مختلف تفاسیر کے پیش نظر، مذکوره آیه شریفه کے مفهوم کے بارے میں مجموعاً پانچ قول بیان کئے گئے هیں- ان میں سے صحیح قول یه هے که اس آیت میں ایک عام، عالمی اور انسانی پیغام هے اور وه یه هے که دین ایک اعتقادی اور قلبی مسئله هے اور اس میں جبرواکراه ناممکن هے اور بنده مختار و صاحب اراده هے- یه قول جبریوں کو مسترد کرنے کی واضح دلیل هے جو کهتے هیں که: " انسان اسلام یا کفر کو قبول کرنے یا عبادات یا گناه انجام دینے اور دوسرے تمام افعال میں مجبور هے-" اور اس کے علاوه اس آیت کے بعد والی آیت میں مفّوضه کے عقیده کو بھی مسترد کرنے کی واضح حجت و دلیل موجود هے، جو کهتے هیں که: " انسان کو پیدا کرنے کے بعد تمام امور انسان کے اراده و اختیار میں قرار دئے گئے هیں اور خداوند متعال دور بیٹھه کر قیامت تک انتظار کر رها هے-" کیونکه آیت کے ذیل اور ما بعد میں ولایت و سنت الهٰی کی وضاحت کی گئی هے که کوئی بھی چیز خدا کی مالکیت اور حکمرانی سے خارج نهیں هے-
به الفاظ دیگر، انسان کے ایمان لانے میں کوئی جبر و اکراه نه هونے کے باوجود بھی کوئی چیز خداوند متعال کی مالکیت اور تسلط سے باهر نهیں هے، بلکه سنت الهٰی کے تحت جو لوگ کفر و طاغوت سے روگردان هوئے اور خدا پر ایمان لائے وه نظام علّت و معلول کے مطابق ایک مستحکم دستاویز سے منسلک هوئے هیں اور بعد والی هدایت اور تاریکی سے روشنی کی طرف بڑھنے کے لئے اپنی راه هموار کی هے اور اس کے برعکس جو لوگ تمام واضح اور آشکار دلائل کے باوجود کفر پر چلتے هیں، تو اسی سنت الهٰی کی بنیاد پر روشنی سے تاریکی کی طرف هانکے جاتے هیں- پس، انسان، انتخاب کی قدرت رکھنے کے باوجود نتیجه اور انتخاب کے ماحصل کے بارے میں کوئی طاقت نهیں رکھتا هے، بلکه سنت الهٰی کے تابع هے- نتیجه کے طور پر مذکوره دو آیات کے مجموعه سے ایک اصول نکالا جا سکتا هے جو ائمه اطهار علیهم السلام کی زبان پر بھی جاری هوا هے که: " لا جبرولا تفویض بل امر بین الامرین-"
آیه شریفه کا مکمل ترجمه: " دین میں کسی طرح کا جبر نهیں هے- هدایت، گمراهی سے الگ اور واضح هو چکی هے- اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کر کے الله پر ایمان لے آیا وه اس کی مضبوط رسی سے متمسک هو گیا هے جس کے ٹوٹنے کا امکان نهیں هے اور خدا سمیع بھی هے اور علیم بھی[1]-"
آیه شریفه کا مفهوم بیان کرنے سے پهلے، مقدمه کے طور پر چند نکات کا بیان کرنا ضروری هے:
۱۔ الفاظ کے معانی:
" اکراه" کے معنی، کسی کو کوئی کام انجام دینے پر مجبور کیا جانا هے- " رشد" هدایت، نجات، صلاح وکمال[2]، کے معنی میں هے اور اس کے مقابلے میں " غیّ " هلاکت کی راه پر جانے کے معنی میں هے[3]- علامه طباطبائی فرماتے هیں: " رشد " مطلب کی حقیقت تک پهنچنے کا درمیانی راسته هے، یه " غیّ " کے مقابلے میں اس کا برعکس هے، اس بنا پر " رشد " و " غیّ " هدایت و ضلالت کے معنی میں هیں[4]-
۲۔ مفسرین کے اقوال:
کلی طور پر " لا اکراه فی الدّین " کے معنی و مفهوم کے بارے میں مفسرین نے پانچ اقوال پیش کئے هیں جو بالترتیب حسب ذیل هیں:
