لغت میں " قرب " کسی چیز کے دوسری چیز کے نزدیک هونے کے معنی میں هے یه نزدیکی، کبھی مکانی لحاظ سے هوتی هے اور کبھی زمانی لحاظ سےـ اس لئے قرب یا مکانی هے یا زمانی ـ عرف عام میں بھی، قرب ایک اور صورت میں استعمال هوتا هے اور اس صورت میں اس کے معنی کسی دوسرے کے نزدیک قدر و منزلت رکھنا هے ـ
فلسفی لحاظ سے قرب کی قسمیں :
فلسفی لحاظ سے قرب کی تین قسمیں هیں: قرب مکانی و( زمانی ) قرب ماھوی اور قرب وجودی ــ لیکن قرب مکانی و زمانی، عالم جسم و جسمانی کے اجزاء سے مخصوص هےــ چونکه خداوند متعال جسمانیت سے مبرّا و منزّه هے اس لئے اس کے بارے میں جسم صادق نهیں آتا هےـ لیکن قرب ماھوی، زید و عمرو کی انسانی ماهیت اور حیوان اور ناطق هونے میں ان کے اشتراک کے مانند هے ـ لیکن خداوند متعال، کا وجود چونکه بے انتها و مطلق هے، اس لئے اس کی ماهیت نهیں هے، لهذا اس قسم کا قرب بھی اس کے بارے میں صادق نهیں آتا هے ـ
لیکن، قرب وجودی، چونکه خداوند معطی و مبداء هر وجود هے اور علت تامه کا معلول سے جدا هونا ممکن نهیں هے ـ اور معلول، علت کی به نسبت ربط محض هے ـ اس لحاظ سے، حق تعالی کا اشیاء سے قرب، خداوند متعال کے اشیاء سے قرب وجودی کے لحاظ سے هے ـ
اشیاء سے خداوند متعال کا قرب:
خداوند متعال کا همارے نزدیک هونے کے سلسله میں، قرآن مجید کی آیات چارقسموں پر مشتمل هیں:
الف: پهلی قسم کی آیات اصل قرب پر دلالت کرتی هیں، که خداوند متعال همارے نزدیک هے ـ
ب: دوسری قسم کی آیات، ایسی هیں، جو اس امر پر دلالت کرتی هیں که ، خداوند متعال دوسروں کی به نسبت همارے نزدیک تر هے ـ
ج: تیسری قسم کی آیات، ایسی هیں، که جو اس بات پر دلالت کرتی هیں که، خداوند متعال رگ حیات (گردن) سے زیاده انسان کے نزدیک هے ـ
د: چو تھی قسم کی آیات، ایسی هیں، جو اس بات کی دلالت کرتی هیں که خداوند متعال خود انسان کی به نسبت اس سے نزدیک تر هے ـ
چو تھی قسم کی آیات کے بارے میں قابل ذکر بات هے که انسان ایک ایسی مخلوق نهیں هے جو اندر سے پر هو، بلکه دوسری تمام ممکن مخلوقات کے مانند اندر سے کھوکھلا هے ـ اس لحاظ سے انسان اور خود اس کے درمیان، خداوند متعال کے وجودی احاطه کا فاصله پایا جاتا هےـ
فلسفه کے لحاظ سے خداوند متعال سے قرب کا طریقه:
واضح هے که خداوند متعال کی کوئی سمت اور جهت نهیں هے تا که اس طریقه سے اس کی بارگاه کے نزدیک هوجائیں ـ بلکه قرب الهی انسان کے وجودی آثار کو تقویت بخشنے سے حاصل هوتا هے، یهاں تک که وه اسماء و صفات الهی کا مظهر بن سکتا هے اور سعادت مندی کی راه میں، جس قدر انسان کے وجودی کمالات زیاده هوں، خداوند متعال سے اس کے قرب کے درجات بھی زیاده هوتے هیں ـ
آیات و روایات کے مطابق قرب الهی اور اس کی کیفیت:
