آزادی کے متعدد اورمختلف معنی ھیں اور مختلف اور گوناگوں معانی کے پیش نظر اس کے حدود بھی مختلف ھیں:
۱۔ وجودی آزادی کے معنی میں ، آزادی (جو وجود مطلق اور خداوند متعال سے متعلق اور اس کی ذات میں منحصر ھے) کی کوئی محدودیت نھیں ھے۔
۲۔ آزادی ، اختیار کے معنی میں (جو ایک فلسفیانھ اور کلامی بحث ھے ) یعنی انسان ارادی افعال کو انجام دینے میں صاحب اختیار ھے ، اگر چھ ممکن ھے کھ قانونی اور شرعی لحاظ سے محدودیت اور ممنوعیت رکھتا ھو۔
۳۔ قانونی آزادی ،( رھائش ، لباس ،پیشھ، اور بیوی کے انتخاب میں آزادی اور بیان و عقیده کی آزادی وغیره) اسلام اور تشیع کی نظر میں اس آزادی کے حدود سے مراد انسان کےمادی ، معنوی دنیوی اور اخروی مصلحتوں سے عدم مزاحمت ھے۔
شھری آزادی ، یا سماجی آزادی ، جو سیاسی مباحث سےمتعلق ھے ، اور یھاں پر زیر بحث آسکتی ھے، اجتماعی آزادی کے باب میں یھ سوال پیدا ھوتا ھے کھ حکومت یا قانون ، کس حد تک انفرادی آزادی کو محدود کرسکتے ھیں؟
اس سوال کا جواب یھ ھے کھ اسلام کے سیاسی طرز تفکر کے مطابق نھ بے حد و حساب آزادی کی تائید کی جاتی ھے ، جو فساد و تباھی کا سبب بنے اور نھ انسان سے بد ظن ھوکر اسے ھر غیر عادلانھ حکومت کو قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ھے جو اس کی پوری وقعت و عظمت کو برباد کرکے رکھدے اور اسے ایک فعال ، مختار ، اور ذمھ دار ھستی کے بجائے ایک ذلیل و پست اراده آلھ کار بناکے رکھدے۔
انسان کی فطرت میں ، آزادی کے برابر کسی چیز کی قدر قیمت نھیں ھے ، چنانچھ اگر کسی شخص کو کسی جگھ پر بند کردیا جائے اور دنیا کی تمام نعمتیں اور لذتیں اسے فراھم کی جائیں، تب بھی وه راضی نھیں ھوگا ، بلکھ وه آزادی کو زیاده پسند کرے گا ۔
انسانی معاشروں میں انبیائے الھی کے نام کے تقدس کے باقی اور محفوظ رھنے کی ایک اھم دلیل ، اس نکتھ میں مضمر ھے کھ انسان کو ایک جھت سے ھمیشھ آزادی کی ضرورت ھے اور یھ اس کے فطری حق ھے اور دوسری جانب سے انبیائے الھی علیھم السلام پھلے افراد تھے جنھوں نے اس عظیم انسانی حق ، یعنی آزادی ، کا دفاع کیا ھے اور اسے پھنچنوانے اور اسے عملی جامھ پھنانے میں کوشش کی ھے اور وه انسان کے لئے معارف کا جو تحفھ لائے ، وه بھترین اصول پر مشتمل ھے اور جو انسانوں کی آزادی کا ضامن اور محافظ بھی ھے ۔ یھی وجھ ھے کھ انبیاء علیھم السلام ھمیشھ انسانوں کے ذھنوں میں زنده ھیں ، اس کے بر عکس سائینس اور ٹیکنالوجی کے موجد ، اگرچھ لوگوں کی ضرورتوں کو دور کرنے کےلئے تلاش و کوشش کرتے ھیں ، لیکن نئی ایجادات اور علم و صنعت میں روز افزوں ترقی کی وجھ سے ان کے نام ایک مدت کے بعد ذھنوں سے محو ھوجاتےھیں ، مثلاً آج کوئی شخص (فراعنھ مصر کے زمانھ کے) شیشھ ایجا کرنے والے کے کارنامے کا قائل نھیں ھے اور اس کا نام تک نھیں لیا جاتا ھے۔
