وسیلھ ( واسطھ ) کےکافی وسیع معنی ھیں اور خدا کے نزدیک ھونے کا سبب بننے والا ھر کام اور ھر چیز اس میں شامل ھے ، چونکھ کائنات ، انسان کے رشد و کمال کی طرف ھدایت کے لئے ، نظام علت و معلول اور اسباب و مسببات کی بنیاد پرتخلیق کی گئی ھے ، اور جس طرح انسان کی فطری ضرورتیں مادی عوامل و اسباب سے پوری ھوتی ھیں ، اسی طرح خداوند متعال کے معنوی فیوض اور برکتیں بھی ھیں ، جیسے، انسانوں کی ھدایت ، مغفرت ، تربیت ، تقرب و منزلت بھی خاص نظام کی بنیاد پر معین اسباب و علل کی راه سے انسان کو ملتی ھیں اور ان واسطوں کے بغیر ممکن نھیں ھے کھ انسان ان فیوض و برکتا تک پھنچ جائے اور تقرب الھی سے باریاب ھوجائے۔ قرآن مجید کی آیات اور روایتوں میں بھی یھ علل و اسباب پھچنوائے گئے ھیں اور تقرب الھی ان واسطوں کے بغیر ممکن نھیں ھے ۔
اس سوال کا جواب دینے سے پھلے واسطھ اور وسیلھ کےمعنی واضح ھونا ضروری ھیں :
علامھ طباطبائی آیھ شریفھ : ' یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللھ و ابتغوا الیھ الوسیلۃ "[1] کی تفسیر میں وسیلھ اور واسطھ کے معنی بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں : "بارگاه الھی میں وسیلھ کی حقیقت ، راه خدا کا لحاظ رکھنا ھے اس طرح کھ اولا : اس کے احکام کے بارے میں علم حاصل کریں ، اور ثانیاً : اس کی بندگی کریں اور ثالثاً نیک اعمال اور مستحبات پر عمل کرنے کی جستجو کریں ۔۔۔ اور چونکھ " وسیلھ" ایک قسم کا توسل اور خداوند متعال ۔۔۔ جو مکان وجسمانیت کے لحاظ سے منزه و پاک ھے ۔۔۔ کے بارے میں توسل معنوی طورپر رابطھ پیدا کرنا ھے جو بنده اورپروردگار کے ساتھه بنده کو ملاتا ھے اور چونکھ بنده اورپروردگار کے درمیان عبودیت کے علاوه کوئی رابطھ نھیں ھے، لھذا وسیلھ کے معنی انسان کو اپنےاندر عبودیت کی حقیقت کو راسخ کرنا اوربارگاه الھی میں فقیر و مسکین کی صورت اختیار کرنا ھے پس آیھ شریفھ میں وسیلھ کا مطلب یھی رابطھ ھے " [2]
تفسیر نمونھ میں مذکوره آیھ شریفھ کی تفسیر کے ضمن میں ، وسیلھ کے معنی یوں بیان ھوئے ھیں : "وسیلھ کے بھت ھی وسیع معنی ھیں اور ھر کام اور ھر چیز جو بارگاه الھی سے نزدیک ھونے کا سبب بنے وه اس میں شامل ھے ، ان میں سب سے اھم پروردگار اور پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم پر ایمان ، جھاد اورعبادات ، جیسے: نماز ، زکواه ، روزه ، خانھ خداکی زیارت (حج) ، صلھ رحم ، خدا کی راه میں انفاق کرنا ، خواه انفاق مخفی ھو یا علانیھ اور اسی طرح ھر نیک کام ھے، اس کے علاوه پیغمبروں(ع) ، اماموں (ع) اور اولیائے الھی کا توسل ، قرآن مجید کے واضح حکم کے مطابق تقرب الھی حاصل ھونے کا سبب بنتا ھے اور توسل کے وسیع مفھوم میں شامل ھے ، اس طرح پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم و ائمھ اطھار علیھم السلام کی پیروی کرنا اور انکے نقش قدم پر چلنا سب تقرب الھی کا سبب بن جاتے ھیں ، حتی کھ خداوند متعال کو انبیاء ، ائمھ اطھار اور اولیائے الھی کی قسم دلانا۔۔۔۔" [3]
