جواب کی وضاحت کے لئے چند نکتوں کی یاد دهانی کرتے هیں ۔
۱۔ ماضی کی تاریخ میں اس طرح کی توهین :
انبیاء اور پیغمبر اسلام (ص)) کی توهین کوئی نیا مسئله نهیں هے بلکه اس ماضی بڑا طولانی هے جیساکه قرآن مجید نے متعدد عنوان سے بیان کیا هے :
الف: تواهین ، مزاق اڑانے کی صورت میں :
ان لوگوں پر افسوس هے ان کے پاس کوئی بھی رسول نهیں آیا مگر ان لوگوں نے اس کی هنسی ضرور اڑائی[1] ۔
ب: توهین ، تهمت لگانے کی صورت میں :
اسی طرح ان سے پهلے ان لوگوں کے پاس جو پیغمبر آتا تو وه اس کو جادو گر کهتے یا دیوانه بتاتے تھے [2] ۔
ج: انبیاء اور پیغمبر اکرم (ص) کی طرف جادوگری ، جھوٹ ، بیوقوفی اور انسان کے شاگرد هونے کی نسبت دینا [3] ۔
البته انبیاء اور آخری نبی (ص) کی توهین اور اعتراض فقط مذکوره مطالب میں منحصر نهیں تھے بلکه دوسرے طریقوں سے بھی بیان کئے جاتے تھے مثال کے طور پر:خدا وند عالم هم لوگوں سے بات کیوں نهیں کرتا ؟
معجزه هم لوگوں سے انجام پذیر کیوں نهیں هوتا ؟فرشتے هم لوگوں پر کیوں نازل هوتے ؟ وحی همارے برزگوں پر کیوں نازل نهیں هوتی ؟ خدا اور فرشتوں کو همارے سامنے کیوں نهیں لاتے ؟ پیغمبر عام لوگوں کی طرح کام کاج کی خاطر بازار کیوں جاتے هیں ؟ وغیره۔ [4]
۲۔ اس طرح توهین کے فکری اور روانی اسباب :
قرآن مجید خاتم الانبیاء اور دوسرے انبیاء کی توهین کی نسبت کا فروں ،منکروں ستمگروں اور جاهلوں[5] کی طرف دیتاهے جس کا مشاهده آج کل بھی کیا جا سکتا هے یعنی اگرآج هم یورپ کے ماحول میں پیغمبر اسلام (ص) کی توهین کامشاهده کررهے هیں تو بھی انھیں نشریات کی جانب سے انجام پاتاهے جن کی دیکھ بھال عالمی استکبار اور اسرائیلی کرتے هیں ۔
اس طرح کی توهین کا سبب نبیوں (ع) ، آخری نبی (ص) اور ان کے مخالف کافروں ، ستمگروں اور ان کے سرداروں کی سوانح حیات پر ایک سرسری نظر دوڑانے سے معلوم هوجاتاهے :
الف: جب انبیاء لوگوں کو الله کی بندگی ، حق شناسی اور حق پرستی کی دعوت دے رهے تھے [6] توکفر و ظلم کے سردار ، لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتے تھے یهاں تک که وه اپنے سلسله میں خدائی کی حد تک پهنچ جاتے تھے [7] ۔
ب: انبیاء همیشه عدل وانصاف رائج کرنے کی کوشش میں رهتے تھے [8] لیکن کفر و ظلم کے سردار خود کو لوگوں کے حقوق اور اموال میں هر طرح کے تصرف کا حقدار سمجھتے تھے [9]
ج: انبیاء دینی اقدار کا نمونه اور همیشه دین کو زنده رکھنے کی کوشش میں رهتے تھے [10] لیکن کفر وظلم کے سردار معاشرے میں ظلم و ستم،تباهی وبربادی پھیلانے کے چکر میں رهتے تھے [11] ۔
د: انبیاء(ع) همیشه دل سوز ، خیر خواه اور لوگوں کے همدرد اور ان کی خدمت کرنے کی کوشش میں رهتے تھے [12] لیکن کفر و ظلم کے سردار عوام الناس کے پسپا کرنے اور ان سے اپنی خدمت کرانے کے چکر میں رهتے تھے [13] ۔
ه : انبیاء مروت کرنے والے اور لوگوں کو اتحاد کی دعوت دے کر هر طرح کے ظلم کرنے یا ظلم قبول کرنے کی مخالفت کرتے تھے [14] لیکن کفر وظلم کے سردار لوگوں میں اختلاف ڈالنے ، مختلف پروپگنڈوں ، تهمتوں ، دھمکیوں اور دشمنیوں کے ذریعه مخالفوں کو کچلنے ، قتل کرنے اور اپنے فائده کے تحت دین کو تحریف کرنے کے منصوبه پر عمل کرتے تھے[15] ۔
۳۔ مذکوره مطالب کے پیش نظر یه کها جاسکتا هے که : آج کل کفر وظلم کے سرداروں کے مقاصد کاخلاصه ذیل میں کیا جا سکتاهے :