چونکه خداوند متعال تمام چیزوں کے نزدیک هے، اس لئے انسان کو کوشش کرنی چاهئے که شائسته کام انجام دے کر قرب الهی کو حاصل کرے، اور اس راه میں اعمال دو قسم، یعنی فریضه اور نافله میں تقسیم هوتے هیں ـ قرب الهی کے سلسله میں محوری اور کلیدی رول ادا کرنے والے اعمال، کام میں معرفت اور اخلاص هے اور باقی اعمال، جیسے: تواضع، نیک اخلاق، نیکی اور احسان وغیره، نافله کے حکم میں آتے هیں ـ
لغت میں " قرب " کسی چیز کے دوسری چیز کے نزدیک هونے کے معنی میں هے ـ یه نزدیکی کبھی مکان کے لحاظ سے هوتی هے اور کبھی زمان کے لحاظ سے هوتی هے ـ لهذا کها جاتا هے که فلاں چیز ( مکان کے لحاظ سے ) کسی دوسری مشخص چیز کے نزدیک هے اور ان دو کے درمیان فاصله اس قدر هے ـ یا یه که کل ( زمانه کے لحاظ سے ) آج کی به نسبت، گزشته دو روز سے نزدیک تر هےـ البته عرف عام میں قرب کا ایک اور معروف استعمال بھی پایا جاتا هے، که " قرب " ایک خاص فرد کے قابل توجه هونے اور قدر و منزلت رکھنے اور درجه و وقار رکھنے کے معنی میں هے ـ
فلسفی لحاظ سے قرب کی قسمیں:
فلسفی لحاظ سے قرب کی تین قسمیں هیں: قرب مکانی (و زمانی )، وه قرب جو وجودی لحاظ سے اتصال کے معنی میں هے اور وه قرب جو ماهیت کے لحاظ سے اتصال کے معنی میں هے ـ قریب اور دور، ایسے امور سے تعلق رکھتے هیں که، جن کے محقق هونے میں دوچیزوں کی ضرورت هوتی هے ـ مثلا " الف " اور " ب " هونے چاهئے، تا که ان دو کے محقق هونے سے صادق آئے که " الف "، " ب " کے نزدیک هے یا اس سے دور هے ـ اس معنی میں، قرب، مکانی هے که اجزاء میں جسم و جسمانی هونا صادق آتا هے یا قرب، زمان کے لحاظ سے هے که ایک معین و مشخص زمانه کسی دوسرے زمانه سے، کسی تیسرے زمانه کی به نسبت نزدیک تر هے اور ماورائے طبیعت میں، که مفارقات، نواقص اور جسمی حدود سے منزّه هیں اور ان میں حرکت نهیں هے، اور خاص کر حقیقته الحقائق اور هستی بے کراں، جو وجود محض، محض وجود، بسیط الحقیقه اور حقیقت میں بے نیاز هے، میں اس کی کوئی گنجائش نهیں هے که ( ولاصمد من اشار الیه و توھمّه ، یعنی جو اسے اشاره کرے یا اسے اپنے وهم وگمان میں لائے، اس نی خداوند متعال کو صمد اور بے نیاز نهیں جانا هے)[1] ـ
اس کے علاوه ماهیت کے لحاظ سے اتصال و رابطه کے معنی میں قرب بھی خداوند متعال کے بارے میں صادق نهیں آتا هے، کیونکه یهاں پر ماهیت وجود کے مقابله کے قرینه کے مطابق، اخص کے معنی میں هے، جو کسی چیز کی حد کے اجزاء هیں اور اس سے جنس و فصل کی تعبیر هوتی هے، جو مخلوقات کے حدود کا معرف هے اور اس معنی میں ماهیت سے خداوند متعال منزّه هے[2] ـ چونکه اس کے لئے کوئی حد نهیں هے تا که دوسری ماهیتیں اس کے ساتھـ نزدیک اور دور کی نسبت رکھتی هوں ـ " من اشار الیه فقد حدّه و من حدّه فقد عدّه"، جو شخص خداوند متعال کی طرف اشاره کرے اس نے اسے محدود کیا هے اور جس نے اسے محدود کیا، اس نے اسے شمار میں لایا هے[3]"