الف: اس سے مراد یه هے که اگر کوئی جنگ کے بعد اسلام قبول کرے تو یه نه کهئے که اس نے جبرواکراه سے اسلام قبول کیا هے[5]-
ب: آیت، اهل کتاب کے بارے میں هے که جزیه کی ادائگی منظور کرنے کے بعد تم انهیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نه کرنا[6]-
ج: اس آیت سے مراد، تمام کفار هیں، لیکن اس کے بعد قتال[7] اور جهاد[8] کی آیتوں کے ذریعه یه آیت منسوخ هو چکی هے[9]-
د: آیت سے مراد، انصار کا ایک معین گروه تھا[10]-
چناچه آیت کی شان نزول بھی ان کے بارے میں ذکر کی گئی هے، اور اس سلسله میں کئی اور باتیں بیان کی گئی هیں، ان میں سے ایک کے مطابق: انصار مسلمانوں میں سے ایک شخص کے پاس ایک سیاه فام غلام تھا اور وه اس پر اسلام قبول کرنے کے لئے دباو ڈالتا تھا- که یه آیت نازل هوئی-
ھ: مفسرین کے ایک گروه کا نظریه هے که، آیت کسی فرد یا گروه کے بارے میں نازل نهیں هوئی هے، بلکه اس میں ایک عالمی اور انسانی پیغام هے-
کها جاتا هے که: دین ایک اعتقادی و قلبی مسئله هے اور اس میں جبرواکراه نا ممکن هے اور انسان مختار اور صاحب اراده هوتا هے، اور یه ایک ایسا قول هے جسے مفسرین، خاص کر عصر جدید کے مفسرین نے بیان کیا هے[11]-
ایسا لگتا هے که ان تمام اقوال میں سے، آخری قول تقریباً صحیح هے- پس اس آیه شریفه سے اطمینان حاصل کیا جا سکتا هے که قرآن مجید کی منطق کا خلاصه یه هے که دین ایک اجباری اور غیر ارادی امر نهیں هے، کیونکه حقیقت واضح هے، راه هدایت و رشد بھی واضح هے اور غیّ و ضلالت کی راه بھی واضح هے، اور انسان ایمان و کفر کو قبول کرنے میں آزاد اور مختار هے- جو بھی اس راه کو قبول کرنا چاهے وه اسے قبول کر سکتا هے اور جو دوسری راه کو چننا چاهے وه اسے چن سکتا هے- بلکه شاید آیه شریفه کے قبل و بعد اور سیاق سے ایک اصل کا استخراج کیا جاسکتا هے، اگرچه اس کا بنیادی استفاده علم کلام میں هے، لیکن دوسرے علوم جیسے سیاست اور اقتصاد وغیره میں بھی اس سے استفاده کیا جا سکتا هے اور اصل وهی هے جو ائمه اطهار علیهم السلام کی زبان سے بیان هوا هے، یعنی: " لا جبرولا تفویض بل امر بین الامرین[12]"- چونکه پهلی آیت میں توحید کی ایک واضح تصویر پیش کی گئی هے که انسان ایک سالم فطرت اور تھوڑی سی دقت و فکر سے، آسانی کے ساتھه حقیقت کو پا سکتا هے، لیکن ممکن هے کج فکر افراد توحید کے بارے میں همیشه غلط تصویر پیش کریں- لهٰذا، یه آیت اور اس کے بعد والی آیت، حقیقت میں ایک کلی اصل پیش کرکے کج فکروں کے لئے راسته بند کرتی هے- به الفاظ دیگر آیه شریفه جبر کے قائلین کو مسترد کرنے کی ایک واضح دلیل هے جو یه کهتے هیں که : " انسان، اسلام اور کفر کو قبول کرنے میں یا عبادات اور گناهوں اور دوسرے تمام اعمال میں مجبور هے"- جبکه حقیقت میں ایسا نهیں هے[13]، اور خداوند متعال نے کسی پر جبرواکراه نهیں کیا هے دوسری طرف مفوّضه کهتے هیں که: " پیدائش کے بعد تمام امور انسان کے اراده و اختیار کے تحت اسے تفویض کئے گئے هیں اور خداوند متعال کناره کشی اختیار کئے هوئے قیامت تک انتظار کر رها هے-" چناچه معتزلی مسلک سے تعلق رکھنے والے ابی مسلم اور کفال نے آیه شریفه کے بارے میں کها هے که: " خداوند متعال نے ایمان