پس قرآن مجید میں مذکوره آیات کے علاوه ، سوره یوسف کی آیت نمبر ۹۷ میں ارشاد ھوا ھے : " یوسف کے بھائیوں نے اپنے باپ ( حضرت یعقوب علیھ السلام ) سے درخواست کی کھ بارگاه الھی میں ان کے لئے استغفار کریں اور باپ نے بھی ان کی درخواست قبول کی " ۔
سوره توبھ میں بھی حضرت ابراھیم علیھ السلام کے اپنے باپ کے حق میں توبھ کا موضوع آیا ھے ، جس سے دوسروں کے گناھون کو بخش دینے میں انبیاء علیھم السلام کی دعا کی ضرورت واضح ھوتی ھی ۔ [4]
شیعھ اور سنیوں سے نقل کی گئی متعدد روایتوں میں توسل کی ضرورت اور اسکی اھمیت کے بارے میں وضاحت کی گئی ھے۔
سمھودی ( اھل سنت ) کی تالیف کی گئی کتاب " وفاء الوفاء" میں آیا ھے کھ : پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور آپ کے مقام و شخصیت سے مدد اور شفاعت کی درخواست کرنا جائز ھے ، آپ (ع) کی خلقت سے پھلے اور آپ (ع) کی پیدائس کے بعد، آپ (ع) کی رحلت سے پھلے اور رحلت کے بعد عالم برزخ و قیامت میں بھی جائز ھے [5]
ان جملوں کے بعد انھوں نے حضرت آدم علیھ السلام کے پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے توسل کرنے کے بارے میں عمر بن خطاب سے ایک روایت نقل کی ھے کھ : " حضرت آدم علیھ السلام نے پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و الھ سلم کی خلقت کے بارے میں ھونے والی معلومات کے مطابق پروردگار عالم سے عرض کی : "یا رب اسئلک بحق محمد لما غفرت لی " [6] " خداوندا ! محمد کے واسطے تجھه سے درخواست کرتا ھوں کھ مجھے بخش دے " اسی طرح سنی راویوں من جملھ نسائی و ترمذی سے ایک اور حدیث نقل کرتا ھے کھ : " ایک نابینا نے بیماری سے شفا پانے کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے دعا کی التجا کی ، پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے اس سے امر کیا کھ یوں دعاکرے : " خداوندا ! میں تجھه سے ، تیرے پیغمبر صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم ، پیغمبر رحمت کے واسطے التجا کرتا ھوں ، تیری جانب رخ کرتا ھوں ، اے محمد (صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم ) : میں نے بارگاه الھی میں آپ کی طرف توجھ کی ھے کھ میری حاجت پوری کرنا ، خداوندا ! پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کو میرا شفیع قرار دے "[7]
اس کے علاوه بیھقی سے نقل کرتا ھے کھ خلیفھ دوم کی خلافت کے زمانھ میں دو سال قحط کے گزرے ، حضرت بلال چند صحابیون کے ھمراه پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی قبر پر آئے اور یوں کھا: " اے پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اپنی امت کے لئے طلب باران فرمائیے کیونکھ پانی نھ ھونے کی وجھ سے وه ھلاکت کی حالت میں ھیں ۔۔۔۔"[8] ،[9]
