اس سلسلے میں قرآن مجید میں کوئی واضح بات بیان نھیں ھوئی ھے لیکن تاریخ کی کتابوں میں آیا ھے کھ حضرت آدم علیھ السلام کی خلقت چھه یا سات ھزار سال پھلے ھوئی ھے۔ البتھ یھ بات قطعا سائنسدانوں کے اس نظریھ کے ساتھه متناقض نھیں جس میں وه کھتے ھیں کھ زمین پر انسان کی عمر کروڑوں سال سے زیاده ھے۔ یعنی ممکن ھے کھ حضرت آدم علیھ السلام سے پھلے انسانی نوع کی ھزاروں نسلیں موجود ھوں اور وه مٹ گئ ھوں ۔ یھ نکتھ قرآنی آیات اور روایات کےساتھه میل بھی کھاتا ھے ۔
زمین پر بنی نوع انسان کی خلقت کے بارے میں آج تک کتنے سال گزر گئے ھیں؟ اس کے بارے میں قرآن مجید میں کوئی واضح بات نھیں کی گئی ھے۔
علامھ طباطبائی تفسیر المیزان میں فرماتے ھیں؛ یھود کی تاریخ میں آیا ھے کھ زمین پر بنی نوع انسان کے خلق ھونے کی عمر سات ھزار سال سے زیاده نھیں ھے اور عقلی اعتبار بھی اس تاریخ کی تائید کرتا ھے۔ کیونکھ نسل کا عامل دو آدمیوں کو سو سال میں ایک ھزار آدمی بناتا ھے ، اور جب اسی حساب سے سات ھزار سال کی مدت تک اوپر چلے جائیں گے یعنی ستر (۷۰) صدیوں تک جاری رکھیں گے تو ھم یھ دیکھیں گے کھ انسان کی تعداد ڈھائی بلین پھنچے گی اور یھ تعداد وھی آج کل کی موجوده تعداد ھے جسے بین الاقوامی اداروں نے بیان کیا ھے۔
پس عقلی دلیل بھی اسی کی تائید کرتی ھے جسے تاریخ نے بیان کیا ھے۔ ماھرین زمین جیولوجسٹس(Geologists) کا نقطھ نظر یھ ھے کھ انسان کی عمر کروڑوں سال ھے. اور اس کی دلیل وه انسانی ڈھانچے ھیں جو کھدائی کے دوران نکلے ھیں۔ ان کے علاوه انھوں نے قدیم انسانی ڈھانچوں کو نکالا جو پتھروں میں تبدیل ھوئے تھے جن کی عمر ان کے حساب سے پانچ لاکھه سال سے زیاده بتائی جاتی ھے ان کے اس نظریھ کی بیان شده دلیل کافی نھیں ھے کھ وه ثابت کرسکیں کھ یھ ڈھانچے آج کے اس انسان کے اجداد کے بدن کے ھیں جو پتھر میں تبدیل ھوئے ھیں ۔ اسی طرح اس بات پر بھی کوئی دلیل نھیں ھے کھ اس نظریھ کو رد کرسکیں، کھ یھ ڈھانچے آج کے دور کے انسان کے علاوه کسی اور دور کے انسان کے ھیں جو زمین پر رھتے تھے ۔ البتھ ممکن ھے کھ اسی طرح ھو اور ھمارا دور، ڈھانچوں کے دور کے انسان کے ساتھه جڑا ھوا نھ ھو۔ بلکھ ممکن ھے کھ وه حضرت آدم ابو البشر سے پھلے اس زمین پر رھتے ھوں پھر ختم ھوگئے ھوں ، اور انسانوں کی یھ خلقت اور نابودی کا سائیکل مکرر ھوا ھو یھاں تک کھ نسل حاضر کے انسان تک نوبت پھنچی ھو۔ [1] اس نقطھ نظر کو یھ بات قوت بخشتی ھے کھ حضرت آدم کی خلقت کا زمانھ نئی نسل کے انسان کی خلقت سے متعلق ھے اور ممکن ھے کھ حضرت آدم اور اس کی نسل حاضر سے پھلے دوسری مخلوق اور انسان کے دوسرے عالم اور دوسرے آدم اس زمین پر زندگی گزار رھے ھوں اور وه بھی ختم ھوگئے ھوں۔ اور آثار قدیمھ کے ماھرین کی دریافت سے نکلے انسانی ڈھانچے لاکھوں سال پھلے انسانوں کے ھوں جن کی عمریں پندره ھزار سال تک ھوتی تھی۔ اور یھ ڈھانچے اس انسان کے پھلے دور کے انسان سے متعلق ھوں۔ یھ نظریھ قرآن مجید[2] اور روایات[3] سے ھم آھنگ ھے۔