دو فرد، جو ایک ماهیت میں شریک هیں، وه دونوں ایک دوسرے کے مانند هیں ـ جیسے زید و عمرو جو انسان کی ماهیت میں آپس میں شریک هیں، جبکه خداوند متعال " ضد " ، " مثل " اور " ند " سے منزّه و پاک هے ـ
وجود کے لحاظ سے معنوی اتصال :
خداوند متعال هر وجود کا مبدا و معطی هے اور معلول سے علت تامه کا انفکاک ممکن نهیں هے، کیونکه علت تامه سے معلول کا انفکاک ناقابل جدائی هے ـ اگر چه مذکوره امر کی حقیقت علت تامه و معلول کی تعبیر میں هے، کیونکه ماسوائے حق تعالی، اس کے وجود کے شئون هیں ـ اس لئے اس موجود کے وجود سے اتصال کے لحاظ سے کوئی مخلوق اقرب نهیں هے، " واذا سئلک عبادی عنّی فانّی قریب [4] "
اور واجب الوجود یعنی حق تعالی، ماسوا کے ساتھـ ، معیّت، قیومیّه اور اضافه اشراقیه رکھتا هے ـ مخلوقات انهی هویت میں[5] روابط محض هیں اور جب تک علت کو نهیں پهچانا جائے، معلول کو نهیں پهچانا جاسکتا هےـ اس لحاظ سے اشیاء سے حق تعالی کا قرب، اشیاء سے حق تعالی کے قرب وجودی کے سبب سے هے که قرب وجودی کی جانب سے اس سے نزدیک تر کوئی قرب نهیں هے ، کیونکه جهاں پر وجود هے، وهی خداوند مبدا و معطی هے اور اپنی علت پر قائم هے [6] ـ
اشیاء سے خداوند متعال کا قرب:
خداوند متعال کا همارے نزدیک هونے کے سلسله میں، قرآن مجید کی آیات چار قسموں پر مشتمل هیں:
1ـ وه آیات، جو اصل قرب پر دلالت کرتی هیں که خداوند متعال همارے نزدیک هے، جیسے: " فانّی قریب اجیب دعوة الداع [7] "
2ـ وه آیات، جو دلالت کرتی هیں که خداوند متعال انسان کے دوسروں کی به نسبت نزدیک تر هے، جیسے : " و نحن اقرب الیه منکم ولکن لا تبصرون [8] "
3ـ وه آیات، جو اس بات کی دلالت کرتی که خداوند متعال رگ حیات (گردن ) سے زیاده انسان کے نزدیک هے ـ جسے :" قد خلقنا الانسان وتعلیم ماتوسوس بھ نفسھ و نحن اقرب الیھ من حبل الورید [9] "
4ـ وه آیات جو کهتی هیں که: خداوند متعال خود انسان کی به نسبت اس سے نزدیک تر هے جیسے: " یا ایّھا الذین آمنوا استجیبوا لله و للرسول اذا دعا کم لما یحییکم واعلموا ان الله یحول بین المرء و قلبھ [10] "
پهلی تین قسموں کی بحث کے سلسله میں کوئی خاص مشکل نهیں هے، لیکن چوتھی قسم آسانی کے ساتھـ حل نهیں هوتی هے که خداوند متعال، خود انسان سے زیاده اس کے نزدیک هے؟
اس لحاظ سے بعض تفاسیر میں اس مطلب کا بعض نصوص کی ظاهری پیروی کرتے هوئے اس کے حیلوله قدرت کے معنی کئے گئے هیں اور کهتے هیں که: " یحول بین المرء و قلبھ" کے معنی یه هیں که بعض اوقات انسان کسی کام کو انجام دینے کا فیصله کرتا هے، بعد میں خداوند متعال اسے اس کام کے بارے میں پشیمان کرتا هے اور اسے اس فیصله کو جاری رکھنا نهیں دیتا هے اور یا اس کو اس کام پر عملی جامه پهنا نے نهیں دیتا هے [11] ـ