بھر حال آزادی ، انسان کا پیدائشی اور فطری حق ھے اور یھ انسان کا ایک ایسا مطالبھ ھے جو اس کی فطرت میں گھل مل چکا ھے۔
لیکن آزادی کےحق کے بارے میں ، یھ نکتھ قابل توجھ ھے کھ (آزادی کا مفھوم کئی مفاھیم میں سےھے)،جس کےمتعدد معانی ھیں۔ ممکن ھے کوئی شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر آزادی کے معانی میں سے ایک معنی کو دوسرے معنی میں منتقل کرلے! آزادی کے مفھوم کے سلسلھ میں لفظی مغالطھ سے بچنے کے لئے ضروری ھے کھ ھم اس کے مختلف معانی کو پھچان لیں ۔
الف ۔ آزادی " وجوی آزادی" کےمعنی میں
آزادی کے ایک معنی یھ ھیں کھ ایک ھستی ، مکمل طور پر آزاد ھو اور کسی دوسری ھستی کے زیر اثر اور تسلط میں نھ ھو، مثلا جولوگ خدا کا اعتقادنھیں رکھتے ھیں وه کھتے ھیں کھ " عالم ھستی کسی چیز سے وابستھ نھیں ھے اور اپنے پیروں پر کھڑی ھے اور یا وه لوگ جو خداوند متعال کے معتقد ھیں ، لیکن کھتے ھیں کھ خداوند متعال نے کائنات کو تخلیق کرنے کے بعد اسے اپنے حال پر چھوڑدیا ھے اور خلقت کے بعد عالم کو خداوند متعال کی ضرورت نھیں ھے یھ لوگ انسان کے لئے دنیا میں اس قسم کی آزادی کے قائل ھیں ، لیکن اسلام کے نظریھ کےمطابق اس قسم کی آزادی خداوند متعال کی ذات سے مخصوص ھے اور صرف خداوند متعال ھے جس کےلئے کسی قسم کی محدودیت، نھیں ھے صرف اس کی ذات مطلق طور پر آزاد و بے نیاز ھے اور باقی سب مخلوقات اس سے وابستھ اور اس کے نیازمند ھیں۔
ب : " اختیار" کے معنی میں [1]
الھیات ، فلسفھ ، کلام ، اور فلسفیانھ نفسیات سے مربوط ایک اور آزادی کے معنی ھیں جبر کے مقابل آزادی ۔ قدیم زمانھ سے مفکروں اور دانشوروں کے درمیان یھ بحث چل رھی تھی کھ کیا حقیقت میں انساں اپنے طرز عمل میں آزاد اور صاحب اختیار ھے ، یا یھ کھ صرف خیال کرتا ھے کھ آزاد ھے ! لیکن در اصل مجبور ھے اوراپنا کوئی اراده نھیں رکھتا ھے ۔ [2]
اس بحث کے ضمن میں تین نظریئے پائے جاتے ھیں :
۱۔ جبر و بلا اراده : اس نظریھ [3] کے قائل کھتے ھیں کھ انسان ، اپنے اعمال میں ذره برابر اراده نھیں رکھتا ھے اور انسان استاد کے ھاتھه میں ایک باشعور اوزار کے مانند ھے اور جو کچھه واقع ھوتا ھے وه مشیت الھی ھے۔
۲۔ تفویض یا کھلی ڈھیل : اس نطریھ [4] کے پیروکار کھتے ھیں کھ پروردگار عالم نے انسان کو پیدا کیا اور سے دماغ اور پٹھوں وغیره سے تیار کرکے اس کے کام اسی پر واگزار کئے ھیں ، اس لئے ، خداوند معال انسان کے کام اور طرز عمل میں کسی قسم کی مداخلت نھیں کرتا اور قضا و قدر کا بھی کوئی اثر نھیں ھے۔