البتھ ، همیں وسیلھ اور واسطھ کی کیوں ضرورت ھے ؟ اس کا جواب یھ ھے کھ کائنات ، انسان کے رشد و کمال کی طرف ھدایت کےلئے ، نظام علت و معلول اور اسباب و مسببات کی بنیاد پر تخلیق کی گئی ھے اور انسان کی ضرورتوں کو مادی اسباب و عوامل سے اور کبھی غیر مادی عوامل سے پورا کیا جاتا ھے ، حقیقت میں وسیلے اور واسطے قرب الھی حاصل کرنے کےلئے اسباب و علل کا کام کرتے ھیں ، کیوں کھ خداوند متعال کے فیوض ، جیسے: ھدایت ، مغفرت ، تربیت ، وغیره بھی ایک خاص نظم و انتظام کے تحت انسانوں پر نازل ھوتے ھیں اور خداوند متعال کے حکیمانھ اراده کا تقاضا ھے کھ یھ امور خاص اسباب اور معین علل کے توسط سےا نسان کو ملیں ، اس لئے جس طرح عالم ماده میں ، یھ سوال اھم ھے کھ پوچھا جائے : خداوند متعال نے زمیں کو سورج کے ذریعھ کیوں نورانی کیا ھے ؟ انسان اپنی پیاس کو پانی سے کیوں دورکرتا ھے ؟ خداوند متعال ، ان واسطوں کے بغیر اپنی مخلوقات کی ان ضروتوں اور دوسری تمام ضرورتوں کو کیوں پورا نھیں کرتا ھے ؟ معنوی عالم میں بھی یھ نھیں کھا جاسکتا ھے کھ خداوند متعال اپنی مغفرت ، تقرب ، اور ھدایت کو وسیلھ اور واسطھ کے بغیر اپنے بندوں کو کیوں عطا نھیں کرتا ھے؟ بھر حال ، جس طرح پودے پانی ، مٹی اور نور کی مدد کے بغیر کمال تک نھیں پھنچ سکتے ھیں ، انسان بھی فیض الھی کے وسائل سے مدد لئے بغیر مطلوبھ مقصد تک نھیں پھنچ سکتا ھے۔
شھید مطھری کھتے ھیں: "خدا کا فعل ایک نظام کے تحت ھے اور اگر کوئی خلقت کے نظام کی پرواه اور توجھ نھیں کرتا تو وه گمراه ھے ، یھی وجھ ھے کھ خداوند متعال نے گناھگاروں سے ارشاد فرمایا ھے کھ : رسول خدا صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے گھر جائیں اور اس کے علاوه کھ اپنے لئے خود مغفرت کی استدعا کریں، آنحضرت سے بھی التجا کریں کھ وه ان کے لئے مغفرت طلب کریں ، " قرآن مجید ارشاد ھوا ھے[10]: اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناھوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے ، تو یھ خداکو بڑا ھی توبھ قبول کرنا والا اور مھربان پاتے " [11]،[12]
اس سنت الھی کا لحاظ رکھنے کے لئے قرآن مجید کی آیات اور روایات (سنت ) میں وسیلھ قرار دینے اور توسل کے ذریعھ بخشش و تقریب حاصل کرنے کی بھت تاکید کی گئی ھے۔
خداوند متعال ارشاد فرماتا ھے: "[13] ایمان والو! اللھ سے ڈرو اس تک پھنچنے کا وسیلھ تلاش کرو ۔۔۔ "
