قرآن مجید نے چشم زخم اور بد نظری کے عنوان سے ایک حقیقت کو قبول کیا ہے اور اس کی کئی مثالوں کی طرف اشارہ کیا ہے، اسلاف کے بارے میں قرآن مجید اور تاریخ کی گزارشات بھی اس امر کی تائید کرتی ہیں-
آج کے دانشور بھی اس امر کے قائل ہیں کہ بعض افراد اپنی نوعیت کی روح اور طاقت کے مالک ھوتے ہیں اور وہ اشیاء کو نہ صرف جا بجا کرسکتے ہیں، بلکہ لیزری شعاعوں کے مانند انھیں منفجر اور نابود کرسکتے ہیں- البتہ تمام انسان قدرتی طور پر اس قسم کی طاقت اور انرجی کے مالک ھوتے ہیں، لیکن بعض افراد میں فطری اسباب یا خاص تربیت اور ظاہری یا باطنی تبدیلیوں کہ وجہ سے یہ انرجی تقویت پاتی ہے اور خودبخود اس کے آثار نمودار ھوتے ہیں-
اسلام نے چشم زخم کے برے اثرات سے بچنے کے لئے، توبہ اور یاد خدا کا نسخہ پیش کیا ہے اس کے علاوہ صدقہ دینے کی بھی تاکید کی گئی ہے-
بعض افراد، چشم زخم اور بد نظری کو خرافات جانتے ہیں اور اس کے بارے میں کسی قسم کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں- اس کے باوجود لگتا ہے کہ قرآن مجید اس کے برعکس ، نہ صرف چشم زخم کو خرافات نہیں جانتا ہے بلکہ اس کی مثالوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے اور اسلاف و گزشتگان کے بارے میں قرآن مجید و تاریخ کی گزارشات بھی اس کی تائید کرتی ہیں-
سائنسی تحقیقات سے ثابت ھوا ہے کہ انسان کے اندر حیرت انگیز انرجی اور طاقت موجود ہے کہ جس کے مثبت یا منفی اثرات ھوسکتے ہیں-
آج کے دانشور بھی اس امر کے قائل ہیں کہ بعض افراد بے مثال اور اپنی نوعیت کی روح اور طاقت کے مالک ھوتے ہیں اور وہ اشیاء کو نہ صرف جا بجا کرسکتے ہیں، بلکہ لیزری شعاعوں کے مانند انھیں منفجر اور نابود کرسکتے ہیں- یہ انرجی کبھی انسان کی آنکھوں سے چمکتی ہے-
آنکھوں کی تخریب کاری کی طاقت، ہر شخص کی باطنی طاقت پر منحصر ہے اور یہ طاقت ہر ایک شخص میں مختلف ھوتی ہے- انسان، قدرتی طور پر اس قسم کی انرجی اور توانائی کے مالک ھوتے ہیں- لیکن بعض افراد میں فطری اسباب یا خاص تربیت اور ظاہری اور باطنی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ انرجی تقویت پاتی ہے اور خود بخود اس کے آثار نمودار ھوتے ہیں- لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ مخصوص توانائی بعض افراد میں ھو اور دوسرے اس سے محروم ھوں، بلکہ ہر انسان میں اس قسم کی انرجی اور توانائی پائی جاتی ہے-
مفسرین اس امر کے قائل ہیں کہ یہ طاقت بعض لوگوں کی آنکھوں میں تقویت پاتی ہے اور اس قسم کا انسان خاص شعاعوں کے ذریعہ دوسروں پر اثر ڈال سکتا ہے – بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسے انسانوں کو دیکھا ہے یا انھیں پہچانتے ہیں، جو اپنی آنکھوں کے ذریعہ کسی حیوان کو مارسکتے ہیں یا کسی چیز کو جا بجا کرسکتے ہیں یا نابود کرسکتے ہیں- ان کی نظر میں نہ صرف ان امور کی ہٹ دھرمی سے انکار کرنا چاہئے بلکہ اس حقیقت کو عقل و علم سے بعید نہیں جاننا چاہئے، بلکہ اسے قبول کرنا چاہئے-[1]
امیرالمومنین حضرت علی {ع} سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: " العین حق والرقی حق"[2] " چشم زخم حق ہے اور اس کے علاج کے لئے دعا و توسل بھی حق ہے" تفسیر نمونہ کے مفسرین اس امر کے قائل ہیں کہ خداوند متعال سے دعا اور توسل انسان کی آنکھوں کی پوشیدہ طاقت کو بے اثر کر سکتے ہیں اور اس کے تخریب کا رانہ اثرات سے بچا سکتے ہیں یا انھیں کم کر سکتے ہیں-[3] رسول اکرم {ص} سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ {ص} نے فر ما یا: " چشم زخم ایک حقیقت ہے اور یہ انسان کو قبر میں اور اونٹ کو دیگ میں ڈال سکتی ہے-"[4] ایک دن آنحضرت {ص} قبرستان بقیع سے گزر رہے تھے ، اپنے ساتھیوں سے فرمایا: خدا کی قسم؛ اس قبرستان میں دفن شدہ اکثر افراد چشم زخم کی وجہ سے آرام کئے ھوئے ہیں-"[5]
خداوند متعال چشم زخم کے بارے میں پیغمبر اکرم {ص} سے فر ماتا ہے:" اور یہ کفار قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپ کو نظروں سے پھسلا دیں گے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے-"[6]
علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں :" تمام مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے چشم زخم سے معنی کئے ہیں ، جو بذات خود نفسانی اثرات میں سے ایک اثر ہے اور اس کی نفی کرنے میں ہمارے پاس کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ ایسے حوادث کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جو بدنظری سے مطابقت رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میں کئی روایات بھی نقل کی گئی ہیں-
اسی طرح چشم زخم سے بچنے کے لئے فرماتا ہے:"{ حضرت یعقوب{ع} نے اپنے فرزندوں کو حکم دیا} میرے فرزندو دیکھو سب ایک دروازہ سے داخل نہ ھونا اور متفرق دروازوں سے داخل ھونا کہ میں خدا کی طرف سے آنے والی بلاوں میں تمھارے کام نہیں آسکتا-"[7]
مفسرین کا یہ اعتقاد ہے کہ حضرت یعقوب {ع} کے اس حکم کا سبب یہ تھا کہ حضرت یوسف {ع} کے بھائیوں کا ایک ساتھ داخل ھونا ممکن تھا بعض لوگوں کی توجہ کا مرکز اور چشم زخم کا سبب بن جاتا کیونکہ وہ سب حسن و جمال اور قد و قامت میں حضرت یوسف [ع} جیسے حسین وجمیل تھے[8]
امام صادق {ع} فرماتے ہیں:" اگر قبروں کو کھول کے دیکھو گے ، تو معلوم ھوگا کہ اکثر مردے ، چشم زخم کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے ہیں، کیونکہ چشم زخم ایک حقیقت ہے-[9]
بہرحال عقل وعلم اور تجربہ سے ثابت ھوا ہے کہ انسان حیرت انگیز نفسانی اور روحانی توانائیوں کا مالک ہے جنکے مختلف منفی یا مثبت نتائج نکل سکتے ہیں-
علاج اور پرہیز:
چشم زخم کی حقیقت کو قبول کرنا، خرافاتی اور عامیانہ کاموں کا سہارا لینے کے معنی میں نہیں ہے- اسلام نے چشم زخم سے بچنے کے لئے ، توبہ اور خدا کی یاد کا نسخہ پیش کیا ہے، اسی طرح صدقہ دینے کی بھی تاکید کی گئی ہے- امام صادق {ع} فرماتے ہیں:" اگر گھر سے شان وشوکت اور قابل توجہ حالت میں باہر جانا چاہتے ھو تو معوذتین {یعنی سورہ فلق اور ناس} پڑھنا تاکہ کوئی آنکھ تم پر اثر انداز نہ ھوسکے-[10] ایک دوسری روایت میں حضرت {ع} فرماتے ہیں:" اگر چشم زخم سے کبھی ڈر گئے تو پڑھنا چاہئے:"ماشاءاللہ لا قوہ الاباللہ العلی العظیم"[11]
امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ: اگر کوئی شخص چشم زخم سے ڈرتا ہے تو اسے تین مرتبہ:" ما شاءاللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم" اور سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھنا چاہئے، تاکہ چشم بد اس پر اثر نہ کرسکے- اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ آیہ شریفہ" وان یکاد" کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھیں-
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ رسول اکرم {ص} نے امام حسن {ع} اور امام حسین{ٰٰع} کو چشم زخم سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک دعا پڑھی، جس کا مضمون یہ تھا: "اعیذكما بكلمات الله التامه و اسماءالله الحسنی كلها عامه من شر السامه و الهامه و من شر كل عین لامه و من شر حاسد اذا حسد" یعنی، میں تمھیں خداوند متعال کے تمام کلمات اور اسمائے حسنی کے حوالے کرتا ھوں تاکہ تم موت، موذی حیوانات، چشم بد اور حسود کی حسدورزی سے محفوظ رھو گے-" اس کے بعد پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا:" حضرت ابراھیم {ع} نے اپنے دو بیٹوں: اسحاق و اسماعیل کے لئے ایساہی کیا ہے"-[12] و [13]
لیکن یہ جو آپ نے کہا ہے کہ آپ میں ایک ایسی حالت ہے کہ جب کسی کی تعریف کرتے ھو تو فورا وہ شخص چشم زخم سے دوچار ھوکر تکلیف میں مبتلا ھوتا ہے- آپ کو کیسے یقین ھوا ہے کہ یہ نقصان آپ کی نظر کی وجہ سے پہنچا ہے؟
شاید کوئی اور سبب ھو اور آپ کی نظر کے زمانے میں ہی یہ واقع رونما ھوا ھو، اور لگتا ہے کہ آپ اس مسئلہ کے بارے میں حد سے زیادہ حساس ھوئے ہیں- بہرحال چونکہ یہ اتفاقات آپ کے اختیار سے باہر ہیں، اس لیے اسلام کے مطابق آپ کے لئے گناہ اور مسئولیت نہیں ہے-
احادیث کی کتابوں کے مطالعہ کے دوران ہمیں کچھ ایسی احادیث ملی ہیں ، جن میں بیان کیا گیا ہے کہ ان حالات سے کیسے رہائی پائی جاسکتی ہے تاکہ دوسروں کو کوئی ضرر نہ پہنچے-
اس قسم کی احادیث میں سے ہم ذیل میں ایک حدیث کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