الف: اسلام سے جنگ ، اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کی محبوبیت میں رخنه ڈالنا ، اور قوم کو اسلام کی طرف مائل هونے سے روکنا تاکه اس کی وجه سے ان کے منافع خطرے میں نه پڑیں ۔
اس امر کی توضیح ضروری هے که اگرچه دین اسلام میں آخری نبی(ص) پر ایمان کی طرح تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری هے ، لیکن خاتم النبیین (ص) کی آخری پیغمبر کے عنوان سے یه خصوصیت هے که وه الٰهی ادیان کے جامع اور کامل دین رکھتے هیں وه دین جس پر صدیاں گذرنے کے باوجود کهنگی کی گرد و خاک کے نه بیٹھ سکی اور اس میں کسی طرح کی تغییر وتبدیلی اور تحریف نه هوسکی جو یکه وتنها زنده و جاوید دین هے بلکه گذشته تمام انبیاء اور ادیان کو زنده وجاوید رکھتے والا دین هے ۔
واضح سی بات هے که اگر عالم انسانیت یا عالم اسلام میں آخری نبی(ص) کے دین پر ایمان لاکرپوری طرح عمل کیا جائے تو ظلم و ستم کی کوئی جگه باقی نهیں ره سکتی ۔
اسی وجه سے آج کل کے ظالم وستمگر اس کوشش میں هیں که اس نور کو خاموش کر دیا جائے جب که تاریخ گواه هے که ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود انسانوں میں آخری نبی(ص) کی ذات والا صفات سب سے زیاده محبوب هے ۔
(کهه دو دین که حق آگیا اور باطل نه آغاز کر سکتا هے نه دوباره اسے انجام کو پهنچا سکتاهے) [16]
"( اے رسول) کهه دو که حق آگیا اور باطل نیست ونابود هوا یقیناً باطل مٹنے والا هی تھا "[17]
ب: تمام اقوام اور عوام کے ذهنوں کو مشرق وسطی میں خاص کر فلسطینیوں اور حزب الله کے مقابله میں اپنی سیاسی اور نظامی شکست سے غافل رکھنا اور پوری دنیا میں اپنی سیاسی مکاریوں اور نا زیبا اعمال پر پرده ڈالنا هے تاکه عمومی خیالات کی غفلت کے زیر سایه آسانی کے ساتھ اپنی گندی سیاستوں اورمکاریوں کو جاری رکھ سکیں ۔
ج: اسلامی جمهوریه ایران ، جو عالم اسلام کا ام القری هے سے مقاله کرنے کے لئے رائے عامه کو هموار کرنا ۔
[1] (یاَحَسۡر َۃًعَلَی الۡعَبادِ ماَ یاَتیھِمۡ مِنۡ رَسُولِ اِلاَّ کاَنُوا بِه یَسۡتَهۡزَوُنۡ ) یس 30 اور اسی طرح زخرف 7، حجر 11، انبیاء36، فرقان 4۔
[2] (کذلک ما اتی الذین من قبلھم من رسول الا قالوا ساحر او مجنون )ذاریات 52-35 / قصص ، 25/ مؤمنون 25 / اعراف 27و6 / شعراء 39 / ذاریات 66 / حجر 51 /قلم ،41 / دخان ، 36 /صافات ، 36 / انبیاء 30 / طور 47 و29 / اسراء ، 47 /حاقه 40۔41 / یس ، 69 / اور دوسری آیات ۔
[3] آل عمران 183 ، فرقان 8
[4] فرقان 21-32،8 / آل عمران ، 183 / نساء ، 153 / انعام ، 124 ،8 / زخرف 118 ۔31 / حجر ،7 / هود ، 12 / رعد ، 21 / عنکبوت ، 50 /شعراء ، 4 / یونس ، 15 / فرقان ، 32 /دخان ، 14 / اسراء ، 90-93 ۔
[5] فرقان ، 21-32 / انبیاء ، 36 / مطففین ، 29 / انعام ، 23 /اسراء ، 47 / لقمان ، 23 ۔
[6] آل عمران، 79- 80 /مائده ، 116-117
[7] قصص، 38 / مؤمنون ، 46-47
[8] حدید، 25
[9] زخرف ، 51
[10] احزاب ، 21 / حجرات ، 93 / زمر ، 9 /نساء ، 95 / حدید ، 10 / ممتحنه ، 40
[11] نمل ، 36 / بقره ۔ 205- 206 و 49 / ابراهیم ، 6
[12] توبه ، 128 /جمعه ، 2 / ھود ، 88 / کهف ، 6 / اعراف ، 79 و 68 و 62
[13] زخرف ، 54 -51 / نحل ، 34
[14] شعراء ، 215 / آل عمران ، 159-103 / نحل ، 125 / نساء ، 141 / بقره ، 109
[15] قصص ، 4 / طه ، 63-64 / و 70-71 / اعرا ف ، 124-120 / شعراء 46-49
[16] " قل جاءَ ال حقُّ و ما یُبدی الباطلُ و ما یُعید " سبا ، 49
[17] " و قُل جاءَ الحقُّ و زَھَقَ الباطلُ انَّ الباطلَ کانَ زَھوقا" اسراء ، 81