یه، تقریباً ایک درمیانی معنی هے، لیکن اگر همارے پاس آیت کے مطابق عقلی دلیل موجود هوتی، جس کی دوسری دلیل بھی تائید کرتی هے، تو کوئی سبب نهیں هے که ظاهر آیت جو کهتی هے : " خداوند متعال انسان اور اپنے درمیان فاصله ایجاد کرتا هے " سے دست بردار هوجائیں ـ کیونکه انسان ایک بے نیاز اور اندر سے پر مخلوق نهیں هے، بلکه وه دوسری ممکن مخلوقات کے مانند کھوکھلاهےـ چنانچه مرحوم کلینی ( قدس سره ) نے اس مطلب کو ایک روایت کے ضمن میں نقل کیا هے :
" عن ابی جعفر (ع) قال : " انّ الله عزّ و جل خلق ابن آدم اجوف [12] "
اب جبکه انسان کھو کھلا اور اندر سے خالی هے، پس انسان اور خود انسان کے درمیان خداوند متعال کی هستی کا فاصله موجود هےـ اس بنا پر، خداوند متعال هر ایک کے نزدیک هےـ اگر خداوند متعال نزدیک هے تو وه جمیع اوصاف کے ساتھـ نزدیک هے ـ چونکه خداوند متعال کے ذاتی اوصاف اس کی عین ذات هیں اور اگر ذاتی اوصاف [13] موجود هوں، تو اوصاف فعلی بھی اوصاف ذاتی کے تابع فعال اور موثر هوں گے [14] ـ
فلسفه کے لحاظ سے خداوند متعال سے قرب کا طریقه :
قرب کے سلسله میں بنیادی سوالات میں سے ایک سوال یه هے که خدا کا قرب کیسے حاصل کیا جاسکتا هے اور انسان اس کی بارگاه کا کیسے مقرب بن سکتا هے ؟ ایسا خدا، جس کی هستی کے نور نے آسمانوں، زمین اور نظام وجود کو منور کیا هے که یه تنویر وهی ایجاد هے ـ اس کے قریب کس طرح هوناچاهئے اور کس جهت سے اسے طلب کی جانی چاهئے؟
بالکل واضح هے که خداوند متعال کی نه کوئی سمت هے اور نه کوئی جهت، اور قرب کی یه راه اور طریقه، سالک کے وجود کی ذات میں محقق هوتا هےـ کیونکه سالک من الخلق الی الحق کے سفر کے دوران اپنی ذاتی کمالی کی راه میں، ھیولانی [15] عقل کے مرتبه سے بالفعل اور قابل استفاده عقل کے مقام تک پهنچ کر عقل بسیط سے جاملتا هے اور اس کے ذریعه اتحاد وجودی حاصل کرتا هے، که یه اس کے سفر کا آخری مرحله اور اولوالالباب کا مقام هے، یهاں پر وه حسنائے الهی کی صفات سے متصف هوتا هے، یعنی وه اپنی سعادت کی منزل کو پاتا هے اور اس کے وجودی آثار قوی هوتے هیں اور وه مظاهر الهی میں سے ایک منظر قرار پاتا هے اور اس طرح اسے ولایت تکوینی حاصل هوتی هے اور اس نفسانی حالت کی تعبیر " قرب " کی جاتی هے[16]ـ
آیات و روایات کے مطابق قرب الهی :
چونکه خداوند متعال هر چیز پر احاطه رکھتا هے[17]، اس لئے معقول نهیں هے که وه کسی چیز سے دور هو، لهذا بنده کو خواه نخواه قرب الهی حاصل هوتا هےـ
پس، اگر انسان خدا کے نزدیک هونا چاهے اور اس قرب کو عبادت اور شائسته اعمال سے برقرار کرے، تو وه قرب الهی کو حاصل کرسکتا هےـ چنانچه حضرت امام باقر علیه السلام نے فرمایا هے: " خداوند متعال کا قرب عبادت کے بغیر حاصل نهیں کیا جاسکتا هےـ " اور اس صورت میں وه ولایت کے آغاز یعنی نصرت اور محبت تک پهنچتا هے ـ قربی اعمال، جیسے، نماز کو بجالانا، الصلوة قربان کل تقی [18] اور زکواة دینا، جس کے بارے میں آیا هے" انّ الزکوة جعلت مع الصلوة قرباناً[19] انسان کو خدا کے نزدیک کرتا هے اور جب یه قرب حاصل هوتا هے تو انسان خداوند متعال کا دوست اور خداوند متعال بھی انسان کا دوست بن جاتا هےـ " ان کنتم تصبون الله فاتّبعونی یحببکم الله [20] " جیسی آیتیں اسی دوطرفه محبت کی مثال هیں [21] ـ
