انبیاء علیھم السلام، جن میں حضرت آدم علیھ السلام بھی شامل ھیں، ھر طرح کے گناه و سھو سے معصوم ھیں۔ اور جو کچھه حضرت آدم سے سر زد ھوا ھے، وه صرف ایک امر ارشادی کی مخالفت تھی، جسے معصیت اور گناه نھیں کھا جاسکتا ھے۔ انسان اور حضرت آدم علیھ السلام کا زمین پر آنا ، مشیت الھی تھی، اور یھ پھلے سے ھی ایک معین شده امر تھا۔ یعنی خدا نے چاھا تھا کھ حضرت آدم علیھ السلام کو اس طرح زمین پر اتارے۔ دوسری جانب زمین پر اترنا امتحان الھی کا مقام ھے ، نھ که انسان کے لئے سزا کی جگھ۔
حضرت آدم اور اس کی نسل کو زمین پر بھیجنے سے خدا نے یھ چاھا کھ انھیں ایک ایسی جگھ پر ، جو اچھے اور برے کاموں کی جگھ ھے ( بھشت کے مقابلے میں جو صرف نیک کاموں کی جگھ ھے ) امتحان کرے۔ اور اگر انھوں نے گناه اور معصیت پر صلاحیت رکھنے کے باوجود نیک اور صالح اعمال انجام دئیے، تو انھیں جزا عطا کرے۔ حتی کھ ان میں سے بعض کو انبیاء علیھم السلام اور مقرب فرشتوں سے بھی برتر بنائے۔ اس لئے آفاقی ھونے کیلئے خاک پر رھنا ضروری ھے۔
تخلیق کی کھانی ایک دلچسپ اور سبق آموز کھانی ھے، جس کا تذکره تقریباً ساری آسمانی کتب میں آیا ھے۔ یھ کھانی جس طرح توریت اور انجیل میں بیان ھوئی ھے۔ اسلام کی نظر میں ، اور ائمھ اطھار علیھم السلام کی روایات کے لحاظ سے اس میں بھت سے اشکالات موجود ھیں۔ قرآن مجید نے اس حقیقی کھانی کو خوبصورت ، مدلل اور بھترین الفاظ میں بیان کیا ھے۔
اس سلسلے میں بعض نکات توجھ کے قابل ھیں جو اس سوال کا جواب دینے میں ھمارے لئے مفید ثابت ھوں گے۔
۱۔ حضرت آدم علیھ السلام بڑے انبیاء الھی میں سے ھیں۔ چونکھ انبیا معصوم ھیں اس لئے ان کا دامن سھو و خطا سے پاک ھے۔ پس جو کچھه حضرت آدم سے واقع ھوا ھے وه گناه نھیں تھا۔
ایک شخص حضرت امام رضا علیھ السلام کی خدمت میں سوال کرتا ھے۔ کیا آپ کی نظر میں انبیاء معصوم ھیں؟ آپ (ع) نے فرمایا: ھاں۔ راوی نے عرض کی : پھر خدا نے کیوں فرمایا: "حضرت آدم نے نافرمانی کی" [1] امام (ع) نے جواب میں فرمایا: خدا سے ڈرو اور انبیاء کو بُرے اعمال کی نسبت مت دو۔ خدا نے حضرت آدم کو اس لئے خلق کیا تا کھ وه زمین پر اس کا خلیفھ بن سکیں۔ ان کو بھشت میں رھنے کیلئے خلق نھیں کیا۔ حضرت آدم کی نافرمانی بھشت میں تھی نھ کھ زمین پر۔
علامھ طباطبائی اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ھیں:
امام کا یھ جواب کھ "حضرت آدم کی نافرمانی بھشت میں تھی"۔ اس بات کی طرف اشاره ھے کھ درخت ممنوعھ سے نھ کھانے کا امر، مولائی[2] امر نھیں تھا بلکھ یھ امر ارشادی تھا، کیوں کھ بھشت میں ابھی دینی احکام نھیں تھے۔ دینی اوامر اور احکام کی جگھ زمین ھے، جسے خدا نے حضرت آدم کیلئے پھلے سے ھی معین کیا تھا۔ پس حضرت آدم علیھ السلام کی نافرمانی امر ارشادی کی مخالفت تھی نھ کھ امر مولائی کی مخالفت۔۔۔۔[3]
یعنی خدا نے یھ اراده کیا تھا کھ انھیں یھ بات سمجھائے کھ شیطان کی پیروی ، انسان کیلئے کن مشکلات کا سبب بنتی ھے۔ حضرت آدم کا ممنوعھ درخت سے کھانا ایک عمل تھا جس کا نقصان خود ان کو اٹھانا پڑا۔ جیسے ایک باپ اپنے فرزند سے کھتا ھے کھ ننگے پاؤں مت چلو، کیونکھ ممکن ھے تمھارے پاؤں میں کانٹا چبھه جائے۔
حضرت آدم علیھ السلام اور ان کی بیوی نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اپنے آپ کو بھشت سے محروم کیا، انھوں نے خدا کی نافرمانی نھیں کی اور کسی گناه کے مرتکب نھیں ھوئے۔