[1] طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ترجمھ ، ج ۴ ص ۲۲۲۔
[2] وه فرماتے ھیں : قرآن مجید واضح الفاظ میں زمیں پر انسان کی خلقت کی کیفیت کو بیان نھیں کرتا ھے کھ کیا اس انسان کا وجود زمین پر موجوده دور کے انسان میں منحصر ھے ، یا دوسرے دور بھی موجود تھے۔ اور ھمارا دور انسان کی خلقت کا آخری دور ھے؟ اگر چھ قرآنی آیات اور اسلامی روایات میں یھ بات ضمنی طور پر سمجھه میں آتی ھے کھ موجوده دور کے انسان سے پھلے اور انسان بھی موجود تھے جیسے کھ آیھ شریفھ میں ارشاد ھے : "واذ قال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلفیۃ قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء " اس سے یھ نکتھ واضح ھوتا ھے کھ آدم کی خلقت سے پھلے دوسرے دور بھی انسانیت کے گزرے ھیں ھاں اھل البیت علیھم السلام کے وارد شده روایات میں یھ بات ثابت ھوتی ھے کھ موجوده دور سے پھلے اور بھی دور انسانوں کے گزرے ھیں ( المیزان ج ۴ ص ۲۲۳)
[3] حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام فرماتے ھیں: شاید آپ لوگ یھ تصور کریں کھ آپ سے پھلے خداوند متعال نے اور کسی انسان کو خلق نھیں کیا ھے ، نھیں ، ایسا بالکل نھیں ھے ، بلکھ ھزاروں ھزار آدم خلق ھوئے ھیں ، اور آپ اس آدم کی آخری نسل سے ھیں ( توحید صدوق ، ج ۲ ص ۲۷۷ ، طبع تھران ) ابن میثم بھی نھج البلاغھ کی شرح میں بھی اسی مفھوم کی ایک اور حدیث حضرت امام محمد باقر علیھ السلام سے نقل کرتے ھیں ( ابن میثم شرح نھج البلاغھ ج ۱ ص ۱۷۳) مرحوم صدوق نے اسی کو اپنی کتاب "خصال" میں نقل کیا ھے ، (خصال ج ۲ ص ۶۵۲ ، ح ۵۴) اور خصال میں امام صادق علیھ السلام سے روایت نقل کی ھے کھ امام نے فرمایا: خداوند متعال نے باره ھزار عالم قراردئے ھیں کھ ان میں کا ھر عالم سات آسمان اور سات زمینوں سے بڑا ھے ان میں ھر عالم کے رھنے والے کبھی یھ تصور نھیں کرسکتے ھیں کھ خدا نے اس کے عالم کے علاوه کوئی اور عالم بھی بنایا ھے (خصال ج ۲ ص ۶۳۹، ح ۱۴) اور اسی کتاب میں حضرت امام باقر سے مروی ھے کھ آپ نے فرمایا: خداوند متعال نے اسی زمین پر جب سے اس کو خلق کیا ھے سات عالم بھی خلق کئے ھیں ( پھر انھیں ختم کیا ھے ) اور ان میں سے کوئی بھی عالم حضرت آدم ابو البشر کی نسل سے نھیں ھے اور خداوند متعال نے عالموں کو زمین کے چھلکے سے بنایا اور ایک نسل کو دوسری نسل کے بعد خلق کیا اور ھر ایک عالم کیلئے ایک اور عالم خلق کیا ھے یھاں تک آخر میں حضرت آدم ابو البشر کو خلق کیا اور اسکی نسل سے اسے نکالا ، (خصال ج ۲ ص ۳۵۸ ، ح ۴۵)۔