لغت میں " حجاب" کے معنی " پردے " کے ھیں۔ اور اس چیز کو کھتے ھیں جو دو چیزوں کے درمیان حائل ھوجائے۔ البتھ جس طرح مفسریں اور محققین نے بیان کیاھے ، " حجاب" کا لفظ عورتوں کو ڈھانپنے کے معنی میں ھے۔ یھ ایک ایسی اصطلاح ھے جو ھمارے زمانے میں پیدا ھوئی ھے ۔ اور اس طرح یھ ایک نئی اصطلاح ھے۔ جو کچھه قدیم زمانوں میں خصوصا فقھاء کی اصطلاح میں استعمال ھوتا تھا، وه " ستر" کا لفظ ھے ، جو ڈھانپنے اور پردے کے معنی میں آتا ھے۔ جو کچھه تاریخ سے اس مسئلھ میں استفاده ھوتا ھے وه یھ ھے کھ " حجاب " عورتوں کے پرده کرنے ، دنیا میں ظھور اسلام سے پھلے اور مختلف ادیان میں مختلف شکلوں میں موجود تھا لیکن اسلام نے اسکا دائره تھوڑا چھوٹا کردیا۔
عورتوں کا " پرده" کرنا پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے زمانے سے رائج تھا ، یعنی عورتیں اپنے جسموں کو چھپاتی تھیں اور اپنے سروں کو کپڑوں کے ذریعے ڈھکتی تھیں ۔ لیکن کانوں، گردن، اور سینے کا تھوڑا حصھ کھلا رھتا تھا۔ اس کے بعد آیت نازل ھوئی جس میں پیغمبر صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کو حکم دیا گیا کھ عورتوں سے کھیں کھ وه اِس مقدار کو بھی چھپائیں اور ان جگھوں کی زینت واضح نھ ھو۔
لغت میں حجاب کے معنی " پردے " کے ھیں۔ اور جو بھی دو چیزوں کے درمیان حائل ھو اور فاصلھ ڈالے[1]۔ البتھ جس طرح مفسروں اور محققین نے بیان کیا ھے " حجاب " کا لفظ " عورتوں کے پرده " میں استعمال ھونا زیاده تر ھمارے زمانے کی پیداوار ھے۔ یھ ایک نئی اصطلاح ھے۔ جو کچھه قدیم زمانے میں اس معنی میں استعمال ھوتا تھا خصوصا فقھاء کے نزدیک وه "ستر" کا لفظ تھا جس کا مطلب بھی "پرده " ھے ۔ [2]
اجنبی مرد سے عورت کا پرده واجب ھونا اسلام کے اھم مسائل میں سے ھے قرآن کریم میں بھی عورتوں کی تکریم ، سماج اور گھر کے ماحول کو سالم بنانے کیلئے " پرده" کو ان کیلئے واجب کیا ھے۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ھوتا ھے کھ حجاب یعنی " عورتوں کا پرده کرنا" دنیا میں اسلام سے پھلے بھی مختلف اشکال میں موجود تھا ، یھ حکم تاسیسی نھیں ھے ، یعنی اسلام نے اسے کو ایجاد نھیں کیا ھے بلکھ اسلام نے اس کو قبول کیا ھے اسلام اورپیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی تاریخ سے معلوم ھوتا ھے کھ یھودی اور ھندو قوموں میں پرده بڑے سخت اور شدید انداز میں رائج تھا۔ ایران قدیم میں باپ اور بھائی بھی اپنی شادی شده بھن کو نام حرم جانتے تھے۔[3]
تاریخ سے اس بات کا بھی پتا چلتا ھے کھ پیغمبر کے زمانے میں بھی عورتیں پرده کرتی تھی۔ البتھ ان کا پرده مکمل نھیں تھا ، عربی عورتیں عام طورپر ایسے کپڑے پھنتی تھی جس کا اگلا حصھ کھلا ھوتا تھا اور ان کی گردن اور سینھ کھلا رھتا تھا۔ وه اپنے سروں کو ڈوپٹھ سے ڈھانپتی تھیں اور اس کا نچلا حصھ اپنےسروں کے پیچھے رکھتی تھیں۔ اس طرح ان کے کان ، گوشوارے اور سینھ اور گردن سبھی نمایان ھوتے تھے۔ [4] نتیجھ یھ کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے زمانے کا حجاب اس طرح تھا کھ پورا جسم پردے میں ھوتا تھا۔ اور سرپر ڈوپٹھ لپٹا رھتا تھا لیکن گردن اور سینھ جو کھ زینت کی جگھیں تھی اور مردوں کی شھوت کی تحریک کا موجب تھیں، اس کو کھلا رکھتی تھیں۔ امام باقر علیھ السلام سے روایت ھے کھ ایک دن مدینھ میں گرمیوں کے دنوں ایک جوان لڑکی نے ، اپنے معمول کے مطابق اپنےسکارف کو گردن کے پیچھے باندھا تھا ، اس کی گردن اور گوشوارے کھلے تھے اور وه سڑک سے گزر رھی تھی ، رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ کے ایک صحابی سڑک کے دوسری جانب سے آرھے تھے اس دلکش منظر نے ان کی نظریں اپنی جانب کھینچ لیں اور وه جوان، اس لڑکی کو دیکھنے میں مست ھوکر ، اپنے آپ اور اپنے گردوپیش سے غافل ھوا اس طرح وه اپنےسامنے نھیں دیکھه پایا وه عورت ایک گلی میں داخل ھوئی اور جوان اسی کے پیچھے پیچھے چلتا گیا ، چلتے چلتے ایک ھڈی جو ایک گھر کی دیوار سے باھر نکلی ھوئی تھی اس کے چھرے پر لگی اور اس کا چھره شدید زخمی ھوا جب وه متوجھ ھوا تو اس کے چھرے سے خون بھھ رھا تھا ، اسی حال میں وه پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے حضور مشرف ھوا اور اپنےو اقعے کو سنایا [5] اس وقت حجاب کی آیت نازل ھوئی ۔ [6] " اور مومنات سے کھھ دیجئے کھ وه بھی اپنی نگاھوں کو نیچے رکھیں اوراپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاھر نھ کریں علاوه اس کے جو خود ظاھر ھے اور اپنے دوپٹھ کو اپنے گریباں پر رکھیں اور اپنی زینت کو اپنے شوھر ، باپ ،دادا شوھر کے باپ ،دادا ، اپنی اولاد اور اپنے شوھر کی اولاد ، اپنے بھائی اور بھائیوں کی اولاد اور بھنوں کی اولاد اوراپنی عورتوں اور اپنے غلام اور کنیزوں اور ایسے تابع افراد جن میں عورت کی طرف سے کوئی خواھش نھیں ره گئی ھے اور وه بچے جو عورتوں کے پرده کی بات سے کوئی سروکار نھیں رکھتے ھیں ان سب کے علاوه کسی پر ظاھرنھ کریں اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نھ چلیں کھ جس زینت کو چھپائے ھوئے ھیں اس کا اظھار ھوجائے اور صاحبان ایمان تم سب اللھ کی بارگاه میں توبھ کرتے رھو کھ شاید اسی طرح تمھیں فلاح اور نجات حاصل ھوجائے۔ [7]
واضح ھے کھ آیھ شریفھ پردے اور حجاب کے حدود کی وسعت کو بیان کرتی ھے کیوں کھ اس زمانے میں رائج کپڑے جو وھی لمبا کُرتا ھوتا تھا پھنا جاتا تھااور فقط سینھ اور گردن کھلی رھتی تھی۔
جو کچھه اس آیت میں غورو خوض کرنے کے قابل ھے جملھ " و لیضربن بخمرھن۔۔۔ " ھے ، راغب اپنی مفردات میں لکھتے ھیں ، "خمر" کے معنی ، "کسی چیز کوچھپانے کے معنی میں ھیں" ۔ اور اس چیز کو کھتے ھیں جو کسی چیز سے پوشیده رکھنے کے معنی میں آتا ھے ، خمار اس چیز کیلئے مخصوص ھواھے جس کے ذریعے اپنےسر کو ڈھانپا جاتا ھے۔ [8] کھا گیا ھے کھ آیھ شریفھ کے نازل ھوتے وقت عورتیں اپنے ڈوپٹھ کو سر کے پیچھے بانده لیتی تھیں اور اس طرح ان کے سینے کھلے رھتے تھے ۔ [9] اس طرح آیھ شریفھ کے معنی یھ ھیں کھ عورتوں کو اپنے ڈوپٹھ اپنےسینے اور گلے کے اوپر بھی رکھنا چاھئے تا کھ گردن اور سینھ پوشیده رھے۔
ابن عباس نے آیھ شریفھ کے اس حصّے کی تفسیر میں فرمایا ھے: یعنی عورت کو اپنے بال سینھ ، اور گردن اور اپنے گلے کو چھپانا چاھئے [10]
عایشھ سے منقول ھے کھ جب سوه نور کی آیھ شریفھ نازل ھوئی تو کوئی بھی عورت میں نے مشاھده نھیں کی اور دیکھا بھی نھیں اور انصار کی عورت کو بھی نھیں دیکھا گیا کھ انصار کی عورتین پھلے کی طرح باھر نکلتی ھوں [11]
[1] ابن منظور ، "لسان العرب ، ماده حجب۔
[2] تفسیر نمونھ ج ۱۷ ، ص ۴۰۲ ، مطھری ، مرتضی ، "مسئلھ حجاب "، ص ۷۸
[3] ویل دورانٹ ، تاریخ تمدن ، ج ۱۲ ص ۳۰ ص ۵۵۲۔
[4] مطھری ، مرتضی ، مجموعھ آثار ، ج ۱۹ ص ۴۸۴، ۴۸۵۔
[5] فیض کاشانی ، تفسیر صافی ، ج ۵ ص ۲۳۰۔ مجمعوعھ آثار، مرتضی مطھری ، ج ۱۹ ص ۴۸۵
[6] قل للمومنات یغضضن من ابصارھن و یحفظن فروجھن و لا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا و
[7] مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں ، محدوده حجاب زن، سوال ۴۹۵، ( سائٹ ، ۵۳۶۔
[8] راغب اصفھانی مفرداتن الفاط قرآن ، ج ۲ ۔لفظ ، حجب۔
[9] قرشی ، سید علی اکبر ، قاموس قرآن ، ج ۲ ،لفظ حجب ۔
[10] " تغطی شعرھا ، وصرھا و ترائبھا و سوالفھا ' طبرسی م مجمع البیان ، ج ۴ ص ۱۳۸۔
[11] ما رایت نساءاً خیرا مں نساء الانصار ، لما نزلت ھذه الایۃ ، ۔۔ تفسیر کشاف ، ج ۳ ذیل آیھ ۳۱ سوره نور۔