۳۔ اختیار یا امر بین الامرین[5] : ( نھ جبر نھ تفویض بلکھ ایک قسم کا اختیار)
اس عقیده کو شیعوں نے اھل بیت اطھار علیھم السلام کے بیانات کی پیروی میں اختیار کیا ھے۔ یعنی انسان کی تقدیر خود اسکے ھاتھه میں ھے۔ اور وه اپنے اعمال میں صاحب اختیار ھے ۔ لیکن خداوند متعال کی مرضی اور قضا و قدر الھی کے اثر کے مطابق ، یعنی انسان کے ایک عمل اور مظھر میں دو ارادوں کا اثر ھوتا ھے : " خداوند متعال کا اراده اور ا نسان کا اراده " جب تک نھ یھ دو ارادے ھوں کوئی کام انجام نھیں پاتا ھے۔
البتھ یھ دو ارادے ایک دوسرے کی عرض (مقابلے ) میں نھیں ھیں ، یعنی اس کے لحاظ سے ایک معلول پر دوعلتیں واقع نھیں ھوتی ھیں ، بلکھ یھ دونوں ایک دوسرے کے طول ( زیر اثر ) ھیں ، جس طرح ھر مخلوق کا وجود، وجود الھی کے تحت اور ھر قادر کی قدرت خداوند متعال سے وابستھ ھے ، اسی طرح ھر مختار کا اراده و اختیار خداوند متعال کے اراده و اختیار کے زیر اثر ھے۔
اس نظریھ کا بھت ساده استدلال یھ ھے کھ ، ایک جھت سے خداوند متعال کی خالقیت و ربوبیت میں توحید اور تمام چیزوں کی بھ نسبت خداوند متعال کی قدرت و اراده پر توجھ ھے اور دوسری جھت سے خداوند متعال کی عدالت اور اختیار و آزادی پر عام فطرت کی شھادت و گواھی کی طرف توجھ کرنا ھے۔
قابل توجھ نکتھ یھ ھے کھ اس بحث میں آزادی ، تکوینی آزادی کے معنی میں ھے، جو عینی حقیقت کی حکایت کرتی ھے، اور چونکھ اس بحث سے قانون اور اقدار کی آزادی کا نتیجھ نھیں لیا جاسکتا ھے ، اس لئے لفظی اشتراک کے مغالطھ سے دوچار ھونے کا اندیشھ ھے۔
ج ۔ آزادی ، " عدم دلبستگی "[6] کے معنی میں
آزادی کے تیسرے معنی ، ایک ایسا مفھوم ھے جو زیاده تر اخلاق ، و عرفان میں استعمال ھوتا ھے ، یعنی انسان دنیا ، مادیات اور غیر الھی لذتوں سے دلبستگی نھ رکھے۔ اس کے عشق و محبت ، ذات اقدس الھی سے مخصوص ھوں اور اگر وه کسی شخص یا کسی چیز کو دوست رکھتاھو ، تو اس وجھ سے خدا کی محبت کے تحت ھو کر وه جمال الھی کی ایک کرن ھے۔
آزادی کے یھ معنی جو ایک قابل قدر معنی ھیں۔ مطلق صوت میں مطلوب نھیں ۔۔ یعنی اگر انسان ھر چیز اورھر شخص سے حتی کھ خداوند متعال کے تعلق اور محبت سے آزاد ھو تو یھ قدروں کی مخالفت ھوگی اور ایسی ھی جگھ پر انسان لغزش اور مغالطھ سے دوچارھوسکتا ھے۔
د۔ غلامی کے مقابلھ میں ، آزادی ، یھ ایک اجتماعی مقولھ ھے:
قدیم زمانوں میں [7] غلاموں کی خرید و فروخت کا رواج تھا اور بعض انسان بعض دوسرے انسانوں کو غلام کے طورپر لاتے تھے اور ان سے کام وغیر ه لیتے تھے ، البتھ ایک گروه آزاد رھتا تھا، اور کسی کا غلام نھیں ھوتا تھا۔
اسلام کے ظھور کے بعد، اسلام کی طرف سے غلاموں کو آزاد کرنے کے سلسلھ میں بنیادی اقدام کئے گئے اور حقیقی طریقھ کار پیش کئے گئے جن کو طوالت کے سبب ھم یھاں صرف نظر کرتے ھیں اور مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے اسی موضوع پر تالیف کی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنے کی قارئین کرام سے درخواست کرتے ھیں۔
ھ ۔ قانون اور سیاست کی اصطلاح میں آزادی (حاکمیت کا حق)
آزاد انسان ، وه انسان ھے جو دوسروں کی حاکمیت کے تحت نھ ھو اور اپنی زندگی کی راه اور طرز عمل کا تعیّن خود کرے۔
یھاں دو نظریئے پائے جاتے ھیں:
ایک وه نظریھ جو کھتا ھے کھ : انسان کو بالکل آزادھونا چاھئے اور کسی کی حاکمیت ، حتی کھ خدا کی حاکمتی کو بھی قبول نھیں کرنا چاھئے۔
دوسرا نظریھ شیعون کا نظریھ ھے کھ : انسان کو دوسرے انسانوں کی حاکمیت کے تحت نھیں ھونا چاھئے ، نھ یھ کھ خداکی حاکمتی سے بھی آزاد ھو ، یعنی حاکمیت کا حق بنیادی طورپر خداوند متعال کو ھے اور خداوند متعال اس حق کو انسان میں منتقل کرسکتا ھے۔
اس کا سب سے ساده استدلال یھ ھے کھ خداوند متعال نے ھمارے طبیعاتی اور مادی وجود کو پیدا کرکے اس میں اپنی روح پھونک دی ھے ۔ اس کے علاوه بے شمار نعمتیں ھمیں عطا کی ھیں ، جیسے : ھوا ، پانی ، غذا ، بدن کے اعضاء۔ قوت فکر ، اور ھر وه چیز جو انسان کی زندگی سے متعلق ھے۔ ان مادی و معنوی نعمتوں کے بارے میں خداوند متعال کی مالکیت ختم ھونے والی نھیں ھے۔ اب جبکھ خداوند متعال مالک ھے اور ھم اس کے بندے ھیں اس عقلی حکم کے مطابق کھ " مالک اپنی ملکیت میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرسکتا ھے پس خداوند متعال کو حق ھے کھ ھم میں ھر قسم کا تصرف کرے اور ھمیں اس کی مرضی کو تسلیم کرکے اس کا مطیع ھونا چاھئے۔ اس کے علاوه خالق اور پروردگار کے برابر کوئی بھی ھماری خصوصیات اور ھمارے وجودی کمالات کے بارے میں علم نھیں رکھتا ھے ، پس صرف خداوند متعال ھے جو ھماری مصلحتوں اور کمال کا چاھنے والا بھی ھے اور ھمارے کمال تک پھنچنے کے راسته سے بھی واقف ھے ۔ اس لئے اگر ھم اپنی مصلحتوں کو چاھتے ھیں تو ھمیں اس دین اور دینی روش کی پیروی کرنی چاھئے جسے خداوند متعال نے ھمارے لئے پسند کیا ھے اور ھمیں اس کی حاکمیت کو قبول کرنا چاھئے۔ [8]
و ۔ قانونی آزادی [9]