اگر حضرت آدم علیھ السلام کا یھ کام گناه ھوتا تو انھیں توبھ کرکے اپنی جگھ پر واپس پلٹنا چاھئے تھا۔ لیکن وه اپنی اصلی جگھ کی جانب واپس نھیں لوٹے۔ اس لئے ممانعت، مولائی ممانعت نھیں تھی جس کی مخالفت کا نتیجھ گناه ھوتا بلکھ حضرت آدم کیلئے ارشاد اور خیر خواھی تھی۔ [4]
ھاں ، مادی زمین کی خصوصیات میں سے نھ صرف میلانات اورخواھشات کا ٹکراؤ ، اور گناه میں پڑنے کا خطره ھے، بلکھ انسان کی خاصیت اس کی عقل اور ھوس (شھوت)[5] سے مرکب ا ھے ، اس لئے انسان گناه کرسکتا ھے۔
۲۔ زمین پر حضرت آدم علیھ السلام کا اترنا ، الھی قضا و قدر تھی،ایسا بالکل نھیں تھا کھ اگر حضرت آدم شجره ممنوعھ کو نھ کھاتے تو وه اور ان کی نسل زمین پر نھ بھیج دی جاتی۔ حضرت امام رضا علیھ السلام سے منقول روایت اس بات کی تائید کرتی ھے۔ [6]
مرحوم علامھ طباطبائی فرماتے ھیں ؛ "آیات کے سیاق سے معلوم ھوتا ھے کھ انسان ابتدا سے ھی اسی لئے خلق ھوا ھے کھ زمین پر سکونت پذیر ھوجائے اور زمین مین مرجائے اور اگر خداوند متعال نے اسے کچھه دن بھشت ( نھ جاودانی بھشت) میں جگھ دی تو یھ اس کے لئے ایک امتحان تھا۔ [7]
امام محمد باقر علیھ السلام سے ایک روایت میں آیا ھے کھ آپ نے فرمایا:
خدا کی قسم ، خداوند متعال نے حضرت آدم کو دنیا کیلئے خلق کیا تھا"۔ [8]
۳۔ اس نکتھ کی جانب توجھ ضروری ھے کھ انسان کو صرف زمین پر آنے اور وهاں پر ولادت پانے اور زنده رھنے پر سزا نھیں ملے گی ۔ بلکھ وه بھی اولیاء اللھ اور صالح انسانوں کے مانند اپنی زندگی کو خدائی بنا سکتا ھے اور صرف اور صرف دنیا میں آنے کی وجھ سے اس کو سزا نھیں ملے گی ، خداوند متعال نے انسان کو ملائکھ سے بر تر بنایا ھے ، اور اسے اپنی خلافت کالباس پھنایا ھے۔ خدا نے ملائکھ کے اعتراض پر انسان کا دفاع کیا ، اور ارشاد کیا کھ : "میں وه چیز جانتا ھوں جس سے تم آگاه نھیں ھو " انی اعلم ما لا تعلمون" [9]
یھ سب اس لئے ھے کھ انسان میں عقل و ھوس(شھوت ) کی دو قوتیں پائی جاتی ھیں۔ ملائکھ کے مانند محض عقل ھی نھیں ھے۔ اس لئے اگر یھ مخلوق گناه ترک کردے تو ان مخلوقات سے برتر ھے جن کیلئے گناه کرنے کا امکان ھی نھیں۔ یھ کمال اور برتری انسان کو صرف امتحان اور آزمائش کے ذریعے حاصل ھوتی ھے جب کھ انسان عقل اور جھل کے موڑ پر قرار پاتا ھے۔۔۔۔۔ ، یھ امتحان اس جگھ صورت پاتا ھے جھان امتحان ممکن ھو اور وه جگھ زمین کے علاوه کھیں اور نھیں ھے۔ اس لئے ھمیں زمینی باشنده ھونے پر خدا کا شکر گزار رھنا چاھئے ، کیوں کھ زمینی امتحان مین شرکت پا کر ھم آفاقی اور آسمانی ھوسکتے ھیں۔
[1] سوره طھ / ۱۲۱۔
[2] امر مولائی : وه امر ھے کھ جس کی مخالفت سزا اور عذاب کا باعث بنتی ھے اور اس کے برعکس امر ارشادی وه ھے جس کی مخالفت سزا اور عذاب کا باعث نھیں ھے۔ بلکھ وه محض ارشاد اور کسی امر کی جانب راھنمائی ھوتی ھے۔
[3] طباطبائی ، سید محمد حسیں ، ترجمھ تفسیر المیزان ، ج ۱ ص ۲۱۹۔
[4] ایضا ، ص ۲۰۱۔
[5] حضرت علی علیھ السلام فرماتے ھیں: خدا نے ملائکھ کو عقل کے ساتھه اور ھوس (شھوت) کے بغیر خلق کیا ھے اور حیوانات کو ھوس کے ساتھه اور عقل کے بغیر خلق کیا ھے ، لیکن انسان کو عقل اور ھوس دونوں کے ساتھه خلق کیا ھے اگر وه عقل کے فرمان پر چلے تو ملائکھ سے برتر ھوگا اور اگر ھوس اور خواھش کے فرمان پر چلے تو حیوانوں سے پست ھوگا۔
[6] روایت میں آیا ھے ، ان کی نا فرمانی بھشت میں تھی نھ کھ زمین پر اور وه نا فرمانی بھی تقدیر الھی کے عین مطابق تھی۔
[7] طباطبائی ، سید محمد حسین ، ترجمھ تفسیر المیزان ، ج ۱ ص ۱۹۶۔
[8] ایضا ج ۱ ص ۲۲۵۔
[9] سوره بقره / ۳۰