قرب کی راه میں اعمال کی کیفیت:
هر اس عمل کا انجام دینا، جو بذات خود خدا سے تقرّب پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا هو اور اس کام کو انجام دینے والا اسے خدا کے لئے انجام دے، یعنی اس میں حسن فعلی کی بھی رعایت کی جائے اور حسن فاعلی کی بھی، تو وه کام خدا کے تقرب اور نزدیکی کا ماحول پیدا کرتا هے اور اگر کوئی بنده خدا کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب هوا، تو اس کے قرب سے استفاده کیا جاسکتا هےـ اس خصوصیت کے حامل اعمال دو قسم کے هیں: ان اعمال میں سے بعض فریضه کی حد میں اور بعض نافله کی حد میں هیں ـ جس طرح بهشت تک پهنچنے کے لئے کچھـ فرائض اور نوافل هیں، اسی طرح انسانی مقامات بھی، جو ایک طرح سے بهشت هے، کے کچھـ واجبات اور مستحبات هیںـ جو چیز اس راه میں اهمیت رکھتی هے اور فریضه کے طور پر شمار هوتی هے، وه عمل میں معرفت اور اخلاص هے اور جس قدر معرفت زیاده هو، اسی قدر عمل میں اخلاص بھی بڑھتا هےـ قرآن مجید عبادت کو معرفت و یقین کو حاصل کرنے کا وسیله شمار کرتا هے: " واعبد ربّک حتی یاتیک الیقین [22]" مسلم هے که یه یقین، مبداء کے وجود کے بارے میں پکا نهیں هے، کیونکه اس قسم کا یقین خود عبادت کا سرچشمه هے نه یه که عبادت کا نمایاں محصول هو اور اولیائے الهی کے مقامات میں شمار هوجائے، بلکه یه یقین،خداوند متعال پر اس کے تمام مطلقه اوصاف کے ساتھـ یقین هے[23]ـ لیکن قرب کی راه میں باقی پروگرام، نافله کی حد میں هیں ـ امام صادق علیه السلام فرماتے هیں: جن امور کے بارے میں خداوند متعال نے حضرت داٶود (ع) کو وحی فرمائی وه یه تھے: " اے داٶود! جس طرح خدا کے نزدیک ترین افراد اهل تواضع هیں، اسی طرح خدا سے دورترین افراد اهل تکبّر هیں[24]ـ لیکن واضح هے که تواضع اور حسن اخلاق یا نیکی و احسان، جن کی قرب الهی کے سلسله میں تاکید کی گئی هے، سب نافله کے رمزے میں هیں اور بنیادی اور محور، وهی باری تعالی کی معرفت اور اس کی بندگی هے ـ رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم فرماتے هیں: " یا اباذر اعبد الله کانّک تراه فان کنت لا تراه فانّھ یراک [25] " عبادت شهودی معرفت کی بنیاد پر هونی چاهے، ایسی عبادت کرنا که گویا خدا کودیکھـ رهے هو اور اگر ( معرفت کے اس درجه پر نه پهنچے که) اسے نهیں دیکھـ سکتے هو تو، وه تجھے دیکھه رها هے ـ
[1] نهج البلاغه، خطبه 186ـ
