آپکی مراد " عدم کی جانب لوٹنے" سے کیا ھے؟ کیا آپ کی مراد ، ولادت سے پھلے والی حالت کی طرف لوٹنا ھے ، بالکل ان لوگوں کے مانند جو کھتے ھیں اے کاش ھماری ولادت ھی نھ ھوتی!
واضح ھے کھ ماضی کی جانب لوٹنے کی کوئی صورت نھیں ھے۔ کیونکھ زمانه گزرتا ھے ، اور ھماری چاھت اور ارادے کے مطابق حرکت نھیں رک سکتی ھے۔ اور پیچھے کی جانب نھیں لوٹ سکتی ۔
پس اس معنی میں عدم کی طرف لوٹنا ممکن نھیں ھے۔ ھاں اگر عدم سے آپ کی مراد "موت " ھے، یھ بات مد نظر رھے کھ " موت " عدم نھیں ھے ۔ بلکھ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ھونے ، اور ایک عالم سے دوسرے عالم کی جانب جانے کا نام موت ھے۔
پس اس نظریھ کے مطابق " موت" حقیقت میں کمال کی جانب حرکت کرنے کو کھتے ھیں ،جس طرح مولانا روم نے فرمایا ھے:
از جمادی مردم و نامی شدم واز نما مردم بھ حیوان سرزدم۔
مردم از حیوانی و آدم شدم پس چھ ترسم ، کی زمردن کم شدم
حملھ ای دیگر بمیرم از بشر تا بر آرم از ملائک بال و پر
بار دیگر از ملک قربان شوم آنچھ اندر وھم ناید آن شوم
پس عدم گردم عدم [1]چون ارغنون گویدم کھ انا الیھ راجعون [2]
ترجمھ:
جسم جماد سے مر گیا اور نبات بنا ، نبات سے مرکر میں حیوان بنا۔
حیوانی سے مرکر میں انسان بنا ، مجھے کیا ڈر کھ میں مرنے سے کم ھوا۔
ایک اور حملے میں انسانیت سے مرجاؤں تا کھ میں ملائکھ کی دنیا میں داخل ھوجاؤں ۔
ایک اور مرتبھ میں اپنے خدا پر قربان ھوجاؤں ، جس کا میں تصور ھی نھیں کرتا وه ھوجاؤں ۔
پس عدم سے عدم ھوجاؤں ارگن ( صور اسرافیل) کی مانند ، جو مجھه سے "ھم سب خدا کی طرف جائیں گے" کهے گا۔
یعنی انسان بننا مختلف مراحل سے گزر کر امکان پذیر ھے جیسے جسم ھونا ، نبات ھونا ، حیوان ھونا اور ان مراحل میں سے ھر مرحلے میں داخل ھونے کیلئے پھلے والے مرحلے کی موت سے ممکن ھوا ھے۔ [3] پس یھ نتیجھ نکلتا ھے کھ اب بھی جب میں مرجاؤں گا ، تو فنا اورنابود نھیں ھوجاؤں گا بلکھ اوپر والے درجے تک پھنچ جاؤں گا جو فرشتوں اور ملائک کا عالم ھے۔
فلاسفھ بھی موت کے بعد زنده ھونے کو عدم کی جانب لوٹنا نھیں جانتے بلکھ کھتے ھیں ۔ معدوم شده چیز کا واپس لوٹنا (تمام زمانی و مکانی شرائط کے ساتھه ) محال ھے [4] اور اگر کوئی یھ گمان کرے کھ قیامت اور معاد، معدوم شده عالم کا واپس لوٹنا ھے ( جسے فلسفیانھ اصطلاح میں " اعاده معدوم "کھتے ھیں) تو وه سراسر غلطی پر ھے۔ کیونکھ:
1۔ موت آنے سے کو ئی چیز نابود نھیں ھوتی بلکھ موت ایک طرح کا کمال ھے ، اور بدن سے روح کی مفارقت کے بعد ( روح جو انسان کی حقیقت ھے ) روح اپنی حیات کو جاری رکھتی ھے حتی کھ اس کی قوت اور توانائی بھی زیاده ھوجاتی ھے اس زمانے کی بھ نسبت جب وه بدن کی تدبیر کرتی ھے۔
ثانیاً: معاد اور قیامت ، معدوم ھونے کے بعد دوباره لوٹنے کا نام نھیں ھے بلکھ اس کا مطلب خد اکی جانب لوٹنا ھے نھ کھ عدم سے وجود کی جانب۔
پس خلاصھ کے طور پر کھا جاسکتا ھے " عدم کی جانب لوٹنے کے معنی مھمل ھیں اور اس کیلئے کوئی راه نھیں ھے۔[5]
[1] واضح ھے کھ اس جملے سے میں عدم سے مراد وھی معنی ھیں جس کی جانب مولانا روم نے اوپر والی ابیات میں اشاره کیا ھے ، یعنی ایک مرحلے سے اوپر والے مرحلے تک پھنچنا۔
[2] مثنوی معنوی ، دفتر سوم ، ص ۵۱۳۔
[3] فلسفھ کے مکتب صدرائی ( جس کے پایھ گزار ملا صدرا شیرازی ھیں ) مین اس موت کو لبس بعد از لبس کا نام دیتے ھیں ( یعنی ایک درجے کے بعد اوپروالے درجے میں داخل ھونا ) نھ کھ خلع بعد از لبس ( اس طرح یھ نھیں کھ اس درجے سے گر کر دوسرے درجے تک پھنچنا ھے۔۔۔۔)
[4] اس سلسلے میں مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں ، نھایۃ الحکمۃ ، علامھ طباطبائی ، ص ۲۵ ، ۲۲۔
[5] فلسفھ مین تفصیل سے یھ بحث موجود ھے کھ کیا موجود معدوم ھوتا ھے ؟ اور کوئی موجود معدوم نھیں ھوتا ھے تو کیا اس قانون سے اشیاء کا ازلی اور ابدی ھونا لازم آتا ھے۔ یا نھیں؟ اس پر دو طرح کی دلیلیں پیش کی گئی ھیں ، ایک تجربیاتی طریقے سے جو کھ لاوازیھ کی طرف سے بیان ھوئی ھے ، اور دوسری دلیل فلسفیانھ طریقے سے ۔ اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے رجوع کریں۔ اصول فلسفھ و روش رئالیسم ج ۳ ، علامھ طباطبائی با مقدمھ و پاورقی استاد شھید مرتضی مطھری ، ص ۱۲۱۔۔ ۱۱۱، اور نھایۃ الحکمۃ ، علامھ طباطبائی ص ۳۲۶۔