قانونی آزادی سے مراد یھ ھے کھ انسان کی سماجی زندگی میں ایسے امور پائے جاتے ھیں جنھیں انسان انجام دے سکتا ھے اور حکومت کو ان کے بارے میں ممانعت اور پوچھه تاچھه کرنے کا حق نھیں ھے ۔ جیسے : رھایش ، لباس ، پیشھ ، اور شریک حیات کا انتخاب کرنے کی آزادی اور اظھار و عقیده کی آزادی ، ۔۔۔ [10]
اس سلسلھ میں اس اصول پر رکوئی بحث نھیں ھے کھ حقوق و آزادی مطلق نھیںھیں اور ان کو محدودھونا چاھئے ، دنیا میں ماضی سے آج تک کھیں پر بھی ایسا کوئی قانونی نظام نھیں پایا جاتا ھے ، جس میں لوگوں کو مطلق آزادی دی گئی ھو ، بنیادی طورپو قانون وضع کرنا او رقانونی نظام کی تشکیل کرنا ، بذات خود معاشرے کے افراد کے طرز عمل کے لئے حد بندیاں قرار دینا ھیں ، قابل بحث موضوع " آزادی کے حدود" ھے۔
آج کل عام طورپر کھا جاتا ھے کھ آزادی کی حد ، دوسروں کی آزادی ھے ، یعنی انسان ھر طرز عمل کو انجام دینے میں آزاد ھے ، بشرطیکھ دوسروں کی آزادی کے لئے مانع نھ بن جائے۔ حقوق کے بارے می لیبرالیزم کے قائلین ایسا ھی نظریھ رکھتے ھیں ، لیکن اگر ھم اس مسئلھ کو اسلام کے نقطھ نظر سے چانچنا چاھیں ، تو اس کا جواب یھ ھے کھ آزادی کی حد کو انسان کی مادی ، معنوی ، دینوی اور اخروی مصلحتوں کی بنیاد پر معین کیا جاتا ھے ۔
یعنی ایک طرز عمل کے انتخاب میں آزادی کی شرط یھ ھے کھ یھ آزادی انسان کی مادی اور معنوی مصلحتوں کو پوراکرنے کی ضامن ھو ، [11] یھ مسئلھ اس امر کے مشابھ ھے کھ کھانے پینے کی چیزیں یا دوا بنانے والے ایک کارخانھ کو آزادی دی جائے تاکھ وه ھر قسم کی غذا یا دوا بنائے ، بشرطیکھ انسان کی صحت وسلامتی کے لئے وه چیزیں مضر نھ ھوں ۔ اس قسمکی غذا یا دوا بنانے والے کارخانھ کے بارے میں جوں ھی یھ معلوم ھو جائے کھ ممکن ھے اس کی غذا یا دوا میں کسی قسم کا زھریلا مواد موجود ھے ، تو اس کارخانھ پرپابندی لگائی جاتی ھے ، یھاں پر تجارت کی آزادی کی بات نھیں ھے اور کوئی شخص یھ نھیں کھتا ھے کھ یھ ممانعت حقوق انسانی کے خلاف ھے ، زیاده سے زیاده دنیا میں جس چیز پر توجھ کی جاتی ھے وه یھ ھے کھ جسم و بدن کو ضرر پھنچانے والی چیز پر نظر رکھی جائے ، لیکن اسلام مالی و جانی نقصانات کے علاوه انسان کے روحانی اور معنوی نقصانات کو بھی مد نظر رکھتا ھے۔
آخری نکتھ:
شھری یا اجتماعی آزادی جو سیاسی آزادی میں قابل بحث ھے اس مقولھ کے تحت آتی ھے اور اجتماعی آزادی کے بارے میں اصلی سوال یھ ھے کھ حکومت اور قانون کس حد تک انفرادی آزادی کو محدود کرسکتے ھیں؟ اس سوال کا جواب یھ ھے کھ اسلام کے نظریھ کے مطابق اگرچھ انسان الھی فطرت کا مالک ھے جو اسے خیر و نیکی کی طرف دعوت دیتی ھے [12] لیکن یھ مخلوق یعنی انسان ایک مادی طبیعت بھی رکھتا ھے جس میں حیوانی رجحانات پائے جاتے ھیں ۔ انسان کو اپنی طبیعت پر فطرت کے غلبھ پانے سے سعادت حاصل ھوتی ھے ۔ لیکن اس دوران اس کی طبیعت بھی مناسب حد تک ھونی چاھئے۔