[2] ماهیت حد وجود کے معنی میں هے اور امکانی طور پر محدود مخلوقات سے مخصوص نهیں هےـ خداوند متعال چونکه وجود مطلق اور لامحدود هے، اس لئے اس کے لئے کوئی حد نهیں هے، لهذا اس کی کوئی ماهیت بھی نهیں هے ـ
[3] نهج البلاغه خطبه
[4] بقره 186
[5] وجود کے امکان والے دنیا کی مخلوقات، محض روابط هیں اور اس معنی میں هے که ان میں سے کوئی وجودی آزادی نهیں رکھتا هے اور ان کی تمام حقیقت ان کا وجود هے اور ان کا وجود بھی ظلّی هے ـ ظلّ سایه کے معنی میں هے اور سایه کی اپنی کوئی هویت نهیں هوتی هے، اس کا تمام وجود اس کے شاخص سے مربوط هوتا هے، اور هماری مخلوقات حق تعالی کے سوا سایه کے حکم میں هیں اور ان کے لئے مکمل وجود ـ البته اس مثال میں سایه کی نیازمندی شاخص سے مراد هے اور جوانبی امور، جیسے شاخص کا مادی هونا مد نظر نهیں هےـ
[6] حسن زاده آملی، حسن، نصوص الحکم بر فصوص الحکم، ص496
[7] بقره 186
[8] واقعه85
[9] ق 16
[10] انفال 24
[11] طبرسی، ابوعلی فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج4، ص820
[12] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج6، ص282
[13] خداوند متعال کی صفات کی قسمیں: 1ـ صفات ذات: که ان کی تفکیک میں ذات کا ملاحظه کرنا کافی هے ـ جیسے : دانائی، توانائی، حیات و غیره کی صفات ـ 2ـ صفات افعال: یه ایسی صفات هیں جن کی تفکیک میں صرف ذات الهی کو ملاحظه کرنا کافی نهیں هے بلکه ذات کو فعل و ایجاد کے مقام پر مد نظر رکھنا چاهئے پھر انھیں تفکیک کرنا چاهئے، جیسے: پیدا کرنا، بخشنا اور رزق دنیا و غیره جیسی صفات ـ
[14] جوادی آملی، عبدالله، حکمت عبادات، بخش هفتم، ص213
[15] فلاسفه نے عقل کے لئے چار درجے ذکر کئے هیں: پهلا درجه: عقل تمام معقولات کی به نسبت بالقوه هے اور اسے ھیولایی عقل کهتے هیں ـ دوسرا درجه، عقل بالملکه هے اور وه ایک ایسا درجه هے جهاں پر عقل واضح تصورات اور تصدیقات پر تعقل کرتی هے ـ تیسرا درجه، بالفعل عقل هے اور وه ایک ایسا درجه هے جهاں پر عقل نظریات کو واضحات سے تعقل کرتی هےـ چوتھا درجه، استفاده هونے والی عقل هے جو کچھـ بدیهی معقولات اور نظری معقولات سے عالم بالا (ملکوت) اور عالم پائین (ملک) کے مطابق هے، کو حاصل کرکے تعقل کرتی هے ـ اس طرح که سبوں کو اپنے پاس حاضر کرکے بالفعل ان پر توجه کرتی هے ـ
[16] حسن زاده آملی، حسن، نصوص الحکم بر فصوص الحکم، ص2، 5
[17] فصلت، 54
[18] شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج1،ج637
[19] نهج البلاغه، فیض الاسلام، خطبه190
[20] آل عمران، 31
[21] جوادی آملی، عبدالله، ولایت در قرآن، ص57 ، مرکز نشر فرهنگی رجاء
[22] حجر، 99
[23] جوادی آملی، عبدالله، ولایت در قرآن، ص 112
[24] ری شهری، محمد، ( حسینی سید حمید ) منتخب میزان الحکمة، روایت شماره 5212
[25] مجلسی، بحارالانوار، ج 77، ص 74