کی بنیاد جبرواکراه پر نهیں بلکه انسان کے امکان و اختیار پر رکھی هے، کیونکه خداوند متعال نے توحید کے دلائل کو کافی حد تک بیان فرما دیا هے تاکه هر عذر و بهانه کرنے والے کے لئے ایک قطعی حجت اور حتمی دلیل هو- پس کافر کے لئے اپنے کفر پر باقی رهنے کی کوئی دلیل موجود نهیں هے اور اگر وه پھر بھی اپنے کفر پر باقی رهے تو صرف اس کے ایمان کے سلسله میں جبرواکراه کا راسته باقی هے لیکن یه آیه شریفه { لا اکراه فی الدین } کهتی هے: " ان کے ایمان میں کسی قسم کا جبرواکراه نه کرنا، کیونکه دنیا امتحان کی جگه هے اور جبر و اکراه امتحان و آزمائش کے منافی هے[14]-" یه آیت ان کو مسترد کرنے کے سلسله میں ایک واضح دلیل هے، کیونکه آیه شریفه جبری تفکر کو مسترد کرنے کے بعد، بلا فاصله فرماتی هے: "اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کر کے الله پر ایمان لے آئے وه اس کی مضبوط رسی سے متمسک هو گیا هے جس کے ٹوٹنے کا امکان نهیں هے اور خدا سمیع بھی هے اور علیم بھی-" اور بعد والی آیت کے پیش نظر، جو ولایت و سنت الهٰی کو بیان کرتی هے، سے اطمینان پیدا کیا جا سکتا هے که کوئی بھی چیز خدا کی مالکیت اور تسلط سے خارج نهیں هے- به الفاظ دیگر، اس طرح نهیں هے که چونکه ایمان لانے میں کسی قسم کا جبرواکراه نهیں پایا جاتا هے، اس لئے وه خدا کی مالکیت اور تسط سے خارج هو سکتا هے، بلکه سنت الهٰی کے تحت جو لوگ کفر و طاغوت سے روگردانی کریں اور خدا پر ایمان لائیں وه نظام علت و معلول کے مطابق ایک مستحکم دستاویز سے منسلک هوئے هیں اور بعد والی هدایت اور تاریکی سے روشنی کی طرف بڑھنے کے لئے اپنے لئے راه هموار کی هے اور اس کے برعکس جو تمام واضح اور آشکار دلائل کے باوجود کفر پر چلیں گے، تو اس سنت الهٰی کی بنیاد پر روشنی سے تاریکی کی طرف هانکے جائیں گے- پس انسان، انتخاب کی قدرت رکھنے کے باوجود نتیجه اور انتخاب کے ماحصل کے بارے میں کوئی طاقت نهیں رکھتا هے، بلکه سنت الهی کے تابع هے-
نتیجه: مذکوره بیان کے مطابق یه اصول حاصل هوتا هے : " لا جبر " که آیه شریفه کی ابتداء میں "لااکراه فی الدین " کی تعبیر هے اور " ولا تقویض " آیه شریفه کے ذیل میں " فمن یکفر----" کی تعبیر هے- جو همارے لئے کام کو آسان کرنے کا سبب بن سکتا هے-
[1] بقره ، 256.
[2] قرشى، سید على اکبر، قاموس قرآن، ج 3، ص 100.
[3] ایضاً، ج 5، ص 131.
[4] علامه ی طباطبایى، تفسیر المیزان، ج 2، ص 342.
[5] علامه ی طبرسى، تفسیر مجمع البیان، ج 2،ص 126 ؛ شیخ ابوالفتح رازى، تفسیر رازى، ج 2، ص 330.
[6] عاملى ابراهیم، تفسیر عاملى، ج 1، ص 515 و 516 ؛ تفسیر مجمع البیان، ایضاً ؛کشاف، زمخشرى، ج 1، ص 487.
[7] توبه ، 5.
[8] توبه ، 73.
[9] مجمع البیان، ایضاً - کشاف، ایضاً - تفسیر عاملى،ایضاً.
[10] مجمع البیان، ایضاً - کشاف،ایضاً - تفسیر نمونه، مکارم شیرازى، ج 2، ص 279 و ص 280
[11] مجمع البیان، ایضاً - المیزان، ایضاً - نمونه، ایضاً.
[12] کافی، ج 1، ص160، باب جبر و قدر.
[13] طیب، سید عبدالحسین، أطیب البیان در تفسیر قرآن، ج 3، ص 18.
[14] فخر رازى، تفسیر کبیر، 11 جلدى، ج 3، ص 15.