دوسری جانب ، قانون سازی اور انسان کی دنیوی راه الھی ھدیت اور وحی الھی کی روشنی میں معین ھونی چاھے ،کیوں کھ یھ خداوند متعال ھی ھے جو انسان کی مصلحت اور فساد کے بارے میں آگاه ھے ، اس توصیف کے پیش نظر ، اسلامی نظریھ کے مطابق نھ لا محدود آزادی کی تائید کی جاتی ھے ، جو فساد و تباھی کا سبب بنے اور نھ بد ظنی کی نگاه سے کسی ظالم حکومت کو قبول کرنے پر انسان کو مجبور کیا جاسکتا ھے ، جو اس کی تمام عظمت و وقعت کو نابود کرکے رکھدے اور اسے ایک فعال اور مختار مخلوق کے بجائے کم ھمت اور ذلیل وجود بنادے۔ [13]
اس مقالھ کو مرتب کرنے میں جن منابع سے استفاده کیا گیا ھے وه حسب ذیل ھیں:
۱۔ نظریھ حقوق اسلامی " تالیف : محمد تقی مصباح یزید ، ص ۳۰۳ ، ۴۰۰
۲۔ " راه سعادت" تالیف : ابو الحسن شعرانی ، ص ۹۷ و ۹۸۔
۳۔ " اصول اعتقادات " تالیف : اصغر قائمی ، ص ۷۸ و ۸۴۔
۴۔ " ولایت و دیانت" تالیف : مھدی ھادوی تھرانی ، ص ۱۳۱۔ ۱۳۴۔
[1] اس سلسلھ میں ملاحظھ ھو : عنوان : " انسان و اختیار" سوال نمبر ۵۱ ( سائت: )
[2] اس سلسلھ میں ملاحظھ ھو ، عنواں : " اسلام وجبر و اختیار " سوال نمبر ۱۳۰ ( سائٹ: )
[3] اکثر ، بلکھ تقریبا پورا اھل سنت معاشره آج اسی نظریھ کا قائل ھے۔
[4] اس نظریھ کے حامی معتزلھ کا نام سے اھل سنت کا ایک گروه تھا ، یھ گروه ختم ھوچکا ھے اور آج اس کے حامی نھیں پائے جاسکتے ھیں۔
[5] اس سلسلھ میں ملاحظھ ھو ، عنواں : " امر بین الامرین" سوال نمبر ۵۸ ( سائٹ: )
[6] اس سلسلھ میں ملاحظھ ھو ، عنواں : " دین و آزادی " سوال نمبر ۷۴ ( سائٹ: )
[8] یھ حاکمیت اسلامی حکومت کے نطام ( ولایت فقیھ) کی صورتمین شھرت پاچکی ھے ، اس سلسلھ میں ملاحظھ ھو ، عنوان : " ولایت فقیھ و آزادی"۔
[9] قانون میں آزادی کی بحث کا صرف انفرادی ، ذاتی اور خصوص طرز عمل سے متعلق نھیں ھے کھ قانون اسے محدود کرنا چاھے یا نھ ، بلکھ یھ ان امور سے متعلق ھے جو سماجی زندگی سے مربوط ھیں۔
[10] اس سلسلھ مین ملاحظھ ھو ، عنوان : " آزادی عقیده و اعدام مرتدین اسلام" سوال نمبر ۵۳ ، اور " معیار و محدوده ھای آزادی بیان " سوال نمبر ۹۲ ( سائٹ: )
[11] اس سلسلھ میں ملاحظھ ھو ، عنوان ، " دین و آزادی " ، سوال نمبر ۷۴، ( سائٹ: )
[12] " فطرۃ اللھ التی فطر الناس علیھا " (سوره روم / ۳۰)
[13] مھدی ھادوی تھرانی ، " ولایت و دیانت" ص ۱۳۳، ۱۳۴۔