در قرآن،ص٢٩٧-٢٩١وج ٣، وحسی و نبوت در قرآن، ص١٤٠- ١٣٨-
٢- صدوق، توحید-
٣- طباطبائی ، محمد حسین، تفسیرالمیزان، ،ج١٥، سوره مبارکه نور-
٤- مخر رازی، تفسیر الکبیر، ٢٣، تفسیر آیه " الله نور السموات والارض"-
٥- مطهری، مرتضی، تفسیر سوره نور-
٦- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج١٤، تفسیر سوره نور-
٧- هاشم بحرانی ، تفسیر برهان-
[1] - سوه نور، ٣٥-
[2] - ملاحظه هو: کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص٢٨٧، مٶسسه امام صادق علیه السلام ، علامه طباطبائی ، نهایه الحکمه ، ص٢٧٥-
[3] - فخر رازی ، التفسیر الکبیر، جزء ٢٢،ص٢٢٤-
[4] - طباطبائی ، سید محمد حسین، ، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمه موسوی همدانی ، ج١٥، ص١٧٢-
[5] - مطهری ، مرتضی، تفسیر سور ه نور،،ص١٠١-
[6] - سوره انعام، ١٢٢-
[7] - مولوی، مثنوی، ، دفتر ششم-
[8] - اسمائے الهی میں سے ایک نام "نور "ے – قرآن مجید میں خداوند متعال پر نور کا اطلاق هو نے کے علاوه بهت سی روایتوں میں بھی اس قسم کا اطلاق آیاهے اور"نور" خدا کے ٩٩ ناموں میں سے ایک نام هے – ملاحظه هو صدوق، توحید، ، باب ٢٩، ص١٩٤، حدیث ٨، وص ١٩٥، حدیث ٩وص٢١٩، حدیث ١١.....، خصال ، ج٢، باب ٨٠،ص٥٩٣، حدیث٤، بهت سی دعاٶں ، جیسے دعائے جوشن کبیراور دعائے کمیل وغیره میں خدا کے اس نام یعنی"نور" کاذکر آیا هے –اسلامی عارفوں نے بھی خدا کے ناموں کے بارے میں ذکر کیا هے ان کی تفصیل بیان کر نا یهاں پر ممکن نهیں هے-
[9] - ترجمه المیزان ،ج١٥،ص١٧٢-
[10] - مطهری، مرتضی ، تفسیر سوره نور،ص٩٨-
[11] - سبزواری ، ملاهادی منظومه، بخش حکمت-
[12] - مختلف استدلال کے بارے میں معلو مات حاصل کر نے کے لئے ، منطقی کتابوں ، صناعات خمس اور صنعت برهان کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے-
[13] - مفاتیح الجنان ، دعای کمیل-
[14] - ملاحظه هو: شهید مطهری، مرتضی، تفسیر سوره نور، ص١٠٢-
[15] - ترجمه تفسیر المیزان، ج١٥،ص١٧٣-
[16] - مفاتیح الجنان میں "نور" کے نام سے ایک دعا هے : " یانور یا نور النور" اس کے علاوه دعائے جوشن کبیر میں بهی اس طرح کی تعبیر آئی هے-
[17] - ملاحظه هو: شهید مطهری، مرتضی، تفسیر سوره نور، ص١٠٤، و پاورقی ،ص ٩٩-
[18] - ملاحظه هو: صدوق، توحید، باب پانزدهم ، حدیث اول ، بحرانی، سید هاشم، تفسیر برهان، ج٣،ذیل آیه شریفه-