علامھ طباطبائی شفاعت کی بحث میں ، شفیع ( شفاعت الھی کے وسیلوں ) کے اثر کی طرف یوں اشاره فرماتے ھیں کھ : حقیقت میں جو شخص شفیع سے متوسل ھوتا ھے ، وه اکیلے ھی مقصد تک پھنچنے کے لئے کافی طاقت نھیں رکھتا ھے ، اس لئے اپنی طاقت کو شفیع کی طاقت سے جوڑتا ھے ، اور اس طرح اسے دوگنا کرکے مطلوبھ چیز کو حاصل کرنے میں کامیاب ھوتا ھے ، پس اگر وه یھ کام انجام نھ دیتا اور صرف اپنی ھی طاقت سے استفاده کرتا ، تو وه اپنے مقصد تک نھیں پھنچتا ، کیونکھ اس کی اپنی طاقت ، ناقص ، کمزور ، اور کم تھی ۔۔۔۔ شفاعت سبب کو مکمل کرنے کا ایک وسیلھ ھے۔۔۔۔ [14]
اسی مقالھ کے آخر میں چند نکات کی طرف اشاره کرنا ضروری ھے:
۱) اگرچھ انسان کی مادی ضرورتیں مادی اسباب و علل سے پوری ھوتی ھیں ، لیکن اس کا یھ مطلب نھیں ھے کھ دعا و توسل جیسے غیر مادی اسباب ، مادی ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی کردار نھیں رکھه سکتے ھیں ، بلکھ معنوی اسباب کبھی سبب ساز ھوتے ھیں اور کبھی سبب کو ختم کرنے والے ، یعنی کبھی ان مادی اسباب کا اثر ھوتا ھے ، لیکن ان اسباب کو حاصل کرنے کی بنیاد دعا وغیره سے فراھم ھوتی ھے اور کبھی دعا وغیره مادی اسباب کے اثر کو ختم کرتے ھیں ، مثلا : آگ سے جلانے کا اثر اٹھالیا جاتا ھے اور وه سرد گلستان میں تبدیل ھوجاتا ھے ، بھر حال مسبب الاسباب خداوند متعال ھے اور وه دوا میں دئے گئے اثر کو معنوی اسباب میں بھی دے سکتا ھے۔
2) پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم یا امام علیھ السلام یا ولی خدا کو توسل اور واسطھ قرار دینے کا مراد یھ ھے کھ بارگاه الھی میں اس شخصیت کے مقام و منزلت سے توسل کیا جائے اور حقیقت میں بارگاه الھی میں یھ گرامی منزلت جو مقام رکھتا ھے اس سے استفاده کیا جائے تا کھ خداوند متعال ان کے مقام و مرتبھ کے واسطے سے اپنے ان بندوں کو بھی تقرب الھی کے مقام تک پھنچادے۔[15]
[1] سوره مائده / ۳۵۔
[2] ترجمھ المیزان ج ۵ ص ۵۳۵۔
[3] تفسیر نمونھ ج ۴، ص ۳۶۴،۳۶۷ ۔
[4] سوره توبھ / ۱۱۴۔
[5] وفاء الوفاء ، ج ۳ ص ۱۳۷۱۔، نقل از تفسیر نمونھ ، ج ۴ ، ص ۳۶۷۔
[6] ایضاً
[7] " اللھم انی اسئلک و اتوجھ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ ، یا محمد انی توجھک بک الی ربی فی حاجتی لتقضی لی اللھم شفعھ فی " وفاء الوفاء ج ۲ ، ۱۳۷۲،بھ نقل ایضاً۔
[8] " یا رسول اللھ استسق لامتک فانھم قد ھلکوا۔۔۔ " التوصل الی حقیقۃ التوصل ، ص ۳۲۹۔ نقل از ایضا ً ص ۳۶۸، ۳۶۹۔
[9] تفسیر نمونھ ، ج ۴، ص ۳۶۹، ۳۶۸۔
[10] " و لو انھم اذ ظلموا انفسهم جاؤوک فاستغفروا اللھ و استغفر لھم الرسول لوجدوا اللھ توابا رحیما"
[11] سوره نساء ۶۴،
[12] مجموعھ آثار شھید مرتضی مطھری ج۱ ، ص ۲۶۴۔
[13] سوره مائده / ۳۵۔
[14] المیزان ، ترجمھ ، ص ۲۳۹،و ۲۴۰ مزید آگاھی کے لئے ملاحظھ ھو عنوان " تلاش و نقش آن در سر نوشت آخرت " سوال ۲۸۰۔
[15] ملاحظھ ھو : تفسیر نمونھ ، ج ۴ ، ص ۱۶۷، ۱۷۲۔ المیزان ج ۱، ص ۲۳۹، ۲۶۴۔