"جب کسی مومن بھائی کی خصوصیت تمھیں تعجب سے دوچار کرے، تو اس وقت تکبیر" اللہ اکبر" پڑھنا اور ذکر خدا بجالانا چاہئے-[14] الحمد للہ اور قل ھواللہ احد اور سورہ " فلق" اور سورہ" ناس" اور آیت الکرسی پڑھنی چاہئے- ایسے مواقع پر، «ماشاء الله» و «تبارک الله» یا «اللَّهُ اللَّهُ ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» جیسی عبارتیں پڑھنی چاہئے-[15]
[1] تفسير نمونه، ج24 ص427
[2] نهج البلاغه؛ كلمات قصار جمله 400
[3] تفسير نمونه ج24 ص428
[4] بحارالانوار؛ ج63
[5] تفسير منهج الصادقين ج9 ص391
[6] قلم،51:" وَ إِن يَكاَدُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَيزُْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سمَِعُواْ الذِّكْرَ وَ يَقُولُونَ إِنَّهُ لمََجْنُون "
[7] يوسف، 67 :" وَ قَالَ يَابَنىَِّ لَا تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَ ادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَ مَا أُغْنىِ عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شىَْءٍ إِنِ الحُْكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكلَّْتُ وَ عَلَيْهِ فَلْيَتَوَكلَِ الْمُتَوَكِّلُون
[8] تفسير نمونه ج6 ص29و 30
[9] بحارالانوار، ج60، ص250)
[10] بحارالانوار ، ج92، ص1330)
[11] بحارالانوار ، ج60، ص026)
[12] بحارالانوار، ج60، ص60
[13] مضمون" شور چشمی" سے ماخوذ-
[14] طب، [طب الأئمة عليهم السلام] مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنَ مِهْرَانَ عَنْ زِيَادِ بْنِ هَارُونَ الْعَبْدِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَجَلِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ مَنْ أَعْجَبَهُ شَيْءٌ مِنْ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ فَلْيُكَبِّرْ عَلَيْهِ فَإِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ
مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْمُخْتَارِ عَنْ صَفْوَانَ الْجَمَّالِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ لَوْ نَبَشَ لَكُمْ مِنَ الْقُبُورِ لَرَأَيْتُمْ أَنَّ أَكْثَرَ مَوْتَاكُمْ بِالْعَيْنِ لِأَنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ إِلَّا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ الْعَيْنُ حَقٌّ فَمَنْ أَعْجَبَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَلْيَذْكُرِ اللَّهَ فِي ذَلِكَ فَإِنَّهُ إِذَا ذَكَرَ اللَّهَ لَمْ يَضُرِّهُ. بحارالأنوار ج : 92 ص : 127
[15] مكا، [مكارم الأخلاق] لِلْعَيْنِ مَعْمَرُ بْنُ خَلَّادٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ الرِّضَا ع بِخُرَاسَانَ عَلَى نَفَقَاتِهِ فَأَمَرَنِي أَنْ أَتَّخِذَ لَهُ غَالِيَةً فَلَمَّا اتَّخَذْتُهَا فَأَعْجَبَ بِهَا فَنَظَرَ إِلَيْهَا فَقَالَ لِي يَا مَعْمَرُ إِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ فَاكْتُبْ فِي رُقْعَةٍ الْحَمْدَ لِلَّهِ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ وَ آيَةَ الْكُرْسِيِّ وَ اجْعَلْهَا فِي غِلَافِ الْقَارُورَةِ وَ مِثْلُهُ وَ رُوِيَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ الْعَيْنُ حَقٌّ وَ لَيْسَ تَأْمَنُهَا مِنْكَ عَلَى نَفْسِكَ وَ لَا مِنْكَ عَلَى غَيْرِكَ فَإِذَا خِفْتَ شَيْئاً مِنْ ذَلِكَ فَقُلْ ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ثَلَاثاً وَ قَالَ إِذَا تَهَيَّأَ أَحَدُكُمْ تَهْيِئَةً تُعْجِبُهُ فَلْيَقْرَأْ حِينَ يَخْرُجُ مِنْ مَنْزِلِهِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فَإِنَّهُ لَا يَضُرُّهُ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ عَنْهُ ع قَالَ مَنْ أَعْجَبَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَلْيُبَارِكْ عَلَيْهِ فَإِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ . بحارالأنوار ج : 92 ص : 128. الْجَوَامِعُ لِلطَّبْرِسِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ص مَنْ رَأَى شَيْئاً يُعْجِبُهُ فَقَالَ اللَّهُ اللَّهُ ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ بحارالأنوار ج : 92 ص : 133